ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قیادت: فکری و عملی تقاضے!
قیادت: فکری و عملی تقاضے!
پاکستان تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ اِس کے کلیدی فیصلے اُور ترجیحات کا
تعین کسی ایک مقام پر نہیں ہوتا اُور جس قدر زمینی فاصلہ پشاور
(خیبرپختونخوا) اُور بنی گالہ (اِسلام آباد) کے درمیان ہے اُتنی ہی تاخیر
حکمت عملیوں کے نفاذ یا اُن کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے خاطرخواہ فعالیت و
نگرانی میں بصورت رکاوٹ پیش آتی ہیں اُور یہ قطعی طور پر کسی ایسی جماعت کے
لئے تو کم از کم خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا جو انقلابی تبدیلیوں
(اِصلاحات) کا عزم رکھتی ہو اُور چاہتی ہو کہ بذریعہ ووٹ پارلیمانی طرز
حکمرانی کو زیادہ بامقصد‘ عوام کے سامنے بہرصورت جوابدہ بنایا جائے لیکن
محض خواہشات اُور بیانات ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ عملی طورپر ایسے اقدامات
آئندہ چند سطور میں روایت کئے جارہے ہیں جو کارکنوں کے ’فیڈبیک‘ سے اخذ کئے
گئے ہیں اور اگر تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت کارکنوں کے دلی
جذبات کو سمجھ لیتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں
بلاشراکت غیرے ’خیبرپختونخوا‘ اُنہی کے نام رہے!
قومی مسائل کے حوالے سے ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کے سیاسی نظریات اُور پارلیمانی سطح پر جدوجہد اپنی جگہ لیکن برسرزمین حقائق زیادہ بڑے اَہداف کے ساتھ اُن چھوٹی چھوٹی باتوں پر برابر دھیان مرکوز رکھنے کے متقاضی ہیں‘ جس کا تعلق عام کارکن کی ’’اِقتصادی حالت (زار)‘‘ سے ہے۔ گذشتہ دو برس میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لئے صوبائی سطح پر اِقدامات کا جائزہ لینے سے مایوسی ہوتی ہے تو دوسری طرف ترقیاتی عمل کے تعطل یا سست روی کے باعث روزگار کے مواقع نہیں بڑھ پائے۔ تعلیمی اِداروں میں ماضی کی طرح گنجائش کم رہی۔ سکول کے بعد کالج اُور کالج کے بعد کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمند کس ذہنی و جسمانی کرب اور مہنگے ترین تجربے سے گزرتے ہیں‘ کسی کو اِحساس تک نہیں۔ نجی تعلیمی اِداروں کی من مانیاں‘ فیسوں میں اِضافہ اور صورتحال کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سرکاری سرپرستی (حوصلہ اَفزائی) تاحال (ہنوز) جاری ہے۔ بنیادی سہولیات و خدمات کی توسیع کے ساتھ سرکاری ملازمین کا قبلہ درست کرنے اُور انہیں عہدوں سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی تشنگی بھی الگ سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ماضی میں اگر تعمیروترقی کا عمل سیاسی و انتخابی ترجیحات کے تابع ہوتا تھا تو اِس عمل میں تعطل کے محرکات بھی یہی بنے‘ جن کے لئے جواز کتنا ہی منطقی ہو‘ کارکنوں کی نظر میں قیادت کو محرومیوں کے اَزالے کے لئے عملی کوششیں کرنی چاہیءں۔ تحریک انصاف کے ایک کارکن کے دکھ بھرے لہجے کی ترجمانی الفاظ میں ممکن نہیں جو کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔’’کیا میں اپنی نوکری کی درخواست لیکر اُن سیاسی جماعتوں کے پاس جاؤں جن سے خاندان‘ محلے اور پولنگ اسٹیشن کی سطح پر مخالفت مول لی؟‘‘ یقیناً’معلومات تک رسائی‘ اور اہلیت کے لئے ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے ملازمتیں دینے کا شفاف طریقۂ کار اختیار کرنا معمولی بات نہیں لیکن کیا ’این ٹی ایس‘ امتحان کی فیس‘ طریقۂ کار اور وہ نفسیاتی دباؤ سہنے کی ملازمتوں کے متلاشیوں میں قوت و مہارت موجود بھی ہے۔ کسی امتحان میں منفی نمبروں کا طریقۂ کار اگر پرائمری مڈل یا ہائر کلاسیز میں متعارف کرایا جاتا تو منطق سمجھ میں آ سکتی تھی لیکن بیک وقت امتحانی بورڈز کے ذریعے اِمتحانات اُور بعدازاں ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے اہلیت کی جانچ دو متضاد باتیں ہیں۔ فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی اِس مشکل کا ادراک کرنا چاہئے کہ باقاعدہ و باضابطہ اور مرحلہ وار اِمتحانی نظام کی موجودگی میں کسی اضافی اور انوکھے قسم کے امتحان کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟اگر ’این ٹی ایس‘ ضروری ہے تو پھر امتحانی بورڈز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے بھی سرکاری نوکری کے لئے تعلیمی قابلیت ہی اہم ہوتی ہے جس کے لئے اسناد کے جعل سازی کا رجحان مدنظر رکھتے ہوئے اگر تعلیمی قابلیت کو ’نادرا‘ ریکارڈ (شناختی کوائف) کا حصہ بنا دیا جائے تو نہ صرف اِس منفی رجحان کی روک تھام ممکن ہو جائے گی بلکہ فیصلہ سازوں کے سامنے برسر روزگار اور بے روزگار افراد کی تعداد اور جن شعبوں میں وہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن کی معلومات بناء کسی ’اِضافی محنت‘ دستیاب ہوں گی جس سے اقتصادی و معاشی بہتری کے لئے حکمت عملیاں بنانے میں سہولت رہے گی۔
ملک کی داخلی سلامتی اُور خارجہ اَمور سے متعلق قومی حکمت عملی کے خدوخال‘ عالمی سیاسی منظرنامے میں پاکستان کے مفادات کا دفاع اور اِس بارے قوم کی رہنمائی بھی یقیناًسیاسی جماعتوں ہی کے منجملہ فرائض کا حصہ ہوتی ہے لیکن کارکنوں کی تسلی و تشفی اُور اُن کے اطمینان قلبی کی ذمہ داری بھی اُن ناخداؤں کے رحم و کرم پر ہی ہوتی ہے‘ جنہیں کوئی بھی فیصلہ یا سیاسی و انتخابی اتحاد کرنے سے قبل کارکنوں کے بارے میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور سوچنا چاہئے جو ’بھیڑ بکریاں‘ نہیں کہ اُن کی تعداد (ووٹ بینک) کی بنیاد پر سودا بازی کے لئے استعمال کی جائے۔ سیاسی قیادت اُور بالخصوص تحریک انصاف کے قائدین کو فکری و عملی تقاضوں کا بھی اِدراک کرنا ہے‘ جس میں کارکنوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے اگر ’تنظیم سازی‘ اُور ’تنظیم نو‘ نہیں کی جائے گی اُور ترقیاتی حکمت عملیوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کی بصیرت‘ تجربے اُور وابستہ پارٹی کارکنوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جائے گا‘ تو تحریک انصاف کے لئے اِس سے پیدا ہونے والے ’’احساس محرومی‘‘ کی تلافی عام انتخابات میں ناکامی جیسے نقصان کی صورت ظاہر ہو سکتی ہے یقیناًاُس وقت سے ڈرنا چاہئے جب انتخابی ناکامی‘ خسارہ اُور نقصانات ناقابل تلافی بن جائیں۔
قومی مسائل کے حوالے سے ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کے سیاسی نظریات اُور پارلیمانی سطح پر جدوجہد اپنی جگہ لیکن برسرزمین حقائق زیادہ بڑے اَہداف کے ساتھ اُن چھوٹی چھوٹی باتوں پر برابر دھیان مرکوز رکھنے کے متقاضی ہیں‘ جس کا تعلق عام کارکن کی ’’اِقتصادی حالت (زار)‘‘ سے ہے۔ گذشتہ دو برس میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لئے صوبائی سطح پر اِقدامات کا جائزہ لینے سے مایوسی ہوتی ہے تو دوسری طرف ترقیاتی عمل کے تعطل یا سست روی کے باعث روزگار کے مواقع نہیں بڑھ پائے۔ تعلیمی اِداروں میں ماضی کی طرح گنجائش کم رہی۔ سکول کے بعد کالج اُور کالج کے بعد کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمند کس ذہنی و جسمانی کرب اور مہنگے ترین تجربے سے گزرتے ہیں‘ کسی کو اِحساس تک نہیں۔ نجی تعلیمی اِداروں کی من مانیاں‘ فیسوں میں اِضافہ اور صورتحال کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سرکاری سرپرستی (حوصلہ اَفزائی) تاحال (ہنوز) جاری ہے۔ بنیادی سہولیات و خدمات کی توسیع کے ساتھ سرکاری ملازمین کا قبلہ درست کرنے اُور انہیں عہدوں سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی تشنگی بھی الگ سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ماضی میں اگر تعمیروترقی کا عمل سیاسی و انتخابی ترجیحات کے تابع ہوتا تھا تو اِس عمل میں تعطل کے محرکات بھی یہی بنے‘ جن کے لئے جواز کتنا ہی منطقی ہو‘ کارکنوں کی نظر میں قیادت کو محرومیوں کے اَزالے کے لئے عملی کوششیں کرنی چاہیءں۔ تحریک انصاف کے ایک کارکن کے دکھ بھرے لہجے کی ترجمانی الفاظ میں ممکن نہیں جو کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔’’کیا میں اپنی نوکری کی درخواست لیکر اُن سیاسی جماعتوں کے پاس جاؤں جن سے خاندان‘ محلے اور پولنگ اسٹیشن کی سطح پر مخالفت مول لی؟‘‘ یقیناً’معلومات تک رسائی‘ اور اہلیت کے لئے ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے ملازمتیں دینے کا شفاف طریقۂ کار اختیار کرنا معمولی بات نہیں لیکن کیا ’این ٹی ایس‘ امتحان کی فیس‘ طریقۂ کار اور وہ نفسیاتی دباؤ سہنے کی ملازمتوں کے متلاشیوں میں قوت و مہارت موجود بھی ہے۔ کسی امتحان میں منفی نمبروں کا طریقۂ کار اگر پرائمری مڈل یا ہائر کلاسیز میں متعارف کرایا جاتا تو منطق سمجھ میں آ سکتی تھی لیکن بیک وقت امتحانی بورڈز کے ذریعے اِمتحانات اُور بعدازاں ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے اہلیت کی جانچ دو متضاد باتیں ہیں۔ فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی اِس مشکل کا ادراک کرنا چاہئے کہ باقاعدہ و باضابطہ اور مرحلہ وار اِمتحانی نظام کی موجودگی میں کسی اضافی اور انوکھے قسم کے امتحان کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟اگر ’این ٹی ایس‘ ضروری ہے تو پھر امتحانی بورڈز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے بھی سرکاری نوکری کے لئے تعلیمی قابلیت ہی اہم ہوتی ہے جس کے لئے اسناد کے جعل سازی کا رجحان مدنظر رکھتے ہوئے اگر تعلیمی قابلیت کو ’نادرا‘ ریکارڈ (شناختی کوائف) کا حصہ بنا دیا جائے تو نہ صرف اِس منفی رجحان کی روک تھام ممکن ہو جائے گی بلکہ فیصلہ سازوں کے سامنے برسر روزگار اور بے روزگار افراد کی تعداد اور جن شعبوں میں وہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن کی معلومات بناء کسی ’اِضافی محنت‘ دستیاب ہوں گی جس سے اقتصادی و معاشی بہتری کے لئے حکمت عملیاں بنانے میں سہولت رہے گی۔
ملک کی داخلی سلامتی اُور خارجہ اَمور سے متعلق قومی حکمت عملی کے خدوخال‘ عالمی سیاسی منظرنامے میں پاکستان کے مفادات کا دفاع اور اِس بارے قوم کی رہنمائی بھی یقیناًسیاسی جماعتوں ہی کے منجملہ فرائض کا حصہ ہوتی ہے لیکن کارکنوں کی تسلی و تشفی اُور اُن کے اطمینان قلبی کی ذمہ داری بھی اُن ناخداؤں کے رحم و کرم پر ہی ہوتی ہے‘ جنہیں کوئی بھی فیصلہ یا سیاسی و انتخابی اتحاد کرنے سے قبل کارکنوں کے بارے میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور سوچنا چاہئے جو ’بھیڑ بکریاں‘ نہیں کہ اُن کی تعداد (ووٹ بینک) کی بنیاد پر سودا بازی کے لئے استعمال کی جائے۔ سیاسی قیادت اُور بالخصوص تحریک انصاف کے قائدین کو فکری و عملی تقاضوں کا بھی اِدراک کرنا ہے‘ جس میں کارکنوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے اگر ’تنظیم سازی‘ اُور ’تنظیم نو‘ نہیں کی جائے گی اُور ترقیاتی حکمت عملیوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کی بصیرت‘ تجربے اُور وابستہ پارٹی کارکنوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جائے گا‘ تو تحریک انصاف کے لئے اِس سے پیدا ہونے والے ’’احساس محرومی‘‘ کی تلافی عام انتخابات میں ناکامی جیسے نقصان کی صورت ظاہر ہو سکتی ہے یقیناًاُس وقت سے ڈرنا چاہئے جب انتخابی ناکامی‘ خسارہ اُور نقصانات ناقابل تلافی بن جائیں۔
No comments:
Post a Comment