ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوچ کا جاری سفر!
سوچ کا جاری سفر!
سولہ دسمبر کا دن کیسے گزر سکتا ہے جب 1971ء میں پاکستان کا ایک حصہ علیحدہ
ہوا۔ کون جانتا تھا کہ یہ دن اپنے دامن میں ایک اُور سانحہ بھی سموئے ہوئے
ہوگا یقیناًجن قوتوں نے 1971ء میں وار کیا‘ انہی منصوبہ سازوں نے 2014ء
میں پھر سے ہمیں یاد دلایا ہے کہ دیکھا کس طرح پاکستان کو شکار کیا گیا! جس
طرح سقوط ڈھاکہ بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے اسی طرح سانحۂ پشاور کے حوالے
سے بھی سوالات کی کمی نہیں جنہیں سولہ دسمبر کے روز کہیں دبے تو کہیں دھیمے
لہجے میں اٹھایا جاتا رہا۔ اس قتلِ عام کے اسباب، سیکیورٹی فورسز کی جوابی
کارروائی اور اس کا وقت، اور اِس واقعے کے حوالے سے خفیہ اطلاعات موجود
تھیں؟ اور اگر موجود تھیں تو کیا سانحے کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا؟ اس کے
علاوہ بھی دیگر بڑے سوالات موجود ہیں۔ کیا واقعی دہشت گردوں کو شکست دی
جاچکی ہے اور ان کی کمر توڑی جا چکی ہے؟ اور آرمی پبلک اسکول حملے میں کون
سا عسکریت پسند گروپ ملوث تھا؟ کیا کشت و خون میں ملوث تمام ملزمان بشمول
سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے؟ کیا اُن کے پاس اب بھی
ایسی ہی بڑی کاروائی یا دیگر بڑے دہشت گردی کے حملے کرنے کی صلاحیت موجود
ہے؟ اور یہ کہ آج عسکریت پسندی کے خلاف قوم کہاں کھڑی ہے اور بحیثیت قوم
سقوط ڈھاکہ اور سانحۂ پشاور کے بعد کی منزل کیا ہوگی؟
سوچ کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی درس و تدریس کے شعبہ میں ’انقلابی اصلاحات‘ کے بارے میں سوچئے۔ تصور کیجئے کہ اساتذہ جب 17ویں اور 18ویں گریڈ میں ترقی پاکر اپنے تبادلے تعلیمی اداروں سے متعلقہ وزارتوں (سیکرٹریٹ) میں کراتے ہیں‘ جہاں انہیں انتظامی معاملات چلانے کا قطعی کوئی تجربہ نہیں ہوتا لیکن سیاسی اثرورسوخ اور ذاتی و خاندانی تعلق کی بنیاد پر ’سیکشن آفیسر‘ کے عہدے پر تعینات ہو جاتے ہیں تو درس و تدریس کا کتنا نقصان ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہیں اِس شعبے کے مسائل کا دردمندی سے احساس ہو۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے راستے مختلف محکموں میں من پسند عہدوں پر تعینات جملہ اہلکاروں کو درس و تدریس کی ذمہ داریاں واپس سونپی جائیں اور اسی طرح جو ڈاکٹر علاج معالجے کے لئے ہسپتالوں میں بھاری تنخواہوں و تاحیات مراعات کے عوض بھرتی کئے جاتے ہیں اُن کی خدمات بھی مالی و انتظامی امور کی نگرانی کرنے کی بجائے ’علاج معالجے‘ کے لئے مختص کی جائیں۔ عجب ہے کہ اُستاد بھرتی ہونے والا درس و تدریس میں دلچسپی نہیں رکھتا اور علاج معالجے کی تربیت و اعلیٰ تعلیم یافتہ دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے چکر میں ہے! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ اُستاد کو اُستاد‘ ڈاکٹر کو ڈاکٹر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ایسی ہے جسے اپنے پیشے کے تقدس کا احساس نہیں! سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کم تو ہوئی لیکن ختم نہیں کی جاسکی اور اِس کمی کے ثمرات بھی نجانے کس صدی میں ظاہر ہوں گے کیونکہ جن عہدوں پر منظورنظر افراد تعینات ہیں اُن کی گھٹی میں اہلیت اور ذہن میں عہدوں سے جڑے امانت و دیانت کے تصورات دھندلے ہیں!
سانحۂ پشاور کے بعد سال کا ہر دن جن لوگوں کے لئے ایک سال کے برابر تھا اُن میں ایسے والدین بھی ہیں‘ جنہوں نے آئے روز تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں اور عمومی خوف کی وجہ سے اپنے جگرگوشوں کو سکولوں سے الگ کروا لیا۔ وسائل رکھنے والوں نے انفرادی سطح پر تعلیم کا بندوبست کیا لیکن بہت جلد اُنہیں احساس ہوا کہ بچوں کے لئے تعلیمی اداروں میں معمول کے مطابق استفادہ کس حد تک ضروری ہوتا ہے اور اُن کا ہم عمر و ہم عصر بچوں سے میل جول‘ ہم نصابی سرگرمیاں اور مختلف رہن سہن کے حامل بچوں کا باہم بول چال کتنی بڑی ’’تعلیم کا ذریعہ‘‘ ہوتا ہے۔ چونکہ انسان ایک سماجی جانور ہے تو اِس کے لئے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں ہوتا‘ اگرچہ کوشش کر بھی لے۔ والدین کو تحفظ کا احساس دلانے کے لئے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’ٹیکنالوجی‘ کا سہارا لیا اور تعلیمی اداروں کو موبائل فون ایپ (ایپلی کیشن) سے جوڑ دیا‘ وہیں تشویش کا شکار ایک والد نے بھی اپنے وسائل سے ’’محافظ‘‘ نامی اینڈرائرڈ یا اپیل اُو ایس (آپریٹنگ سسٹم) کی ایپلی کیشن (سافٹ وئر) تیار کرکے مفت (بطور صدقہ جاریہ) عام کر دی ہے اور انٹرنیٹ سمیت سمارٹ فون رکھنے والے صارفین اس کم و بیش 6 میگابائٹس کی ایپلی کیشن کو گوگل یا اپیل سٹور سے بلاقیمت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کر سکتے ہیں‘ جس کی خصوصیات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہنگامی (ایمرجنسی) صورتحال میں خون عطیہ کرنے والوں سے رابطہ کیا جاسکے۔ اپنے خاندان کے افراد یا دوستوں کو ایک بٹن دباتے ہی مدد کرنے کے فوری پیغامات ارسال کئے جاسکیں۔ ہنگامی صورتحال جیسا کہ آتشزدگی‘ زلزلہ‘ چوری‘ ڈاکہ‘ حادثہ یا دہشت گردی کی صورت ’’پستول کا نشان (آئیکن)‘‘ کو دبا کر آن کی آن متعلقہ افراد کو مطلع کیا جاسکے۔ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’فہد خان‘ کی تیار کردہ ’’محافظ موبائل ایپلی کیشن‘‘ جدید (سمارٹ) موبائل فونز کے استعمال کا تجربہ نہ رکھنے والے بھی باآسانی کر سکتے ہیں اور یہی اِس اپیلی کیشن کا سب سے نمایاں خوبی ہے کہ مفت ہونے کے ساتھ اسے ’صارف دوست‘ بنایا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی تیار کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کس طرح معاشرے کے لئے مفید و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے کسی بھی صارف کا جغرافیائی محل وقوع معلوم کرنا بہت اہم ہوتا ہے اور اگر بچوں کے سکول بستوں (بیگز) یا چھاتی پر لگے سکول بیج میں ’جی پی ایس‘ (گلوبل پوزیشنگ سیٹلائٹس) کا آلہ نصب کر دیا جائے جیسا کہ مغربی دنیا میں پالتو جانوروں تک اِس ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف کسی بھی بچے یا شخص کی آمدورفت میں استعمال ہونے والے راستوں (روٹس) کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے بلکہ ہنگامی حالات کی صورت اسی آلے کی مدد سے بچوں کی زندگی بھی بچائی جا سکتی ہے۔ سانحۂ پشاور کا دن اگر ٹھہر گیا ہے تو اسے یادآوری کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے‘ یہ ایک ایسا نادر موقع بھی تو ہے کہ ہمارے معاشرے میں حکومتی و نجی اداروں یا انفرادی حیثیت سے ماہرین نے جن شعبوں میں کسی بھی وجہ سے غفلت کا مظاہرہ کیا‘ اپنے قول و فعل کی اصلاح کر لیں۔
اگر ہم ایک سال بعد بھی جہاں تھے‘ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں یعنی تعلیمی اداروں کی دیواریں بلند کرنے اور خاردار تاروں سے اُنہیں محفوظ بنانے کا عمل ہی مکمل نہیں کر پائے تو جان لیجئے کہ پے در پے حادثات‘ سانحات اور لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا! ’’گھر ہمارا جو نہ روتے تو بھی ویراں ہوتا!۔۔۔ بحر گر بحر نہ ہوتا‘ تو بیاباں ہوتا۔‘‘
سوچ کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی درس و تدریس کے شعبہ میں ’انقلابی اصلاحات‘ کے بارے میں سوچئے۔ تصور کیجئے کہ اساتذہ جب 17ویں اور 18ویں گریڈ میں ترقی پاکر اپنے تبادلے تعلیمی اداروں سے متعلقہ وزارتوں (سیکرٹریٹ) میں کراتے ہیں‘ جہاں انہیں انتظامی معاملات چلانے کا قطعی کوئی تجربہ نہیں ہوتا لیکن سیاسی اثرورسوخ اور ذاتی و خاندانی تعلق کی بنیاد پر ’سیکشن آفیسر‘ کے عہدے پر تعینات ہو جاتے ہیں تو درس و تدریس کا کتنا نقصان ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہیں اِس شعبے کے مسائل کا دردمندی سے احساس ہو۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے راستے مختلف محکموں میں من پسند عہدوں پر تعینات جملہ اہلکاروں کو درس و تدریس کی ذمہ داریاں واپس سونپی جائیں اور اسی طرح جو ڈاکٹر علاج معالجے کے لئے ہسپتالوں میں بھاری تنخواہوں و تاحیات مراعات کے عوض بھرتی کئے جاتے ہیں اُن کی خدمات بھی مالی و انتظامی امور کی نگرانی کرنے کی بجائے ’علاج معالجے‘ کے لئے مختص کی جائیں۔ عجب ہے کہ اُستاد بھرتی ہونے والا درس و تدریس میں دلچسپی نہیں رکھتا اور علاج معالجے کی تربیت و اعلیٰ تعلیم یافتہ دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے چکر میں ہے! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ اُستاد کو اُستاد‘ ڈاکٹر کو ڈاکٹر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ایسی ہے جسے اپنے پیشے کے تقدس کا احساس نہیں! سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کم تو ہوئی لیکن ختم نہیں کی جاسکی اور اِس کمی کے ثمرات بھی نجانے کس صدی میں ظاہر ہوں گے کیونکہ جن عہدوں پر منظورنظر افراد تعینات ہیں اُن کی گھٹی میں اہلیت اور ذہن میں عہدوں سے جڑے امانت و دیانت کے تصورات دھندلے ہیں!
سانحۂ پشاور کے بعد سال کا ہر دن جن لوگوں کے لئے ایک سال کے برابر تھا اُن میں ایسے والدین بھی ہیں‘ جنہوں نے آئے روز تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں اور عمومی خوف کی وجہ سے اپنے جگرگوشوں کو سکولوں سے الگ کروا لیا۔ وسائل رکھنے والوں نے انفرادی سطح پر تعلیم کا بندوبست کیا لیکن بہت جلد اُنہیں احساس ہوا کہ بچوں کے لئے تعلیمی اداروں میں معمول کے مطابق استفادہ کس حد تک ضروری ہوتا ہے اور اُن کا ہم عمر و ہم عصر بچوں سے میل جول‘ ہم نصابی سرگرمیاں اور مختلف رہن سہن کے حامل بچوں کا باہم بول چال کتنی بڑی ’’تعلیم کا ذریعہ‘‘ ہوتا ہے۔ چونکہ انسان ایک سماجی جانور ہے تو اِس کے لئے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں ہوتا‘ اگرچہ کوشش کر بھی لے۔ والدین کو تحفظ کا احساس دلانے کے لئے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’ٹیکنالوجی‘ کا سہارا لیا اور تعلیمی اداروں کو موبائل فون ایپ (ایپلی کیشن) سے جوڑ دیا‘ وہیں تشویش کا شکار ایک والد نے بھی اپنے وسائل سے ’’محافظ‘‘ نامی اینڈرائرڈ یا اپیل اُو ایس (آپریٹنگ سسٹم) کی ایپلی کیشن (سافٹ وئر) تیار کرکے مفت (بطور صدقہ جاریہ) عام کر دی ہے اور انٹرنیٹ سمیت سمارٹ فون رکھنے والے صارفین اس کم و بیش 6 میگابائٹس کی ایپلی کیشن کو گوگل یا اپیل سٹور سے بلاقیمت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کر سکتے ہیں‘ جس کی خصوصیات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہنگامی (ایمرجنسی) صورتحال میں خون عطیہ کرنے والوں سے رابطہ کیا جاسکے۔ اپنے خاندان کے افراد یا دوستوں کو ایک بٹن دباتے ہی مدد کرنے کے فوری پیغامات ارسال کئے جاسکیں۔ ہنگامی صورتحال جیسا کہ آتشزدگی‘ زلزلہ‘ چوری‘ ڈاکہ‘ حادثہ یا دہشت گردی کی صورت ’’پستول کا نشان (آئیکن)‘‘ کو دبا کر آن کی آن متعلقہ افراد کو مطلع کیا جاسکے۔ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’فہد خان‘ کی تیار کردہ ’’محافظ موبائل ایپلی کیشن‘‘ جدید (سمارٹ) موبائل فونز کے استعمال کا تجربہ نہ رکھنے والے بھی باآسانی کر سکتے ہیں اور یہی اِس اپیلی کیشن کا سب سے نمایاں خوبی ہے کہ مفت ہونے کے ساتھ اسے ’صارف دوست‘ بنایا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی تیار کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کس طرح معاشرے کے لئے مفید و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے کسی بھی صارف کا جغرافیائی محل وقوع معلوم کرنا بہت اہم ہوتا ہے اور اگر بچوں کے سکول بستوں (بیگز) یا چھاتی پر لگے سکول بیج میں ’جی پی ایس‘ (گلوبل پوزیشنگ سیٹلائٹس) کا آلہ نصب کر دیا جائے جیسا کہ مغربی دنیا میں پالتو جانوروں تک اِس ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف کسی بھی بچے یا شخص کی آمدورفت میں استعمال ہونے والے راستوں (روٹس) کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے بلکہ ہنگامی حالات کی صورت اسی آلے کی مدد سے بچوں کی زندگی بھی بچائی جا سکتی ہے۔ سانحۂ پشاور کا دن اگر ٹھہر گیا ہے تو اسے یادآوری کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے‘ یہ ایک ایسا نادر موقع بھی تو ہے کہ ہمارے معاشرے میں حکومتی و نجی اداروں یا انفرادی حیثیت سے ماہرین نے جن شعبوں میں کسی بھی وجہ سے غفلت کا مظاہرہ کیا‘ اپنے قول و فعل کی اصلاح کر لیں۔
اگر ہم ایک سال بعد بھی جہاں تھے‘ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں یعنی تعلیمی اداروں کی دیواریں بلند کرنے اور خاردار تاروں سے اُنہیں محفوظ بنانے کا عمل ہی مکمل نہیں کر پائے تو جان لیجئے کہ پے در پے حادثات‘ سانحات اور لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا! ’’گھر ہمارا جو نہ روتے تو بھی ویراں ہوتا!۔۔۔ بحر گر بحر نہ ہوتا‘ تو بیاباں ہوتا۔‘‘
No comments:
Post a Comment