ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جمہوری کسوٹی!
جمہوری کسوٹی!
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک مرتبہ پھر ’’بضد‘‘ ہیں کہ
جماعتی سطح پر انتخابات کا انعقاد کیا جائے جبکہ وہ ماضی میں اِسی قسم کے
ایک ’’تلخ تجربے‘‘ سے پیدا ہونے والی ’انتشاری وجوہات‘‘ بصورت معمہ حل نہیں
کر پائے اُور نہ ہی ایسی اصلاحات متعارف کرا سکے ہیں کہ جن کی بنیاد پر
تنظیم سازی کی سطح پر ماضی میں جو (دانستہ) غلطیاں سرزد ہوئیں وہ آئندہ
جماعتی انتخابات کے موقع پر دہرائی نہ جا سکیں۔ جمہوریت پر یقین کرنے والے
روائتی سیاسی گروہوں کا طریقۂ واردات دیکھیں کہ جنہوں نے جماعتی انتخابات
کو کونسلروں تک محدود کر رکھا ہے جبکہ جماعت اسلامی پاکستان میں یہ یہی عمل
قدرے گہرائی و سنجیدگی سے لیا جاتا ہے لیکن اُس میں بھی جماعت کے ہر رکن
کی رائے کو شامل نہیں کیا جاتا اور ایک سطحی چناؤ کر کے نچلی سطح پر
کارکنوں کی نمائندگی کرنے والوں کی رائے کی روشنی میں فیصلہ کر لیا جاتا
ہے۔ تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا
ہے اور چند ایسی بدعات (اقدامات) متعارف کرائی ہیں‘ جن کی صداقت و عملی
فعالیت اُور فوائد و ثمرات کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کہا جائے تو قطعی غلط
نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف ہی پاکستان کی وہ ’’واحد سیاسی جماعت‘‘ ہے جس میں
’’ہر ایک کارکن‘‘ کی رائے کو اہمیت ہی نہیں بلکہ مقام حاصل ہے۔
جماعتی انتخابات کے مرحلے پر اگر جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کی جائے تو اِس سے ماضی کی طرح ’موقع پرستوں‘ کو آگے آنے کا موقع نہیں ملے گا اور ایسا نہیں ہوگا کہ پورا ’’سسٹم ہائی جیک‘‘ ہو جائے۔ یادش بخیر ’تحریک انصاف‘ کے گذشتہ جماعتی انتخابات سے پیدا ہونے والے تنازعات کا اثر حالیہ بلدیاتی انتخابات پر بھی صاف دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع‘ تحصیل اور دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کی سطح پر تحریک سے وابستہ کارکنوں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی لیکن ضلعی حکومتیں صرف 9 اضلاع ہی میں قائم ہو سکیں اور ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں تحریک سے تعلق رکھنے والے منتخب کارکنوں کی اکثریت ہے لیکن وہ حکومت نہیں بنا سکے اور ہنوز پارٹی عہدوں سمیت اختیارات و اقتدار کے لئے رسہ کشی جاری ہے‘ جس سے اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ خود تحریک ہی ہے اور عام کارکنوں کی تحریک سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کارکنوں کی توقعات پر پورا اُترے۔ یہ توقعات سیاسی بنیادوں پر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے سے لیکر ترقیاتی کاموں تک مختلف ہوتی ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف نے ’’اہلیت‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سفارش کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی۔ بلدیاتی نظام حکومت کو زیادہ توسیع دے کر ہر گاؤں اور ہمسائیگی کونسل کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا لیکن بات توجہ سے محروم رہ گئی اور وہ یہ تھی کہ ماضی کے متعصبانہ سیاسی روئیوں کی وجہ سے محروم رہنے والوں کی اکثریت نے جس اُمید کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی کہ اُنہیں ملازمتیں ملیں گی یا تعمیروترقی کے حوالے سے زیرالتوأ امور ترجیحی بنیادوں پر حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اسی طرح تھانہ اور پٹوار خانے کا کلچر تبدیل کرنے کے لئے جملہ سرکاری محکموں میں ’مداخلت‘ بند کرنے کا مثبت اثر نہ تو اِن محکموں کی حقیقی اصلاح کی صورت سامنے آ سکی اور نہ ہی عوام کو خاطرخواہ ریلیف مل سکا جو یہ چاہتے تھے کہ اُنہیں محکموں پر حکمراں افسرشاہی کے مزاج اور ’فائل ورک‘ سے نجات ملے لیکن یہ ہدف بھی خواب ہی رہا۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا انتخابی وعدہ پورا کرنے میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ لگا تو یہ بھی تعجب خیز تھا۔ یہی صورتحال ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ترجیحات کے تعین اور مالی وسائل کا ضیاع روکنے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں پیش آئی جب نگرانی کے سخت گیر عمل کی وجہ سے ترقیاتی عمل رُک گیا اور یکے بعد دیگرے مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ احتیاط کی نذر ہوگیا۔
تحریک انصاف کے کارکنوں میں پائی جانے والی مایوسی کا ایک سبب قانون ساز ایوانوں کے منتخب نمائندوں بشمول وزراء اور مشیروں کا سرد رویہ رہا جنہوں نے کارکنوں کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس کی ایک وجہ تو سیاسی ناتجربہ کاری تھی جس میں وہ کارکنوں کی اہمیت کا خاطرخواہ اندازہ نہ لگا سکے اُور سمجھ بیٹھے کہ ’’جنون کا ووٹ بینک‘‘ یا ’’عمران خان کا جادو‘‘ ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا رہے رہے گا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات سے بھی تعلق رکھتی ہے جنہیں ملازمتوں‘ اقتدار سے جڑے مفادات یا ترقیاتی کاموں کی افتتاحی تختیوں پر اپنا نام کنندہ کرانے کا کوئی شوق نہیں بلکہ وہ ہنوز چاہتے ہیں کہ ’بہتر طرز حکمرانی (گڈ گورننس)‘ کا آغاز ہو اُور خیبرپختونخوا ایک مثالی صوبہ بن جائے لیکن سارے خواب ایک ایک کر کے ریزہ ریزہ ہونے میں دیر نہیں لگی!
ماضی کے جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے پارٹی کے فیصلوں پر اختیار کے ساتھ صوبائی حکومت میں عہدوں پر فائز ہوئے تو انہوں نے اپنے عزیزواقارب اور قریبی دوستوں کو نوازنا شروع کر دیا کیونکہ تحریک انصاف میں تبدیلی کی سوچ صرف اُور صرف سربراہ عمران خان کی ذات تک محدود رہی اور اُن جیسا تبدیلی کے مقصد سے لگن رکھنے والا پوری تحریک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ عجب نہیں تھا کہ تحریک انصاف کے لئے چندہ دینے والوں کی اکثریت بیرون ملک آباد تھی اور انہوں نے ’سیاسی انقلاب بذریعہ ووٹ‘ کے لئے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا وہ بھی ایک درخشاں باب ہے۔ کسی بھی دوسری جماعت کو بیرون ملک تحریک انصاف جیسی مقبولیت (پذیرائی) نصیب نہیں تو اِس کا بنیادی محرک یہی ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور طرز حکمرانی میں اصلاح کے خواہشمند جمہوریت اور جمہوری اداروں کو استحکام چاہتے ہیں۔ مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث کرداروں کا کڑا اُور بے رحم احتساب ہونا چاہئے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ہنوز یہ مطالبہ توانا بھی ہے اور زندہ بھی کہ سرکاری ملازمین سمیت ماضی میں جو افراد مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث رہے اُنہیں نہ صرف فیصلہ سازی کے منصب سے علیحدہ کیا جائے بلکہ اس قسم کی قانون سازی بھی ضروری ہے جس کے تحت ’بدعنوانی ناقابل معافی و رعائت جرم‘ تصور ہو۔
معلومات تک رسائی کا قانون متعارف کرانے اُور ’صوبائی اِحتساب کمیشن کے قیام‘ سے لیکر سرکاری اَخراجات میں شفافیت جیسے اہداف حاصل کرنے میں پیشرفت بھی تیزرفتاری کی متقاضی ہے کیونکہ ملک کی کسی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں سے وقت تیزی سے نکل رہا ہے‘ اُور جس ایک جماعت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے تو وہ کوئی اُور نہیں بلکہ تبدیلی کی داعی ’تحریک انصاف‘ ہی ہے‘ جسے سماجی و معاشرتی سطح اُور ’جمہوری کسوٹی (کارکردگی و توقعات کے بلندوبالا معیار)‘ پر (بہرصورت) پورا اُترنا ہے۔ جماعتی انتخابات کے نازک مرحلے پر زیادہ غور و تفکر کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو تحریک مضبوطی کی بجائے زیادہ کمزور ہو جائے جو پارلیمانی نظام کے لئے بطور حزب اختلاف اور بالخصوص خیبرپختونخوا کی سطح پر ایک باکردار حکومت کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔
جماعتی انتخابات کے مرحلے پر اگر جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کی جائے تو اِس سے ماضی کی طرح ’موقع پرستوں‘ کو آگے آنے کا موقع نہیں ملے گا اور ایسا نہیں ہوگا کہ پورا ’’سسٹم ہائی جیک‘‘ ہو جائے۔ یادش بخیر ’تحریک انصاف‘ کے گذشتہ جماعتی انتخابات سے پیدا ہونے والے تنازعات کا اثر حالیہ بلدیاتی انتخابات پر بھی صاف دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع‘ تحصیل اور دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کی سطح پر تحریک سے وابستہ کارکنوں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی لیکن ضلعی حکومتیں صرف 9 اضلاع ہی میں قائم ہو سکیں اور ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں تحریک سے تعلق رکھنے والے منتخب کارکنوں کی اکثریت ہے لیکن وہ حکومت نہیں بنا سکے اور ہنوز پارٹی عہدوں سمیت اختیارات و اقتدار کے لئے رسہ کشی جاری ہے‘ جس سے اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ خود تحریک ہی ہے اور عام کارکنوں کی تحریک سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کارکنوں کی توقعات پر پورا اُترے۔ یہ توقعات سیاسی بنیادوں پر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے سے لیکر ترقیاتی کاموں تک مختلف ہوتی ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف نے ’’اہلیت‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سفارش کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی۔ بلدیاتی نظام حکومت کو زیادہ توسیع دے کر ہر گاؤں اور ہمسائیگی کونسل کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا لیکن بات توجہ سے محروم رہ گئی اور وہ یہ تھی کہ ماضی کے متعصبانہ سیاسی روئیوں کی وجہ سے محروم رہنے والوں کی اکثریت نے جس اُمید کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی کہ اُنہیں ملازمتیں ملیں گی یا تعمیروترقی کے حوالے سے زیرالتوأ امور ترجیحی بنیادوں پر حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اسی طرح تھانہ اور پٹوار خانے کا کلچر تبدیل کرنے کے لئے جملہ سرکاری محکموں میں ’مداخلت‘ بند کرنے کا مثبت اثر نہ تو اِن محکموں کی حقیقی اصلاح کی صورت سامنے آ سکی اور نہ ہی عوام کو خاطرخواہ ریلیف مل سکا جو یہ چاہتے تھے کہ اُنہیں محکموں پر حکمراں افسرشاہی کے مزاج اور ’فائل ورک‘ سے نجات ملے لیکن یہ ہدف بھی خواب ہی رہا۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا انتخابی وعدہ پورا کرنے میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ لگا تو یہ بھی تعجب خیز تھا۔ یہی صورتحال ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ترجیحات کے تعین اور مالی وسائل کا ضیاع روکنے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں پیش آئی جب نگرانی کے سخت گیر عمل کی وجہ سے ترقیاتی عمل رُک گیا اور یکے بعد دیگرے مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ احتیاط کی نذر ہوگیا۔
تحریک انصاف کے کارکنوں میں پائی جانے والی مایوسی کا ایک سبب قانون ساز ایوانوں کے منتخب نمائندوں بشمول وزراء اور مشیروں کا سرد رویہ رہا جنہوں نے کارکنوں کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس کی ایک وجہ تو سیاسی ناتجربہ کاری تھی جس میں وہ کارکنوں کی اہمیت کا خاطرخواہ اندازہ نہ لگا سکے اُور سمجھ بیٹھے کہ ’’جنون کا ووٹ بینک‘‘ یا ’’عمران خان کا جادو‘‘ ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا رہے رہے گا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات سے بھی تعلق رکھتی ہے جنہیں ملازمتوں‘ اقتدار سے جڑے مفادات یا ترقیاتی کاموں کی افتتاحی تختیوں پر اپنا نام کنندہ کرانے کا کوئی شوق نہیں بلکہ وہ ہنوز چاہتے ہیں کہ ’بہتر طرز حکمرانی (گڈ گورننس)‘ کا آغاز ہو اُور خیبرپختونخوا ایک مثالی صوبہ بن جائے لیکن سارے خواب ایک ایک کر کے ریزہ ریزہ ہونے میں دیر نہیں لگی!
ماضی کے جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے پارٹی کے فیصلوں پر اختیار کے ساتھ صوبائی حکومت میں عہدوں پر فائز ہوئے تو انہوں نے اپنے عزیزواقارب اور قریبی دوستوں کو نوازنا شروع کر دیا کیونکہ تحریک انصاف میں تبدیلی کی سوچ صرف اُور صرف سربراہ عمران خان کی ذات تک محدود رہی اور اُن جیسا تبدیلی کے مقصد سے لگن رکھنے والا پوری تحریک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ عجب نہیں تھا کہ تحریک انصاف کے لئے چندہ دینے والوں کی اکثریت بیرون ملک آباد تھی اور انہوں نے ’سیاسی انقلاب بذریعہ ووٹ‘ کے لئے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا وہ بھی ایک درخشاں باب ہے۔ کسی بھی دوسری جماعت کو بیرون ملک تحریک انصاف جیسی مقبولیت (پذیرائی) نصیب نہیں تو اِس کا بنیادی محرک یہی ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور طرز حکمرانی میں اصلاح کے خواہشمند جمہوریت اور جمہوری اداروں کو استحکام چاہتے ہیں۔ مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث کرداروں کا کڑا اُور بے رحم احتساب ہونا چاہئے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ہنوز یہ مطالبہ توانا بھی ہے اور زندہ بھی کہ سرکاری ملازمین سمیت ماضی میں جو افراد مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث رہے اُنہیں نہ صرف فیصلہ سازی کے منصب سے علیحدہ کیا جائے بلکہ اس قسم کی قانون سازی بھی ضروری ہے جس کے تحت ’بدعنوانی ناقابل معافی و رعائت جرم‘ تصور ہو۔
معلومات تک رسائی کا قانون متعارف کرانے اُور ’صوبائی اِحتساب کمیشن کے قیام‘ سے لیکر سرکاری اَخراجات میں شفافیت جیسے اہداف حاصل کرنے میں پیشرفت بھی تیزرفتاری کی متقاضی ہے کیونکہ ملک کی کسی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں سے وقت تیزی سے نکل رہا ہے‘ اُور جس ایک جماعت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے تو وہ کوئی اُور نہیں بلکہ تبدیلی کی داعی ’تحریک انصاف‘ ہی ہے‘ جسے سماجی و معاشرتی سطح اُور ’جمہوری کسوٹی (کارکردگی و توقعات کے بلندوبالا معیار)‘ پر (بہرصورت) پورا اُترنا ہے۔ جماعتی انتخابات کے نازک مرحلے پر زیادہ غور و تفکر کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو تحریک مضبوطی کی بجائے زیادہ کمزور ہو جائے جو پارلیمانی نظام کے لئے بطور حزب اختلاف اور بالخصوص خیبرپختونخوا کی سطح پر ایک باکردار حکومت کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔
No comments:
Post a Comment