Monday, December 14, 2015

Dec215: Foggy decision making!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
باعث پریشانی تذبذب!
سولہ دسمبر کے ’سانحۂ پشاور‘ کا دُکھ ’اجتماعی شعور کے اِظہار‘ اُور ملک دشمنوں کے خلاف مثالی ’اِتحادویک جہتی‘ کے مظاہرے کا متقاضی تھا لیکن افسوس کہ ہم نے روائتی طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’144 قربانیوں کو کہانیوں کا رنگ‘ دے کر خاطرخواہ شعوری خراج عقیدت و تحسین پیش نہیں کیا! بہرکیف آرمی پبلک سکول پر حملے کی پہلی برسی کی مناسبت سے صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کے لئے ’عام تعطیل‘ کا اِعلامیہ (نوٹیفیکیشن) چودہ دسمبر کے روز دفتری اوقات کے اختتام تک جاری نہیں ہوسکا اور حسب سابق اگر یہ پندرہ دسمبر کی رات گئے جاری کیا جاتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی صورتحال والدین اور اساتذہ سمیت تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے لئے بھی شدید پریشانی کا سبب بنے گی کیونکہ ضروری نہیں کہ سبھی والدین کیبل نیٹ ورک کے ذریعے نجی ٹیلی ویژن چینلز سے جڑے ہوں یا اُن کے پاس موبائل فونز بھی ہوں۔

تعلیمی ادارے اس صورتحال میں خود کو ’بے بس‘ سمجھتے ہیں کہ راتوں رات اور بالخصوص رات کے پہلے پہر میں لاکھوں کی تعداد میں والدین کو مطلع کرنا کہ ’کل تعطیل ہو گی‘ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ حکومتی نکتۂ نظر سے تعلیمی اداروں کی عام تعطیل کا فیصلہ حفاظتی نکتۂ نظر سے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ سانحۂ پشاور کی برسی کے موقع پر دہشت گرد قوم کو ایک نیا زخم دینے کی کوشش کریں لیکن اگر یہ منطق درست مان بھی لی جائے تو تعطیل کا بروقت اعلان نہ کرنا درحقیقت سیکورٹی خدشات کو کم کرنے کا نہیں بلکہ اِن میں اضافے کا مؤجب بنتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے صبح تیار ہو کر سکولوں کو پہنچتے ہیں‘ جہاں داخلی دروازوں پر لگے تالے اور چوکیداروں کے بیزار لہجے اُن کا خیرمقدم کرتے ہیں! کیا ضروری نہیں تھا کہ سانحۂ پشاور کی یاد میں تعطیل کی بجائے ہر تعلیمی ادارے میں ’قرآن خوانی اور فاتحہ‘ کا اہتمام کیا جاتا؟ ہر تعلیمی ادارے میں تدریسی عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ کرکے تعلیم دشمنوں کے جسم ہی نہیں بلکہ اُن کے نظریات پر بھی وار کئے جاتے؟

معروف سیاسی تجزیہ نگار اردشیر کاؤس جی (1926ء سے 2012ء) سرکاری تعطیلات کے انتہائی مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ ہفتہ وار تعطیل کے علاؤہ قوم کسی دوسرے موقع پر کام کاج سے ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اُن کی متعدد تحریروں اور انٹرویوز پاکستانی قوم کو ’ہولی نیشن (مقدس قوم)‘ قرار دیا گیا‘ اور جب اُن سے وجہ پوچھی کہ ’ہولی نیشن کیسے؟‘ تو مخصوص مسکراہٹ اور دبدبے والے لہجے میں کہا ’’بیکاز وی ہیو سو مینی ہولیڈیز (کیونکہ ہم بہت سی تعطیلات جو کرتے ہیں)۔ کاؤس جی نے انگریزی زبان کے لفظ ’ہولی (Holy)‘ کا استعمال Holi سے کیا جو زبان دانی اور انگریزی زبان پر اُن کے عبور کا عکاس تھا۔ بہرکیف سرکاری ہوں یا نجی‘ ہمارے تعلیمی انتظامی ڈھانچے میں سنجیدہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

تعلیم ایک نوکری یا کاروبار کسی صورت نہیں ہونا چاہئے اور یہ خالصتاً ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے منفی محرکات کا ازالہ کرے‘ جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ’درس و تدریس کا عمل‘ اپنی معنویت و مقصدیت کی منزل سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے! مسئلہ یہ نہیں کہ عید کے چاند کی طرح عام تعطیل کا اعلان اس قدر تاخیر سے کرنے والے فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کا احساس نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچے (معاملات) کچھ اس انداز میں مرتب کئے گئے ہیں کہ ٹیوشن فیس کے علاؤہ ’یہ وہ واجبات‘ کے علاؤہ والدین کو دیگر امور سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ تعلیمی اداروں کی اکثریت والدین کو بذریعہ ’فون کالز‘ یا ’ایس ایم ایس‘ تعطیل سے متعلق آگاہ کرنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی۔ خیبرپختونخوا کے تعلیمی منظرنامے میں ایک فریق صوبائی حکومت ہے‘ جس نے تعلیمی نصاب‘ ادارہ جاتی سطح پر بنیادی سہولیات کی ’کم سے کم‘ فراہمی کا معیار اُور انتظامی قواعد و ضوابط طے کرنے جیسی ذمہ داریاں اپنے ذمے لے رکھی ہیں‘ لیکن کیا متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریاں تسلی بخش انداز میں سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ماہرین تعلیم یا والدین کی تشویش پر مبنی نکتۂ نظر کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ نظام تعلیم کا دوسرا فریق ہمارے تعلیمی ادارے ہیں‘ جنہیں اگر سرکاری و نجی درجات میں تقسیم کریں تو دونوں کی سطح پر صرف والدین ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی ذہانت سے بھی استفادہ کم ترین سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پورے کا پورا نظام ’نصابی اسباق‘ کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ جس میں طلباء و طالبات کی اکثریت کا ویژن (بصیرت) ’رٹے رٹاے‘ جملوں کی حد تک محدود دکھائی دیتا ہے۔ درس وتدریس کے عمل میں تیسرے فریق کا وجود تعلیمی عمل یا اس کے معیار سے زیادہ ’جائز و ناجائز‘ اخراجات کی بروقت ادائیگی کے بارے میں زیادہ فکر مند (ہلکان) رہتا ہے۔

 تعلیمی نظام کی اِس ’سہ فریقی تکون‘ میں طلباء و طالبات پر کئی ایسے نفسیاتی دباؤ ہیں‘ جنہیں کم کرنے کے لئے اُن سے تعلیمی اداروں (اجتماعی) یا گھر (انفرادی) کی سطح پر تبادلۂ خیال یعنی کونسلنگ نہیں کی جاتی۔ راقم الحروف نے ذاتی طور پر درجنوں والدین سے بات چیت کے دوران یہ افسوسناک نتیجہ اخذ کیا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو اس حد تک محدود سمجھ لیا ہے کہ بچوں کو کسی سرکاری یا نجی سکولوں سے وابستہ کرنے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے اور سوفیصد والدین اساتذہ کے نام اور اُن کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں واجبی معلومات بھی نہیں رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ (خالص منافع کی لالچ میں) نجی تعلیمی اِداروں میں اساتذہ کے بھرتی کرنے کا معیار ’کم تنخواہ و مراعات‘ رکھا جاتا ہے جبکہ فی کلاس روم طالبعلموں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے بارے میں بھی زیادہ دردمندی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ تصور کیجئے کہ بطور معلم یا معلمہ کسی انسان کے لئے کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ تعداد میں پچیس یا تیس سے زیادہ بچوں کو مکمل توجہ دے سکے اور ایسے ’اوور لوڈ‘ اساتذہ کے لئے کسی موضوع پر درس (لیکچر) دیتے (جھاڑتے) ہوئے طالبعلموں کی ذہانت و نفسیاتی تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کی اُمید رکھنا‘ خودفریبی ہی ہوگی! یہی سبب ہے کہ درس وتدریس کے عمل میں سوال کرنے کی حوصلہ شکنی عمومی روش ہے۔

 تعلیم اور نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چیخ و پکار کے لہجے میں اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ سے سہمے ہوئے بچوں کی شخصیت سازی میں ایک نہیں بہت سے خلأ رہ جاتے ہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر سوچئے کہ جہاں تعطیل جیسا فیصلہ ’’بروقت‘‘ نہ ہو سکے‘ وہاں کے طالبعلم اگر اپنی عملی زندگی میں نظم و ضبط اُور خوداعتمادی کے فقدان کا چلتا پھرتا ’نمونہ‘ ثابت ہوں‘ تو اِس پر تعجب کا اظہار ہونا چاہئے؟

No comments:

Post a Comment