ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
روشن خیال امریکہ: خوفناک سچائی!
روشن خیال امریکہ: خوفناک سچائی!
اَمریکہ کا سیاسی منظرنامہ تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ماضی میں معیشت
اور ملازمتوں کے گرد گھومنے والا سیاسی و انتخابی بحث و مباحثے کو اب مذہب
سے جڑے خوف نے یرغمال بنا لیا ہے۔ راقم کو تو اپنے جگری دوست ’سعید آغا‘ کی
فکر کھائے جا رہی ہے جو نیویارک میں اقتصادی مجبوریوں سے زیادہ ضد کے باعث
قیام پذیر ہے اور اُمید سے ہے کہ اُسے آئندہ چند ماہ میں امریکی شہریت مل
جائے گی! امریکی معاشرے کی خوبیاں گنوانے والے ایسے بہت سے دوستوں سے حالیہ
چند دنوں میں ہوئی بات چیت سے اُن کے لہجوں میں چھپی تشویش ظاہر ہوئی۔
امریکہ کو تعصبات سے پاک کہنے والے آج اگر کسی درجے خوفزدہ ہیں تو بھی
انہیں وہاں کے معاشی و سیاسی‘ اقتصادی اور انصاف کے نظام میں خوبیاں ہی
خوبیاں نظر آتی ہیں! حقیقت حال تو یہ ہے کہ آج کے امریکہ اور یورپی ممالک
میں جس قدر مذہبی منافرت اور بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کا اظہار عام ہو رہا
ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی! امریکہ کے معروف بزنس مین‘ چار ارب
ڈالر کے اثاثہ جات کے مالک‘ 69 سالہ ڈونلڈ جان ٹرمپ (Donald John Trump)
صدر بننے کے متمنی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بیان داغا ہے کہ ’’انہیں
امریکہ نہ آنے دیا جائے‘‘ تو اس کی مذمت مہذب کہلانے والے معاشرے کی اکثریت
نے نہیں بلکہ اقلیت نے کی ہے۔ درحقیقت ٹرمپ اس پانچ سال کے بگڑے ہوئے بچے
کی طرح ہیں جو سب کی توجہ حاصل کرنے کے لئے عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے۔
یہی حال پاکستان کے سیاست دانوں کا بھی ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام
کی توجہ اپنی ذات پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں جس کے لئے دھرنے‘ مارچ اور آئے
روز مظاہرے ایک ایسا معمول ہیں‘ جس سے خود اُن کی اپنی اکتاہٹ صاف جھلکتی
ہے۔
مسلمانوں کی امریکی امیگریشن پر پابندی کا تصور پیش کرنے پر صدارتی اُمیدوار ٹرمپ کے خلاف جو محاذ کھل گیا ہے‘ یہ بالکل وہی ردعمل ہے جو ٹرمپ یا اُن کی قریبی ساتھی چاہتے تھے اور بدقسمتی سے مسلمان اُن کے اِس جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ انہوں نے نسل اور میکسیکن جیسے مسائل سے توجہ مذہب کی جانب موڑ دی ہے‘ اور انتخابی کامیابی کے لئے متنازع چیزوں کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پیرس اور کیلیفورنیا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نئی روح اور توانائی پھونک دی ہے۔ توجہ مرکوز رہے کہ ’مذہبی منافرت (بشمول فرقہ واریت)‘ کو انتہائی چالاکی سے زیادہ سے زیادہ انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کرنا صرف امریکی سیاست ہی کی سوچ نہیں بلکہ یہ رجحان پاکستان میں بلدیاتی اداروں سے لیکر قومی و صوبائی قانون ساز ایوانواں کے لئے اُمیدواروں کے قول و فعل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو وہاں ایسے ’منفرد پیغامات‘ لانا الیکشن حکمت عملی کا حصہ رہا ہے جس کا مقصد مرکزی دھارے کے امریکہ میں مقبولیت حاصل کرنا ہوتی ہے تاکہ مدمقابل کو مشکل میں ڈالا جا سکے اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ڈیموکریٹ ووٹ کم کیا جا سکے‘ جو دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ عام حالات میں تو یہ صرف خوف کے شکار ایک شخص کے شور و غل کی طرح محسوس ہوتا لیکن یہ عام حالات نہیں ہیں۔ سیاسی تقسیم ایک انتہائی خطرناک موڑ لے کر اب امریکہ کے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہے جہاں دونوں ہی گروہوں کے افراد کروڑوں ہیں۔ یہ مرغوں کی ایسی لڑائی کی طرح ہے جس میں کوئی بھی زخم کھائے بغیر یا نقصان اٹھائے بغیر باہر نہیں آتا اور جو نقصان پہنچے گا‘ وہ زبردست اور نسلوں تک جاری رہنے والا ہوگا۔
امریکہ میں جیسے جیسے سال 2016ء کے لئے جاری مرکزی انتخابی مہم آگے بڑھ رہی ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فائدے کے لئے اسے پرپیچ و خطرناک موڑ دے رہے ہیں۔ مسلمان تارکینِ وطن اور وہیں پیدا ہونے والے مسلمان شدید خوف کا شکار ہیں جیسے کہ وہ بیچ گرداب پھنس گئے ہوں اور اب انہیں اپنے بچاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے رہی ہو! پیرس کے دہشت گرد حملوں سے لے کر کیلیفورنیا میں ہونے والی فائرنگ (شوٹنگ) تک‘ سارے واقعات امریکی مسلمانوں کے لئے بُرے خواب کی طرح ہیں اور دونوں ہی جانب موجود مذہبی طور پر جوشیلے افراد انتہاء کی سیاست کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ کی مہم مسلمان مخالف پیغام کے ساتھ جاری رہتی ہے اور کیا وہ بنیادی کامیابیاں حاصل کر لیں گے؟ اگر وہ واقعی کامیاب رہتے ہیں‘ تو مذہب اور نسل کے خلاف بیانات کو دھیما کر دیا جائے گا تاکہ ٹرمپ کلنٹن کا جم کر مقابلہ کر سکیں اور یہ بھی ایک چال ہی ہوگی۔ سردست امریکی مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے کئی بنیادی سوالات تسلی بخش جواب چاہتے ہیں: کیا امریکہ میں واقعی آبادی کا بڑا حصہ جو اب تک تو خاموش تھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ہی (مسلمان مخالف) خیالات کا حامل ہے؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم صرف ایک سیاسی چال ہے یا پھر یہ مرکزی دھارے کے امریکہ کے لئے ایک خوفناک سچائی بن کر اُبھرے گی؟ کیا امریکہ اس حد تک تبدیل ہونے جا رہا ہے جو کسی صلیبی جنگ کو مسلط نہیں بلکہ اپنے ہاں سے شروع کرے گا؟
مسلمانوں کی امریکی امیگریشن پر پابندی کا تصور پیش کرنے پر صدارتی اُمیدوار ٹرمپ کے خلاف جو محاذ کھل گیا ہے‘ یہ بالکل وہی ردعمل ہے جو ٹرمپ یا اُن کی قریبی ساتھی چاہتے تھے اور بدقسمتی سے مسلمان اُن کے اِس جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ انہوں نے نسل اور میکسیکن جیسے مسائل سے توجہ مذہب کی جانب موڑ دی ہے‘ اور انتخابی کامیابی کے لئے متنازع چیزوں کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پیرس اور کیلیفورنیا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نئی روح اور توانائی پھونک دی ہے۔ توجہ مرکوز رہے کہ ’مذہبی منافرت (بشمول فرقہ واریت)‘ کو انتہائی چالاکی سے زیادہ سے زیادہ انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کرنا صرف امریکی سیاست ہی کی سوچ نہیں بلکہ یہ رجحان پاکستان میں بلدیاتی اداروں سے لیکر قومی و صوبائی قانون ساز ایوانواں کے لئے اُمیدواروں کے قول و فعل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو وہاں ایسے ’منفرد پیغامات‘ لانا الیکشن حکمت عملی کا حصہ رہا ہے جس کا مقصد مرکزی دھارے کے امریکہ میں مقبولیت حاصل کرنا ہوتی ہے تاکہ مدمقابل کو مشکل میں ڈالا جا سکے اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ڈیموکریٹ ووٹ کم کیا جا سکے‘ جو دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ عام حالات میں تو یہ صرف خوف کے شکار ایک شخص کے شور و غل کی طرح محسوس ہوتا لیکن یہ عام حالات نہیں ہیں۔ سیاسی تقسیم ایک انتہائی خطرناک موڑ لے کر اب امریکہ کے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہے جہاں دونوں ہی گروہوں کے افراد کروڑوں ہیں۔ یہ مرغوں کی ایسی لڑائی کی طرح ہے جس میں کوئی بھی زخم کھائے بغیر یا نقصان اٹھائے بغیر باہر نہیں آتا اور جو نقصان پہنچے گا‘ وہ زبردست اور نسلوں تک جاری رہنے والا ہوگا۔
امریکہ میں جیسے جیسے سال 2016ء کے لئے جاری مرکزی انتخابی مہم آگے بڑھ رہی ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فائدے کے لئے اسے پرپیچ و خطرناک موڑ دے رہے ہیں۔ مسلمان تارکینِ وطن اور وہیں پیدا ہونے والے مسلمان شدید خوف کا شکار ہیں جیسے کہ وہ بیچ گرداب پھنس گئے ہوں اور اب انہیں اپنے بچاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے رہی ہو! پیرس کے دہشت گرد حملوں سے لے کر کیلیفورنیا میں ہونے والی فائرنگ (شوٹنگ) تک‘ سارے واقعات امریکی مسلمانوں کے لئے بُرے خواب کی طرح ہیں اور دونوں ہی جانب موجود مذہبی طور پر جوشیلے افراد انتہاء کی سیاست کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ کی مہم مسلمان مخالف پیغام کے ساتھ جاری رہتی ہے اور کیا وہ بنیادی کامیابیاں حاصل کر لیں گے؟ اگر وہ واقعی کامیاب رہتے ہیں‘ تو مذہب اور نسل کے خلاف بیانات کو دھیما کر دیا جائے گا تاکہ ٹرمپ کلنٹن کا جم کر مقابلہ کر سکیں اور یہ بھی ایک چال ہی ہوگی۔ سردست امریکی مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے کئی بنیادی سوالات تسلی بخش جواب چاہتے ہیں: کیا امریکہ میں واقعی آبادی کا بڑا حصہ جو اب تک تو خاموش تھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ہی (مسلمان مخالف) خیالات کا حامل ہے؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم صرف ایک سیاسی چال ہے یا پھر یہ مرکزی دھارے کے امریکہ کے لئے ایک خوفناک سچائی بن کر اُبھرے گی؟ کیا امریکہ اس حد تک تبدیل ہونے جا رہا ہے جو کسی صلیبی جنگ کو مسلط نہیں بلکہ اپنے ہاں سے شروع کرے گا؟
![]() |
Worries about internal politics of USA |
No comments:
Post a Comment