Saturday, January 9, 2016

Jan2016: Patrind Hydropower Project, the hurdles

ژرف نگاہ  ۔۔۔شبیر حسین اِمام
پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ: خونی موڑ!
جنت نظیر وادیوں اُور سیاحتی اِمکانات کے علاؤہ قدرتی وسائل سے مالامال ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں کی ’’تین یونین کونسلیں (بوئی‘ دلولہ اُور ککمنگ)‘‘ آزاد کشمیر سے متصل ہیں‘ جہاں ’’147 میگاواٹ‘‘ پیداواری صلاحیت کا ’پن بجلی منصوبہ‘ زیرتعمیر ہے‘ جس کے لئے تکنیکی و فنی نگرانی اُور امداد ’کوریا (Korea)‘ حکومت کا ذیلی اِدارہ ’سٹار ہیڈرو‘ فراہم کر رہا ہے اُور اَگر جاری تعمیراتی کام میں کسی وجہ سے خلل نہیں آتا تو اُمید یہی ہے کہ اپنی نوعیت کا یہ منفرد اُور تعمیراتی کام کے لحاظ سے ملک کا جدید ترین و پائیدار پن بجلی کا منصوبہ رواں برس (دسمبر دوہزار سولہ) یا زیادہ سے زیادہ ’جنوری دو ہزار سترہ‘ کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا لیکن خیبرپختونخوا کی تین یونین کونسلوں (بوئی‘ دلولہ اُور ککمنگ) کے رہنے والوں کو شدید نوعیت کے تحفظ ہیں کہ مذکورہ پن بجلی کے منصوبے کی تعمیرات کے لئے مقامی افراد سے کئے گئے تحریری وعدے (بصورت معاہدہ) پورا نہیں کئے گئے۔ یاد رہے کہ ’پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ کا تعمیراتی کام ’دو ہزار بارہ‘ میں شروع ہوا جبکہ منصوبے سے متاثرین یونین کونسلوں کے رہنے والوں نے دوہزار تیرہ میں ’ایکشن کمیٹی‘ کے نام سے اپنے مفادات کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا اور اِس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت 8 جنوری کے روز ’کمشنر ہزارہ محمد اَکبر خان‘ اُور اَسسٹنٹ کمشنر میر رضا اوزگن‘ سے ملاقات کی صورت سامنے آئی‘ جس میں مذکورہ منصوبے کا تعمیراتی کام مکمل کرنے والی کمپنی ’سٹار ہائیڈرو کے کورین نمائندے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر ’چئی لی (Kh Lee)‘ چیف فنانشیل آفیسر یاک کیم (Yk Kim) اُور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی اِی اُو) وقار اَحمد خان شریک ہوئے۔ ایبٹ آباد میں ہوئے اِس غیرمعمولی اِجلاس میں متاثرین کی ایکشن کمیٹی کے تین نمائندے مبارک عباسی‘ اشتیاق عباسی اُور سجاد کھوکھر بھی موجود تھے اور اِس ملاقات کو ممکن بنانے کے لئے کوششوں کا سہرا‘ متعلقہ حلقے (این اے سترہ) سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے سر ہے جنہوں نے متاثرین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بذریعہ مذاکرات بھی تحفظات دور ہو سکتے ہیں اور احتجاج کرنے یا مذکورہ منصوبے پر تعمیراتی کام کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے نگران کمپنی کو پابند کیا جائے گا تاکہ وہ حسب وعدہ تعمیراتی و ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ کسی سیاست دان کا اصل کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے یا طبقات میں اختلافات ختم کرے۔ ایک دوسرے کے تحفظات دور کرے۔ محروم طبقات کو احساس دلائے کہ اُنہیں سماجی و آئینی اور معاشرتی انصاف کے ساتھ مساوی مقام دیا حاصل ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی اکثریت لفظ ’سیاست‘ کے لغوی معنی تک نہیں جانتی اور اُن کا کردار مثبت و تعمیری ہونے کی بجائے اختلافات کو ہوا دینا ہے!


’پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ سے متاثرین کے تین بنیادی تحفظات ہیں‘ جنہیں ایک ہی نشست میں حل کرنے کی سبیل و امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ 1: اہلیت کی بنیاد پر سرکل بکوٹ کی ’آٹھ یونین کونسلوں‘ سے تعلق رکھنے والے کسی ایک طالب علم یا طالبہ کو ہر سال انجنیئرنگ کی تعلیم کے لئے وظیفہ دیا جائے کیونکہ یہ بات تحریری طور پر عمائدین علاقہ سے کئے گئے معاہدے کا حصہ ہے۔ آٹھ جنوری کو ہوئی سہ فریقی میٹنگ میں ضلعی انتظامیہ‘ سٹار ہائیڈرو اور رکن قومی اسمبلی کی قیادت میں اہل علاقہ کے نمائندہ وفد کو یقین دہانی کرائی گئی کہ آئندہ برس سکالرشپ دینے کے لئے اشتہارات دیئے جائیں گے جبکہ فی الوقت جو طالب علم کسی سرکاری ادارے میں انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اُور وہ اپنی اہلیت پر داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اُنہیں باقی ماندہ تعلیم مکمل کرنے کے لئے سکالرشپ (وظیفہ) دیا جائے گا۔ 2: پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ سے ملحقہ کسی یونین کونسل میں ایک فنی تعلیم کا اِدارہ (وکیشنل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ) بنایا جائے گا جس کے لئے اراضی زمین فراہم کرنا‘ خیبرپختونخوا حکومت جبکہ تعمیراتی اَخراجات کوریا کی کمپنی ’سٹار ہائیڈرو‘ فراہم کرے گی۔

 اہل علاقہ نے مثالی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین مفت دینے کا وعدہ کر لیا ہے تاہم اِس سلسلے میں کچھ تکنیکی مراحل عبور کرنے ہیں جیسا کہ اِس قسم کے تکنیکی ادارے کے قیام کے لئے مجموعی طورپر کتنی اَراضی درکار ہوگی؟ اِس سلسلے میں اَسسٹنٹ کمشنر میر رضا اوزگن‘ سٹار ہائیڈرو کے چیف اَیگزیکٹو آفیسر وقار اَحمد خان اُور متاثرین کی اَیکشن کمیٹی کے چیئرمین مبارک عباسی پر مشتمل (سہ فریقی) تین رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو خیبرپختونخوا کے متعلقہ ادارے سے مشاورت کے بعد زمین کا انتخاب اور اُسے حکومت کے نام منتقل کرنے جیسے امور کی خوش اسلوبی و تیزرفتاری سے انجام دہی کو ممکن بنائے گی۔ 3: پیترینڈ پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے گڑھی حبیب اللہ (بوئی) سے منصوبے کے مقام (ورکنگ اَیریا) تک جو سڑک آمدورفت اُور تعمیراتی ضروریات کی نقل و حمل کے لئے استعمال ہوئی اُس کی کل لمبائی دس سے سولہ کلومیٹر بنتی ہے اور یہ شاہراہ انتہائی خستہ حال ہے۔ منصوبے کے ماحولیاتی منفی اثرات کا جائزہ لینا ایک الگ مرحلۂ فکر ہے‘ جس کے بارے فی الوقت غور نہیں ہورہا۔

 تعمیراتی کمپنی نے تحریری معاہدے میں ’ورکنگ ایریا‘ کے اندر تک سڑکوں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا لیکن اہل علاقہ کے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کمشنر ہزارہ نے کورین حکومت کے نمائندوں کو ’واضح الفاظ‘ میں خبردار کیا ہے کہ اَگر مذکورہ سڑک کی ضروری تعمیرومرمت کرکے اِسے قابل استعمال و قابل قبول حالت میں ’’بحال‘‘ نہ کیا گیا تو اِس سے ’امن و امان‘ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اُور منصوبے پر جاری کام کی رفتار بھی متاثر ہوسکتی ہے تاہم رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر اظہر جدون ایک ایسے طوفانی ردعمل کو روکے ہوئے ہیں‘ جو کسی بھی صورت نہ تو خیبرپختونخوا اور نہ ہی آزاد کشمیر کے مفاد میں ہے۔ اِس سلسلے میں کمشنر ہزارہ نے ’سہ فریقی کمیٹی‘ کو ذمہ داری سونپی ہے کہ مذکورہ سڑک کے خستہ حال حصوں کا معائنہ (سروے) کرکے رپورٹ بنائی جائے اور کورین کمپنی کے نمائندوں نے اِس اصولی مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے کہ وہ مذکورہ سڑک کی بحالی کے لئے درکار مالی و تکنیکی وسائل فراہم کریں گے۔ قوئ اُمید ہے کہ مشاورت سے ’نالہ سہالی‘ پر 50میٹر رابطہ پل‘ نالہ سہالی کے پاس گھمن (دلولہ نمبر ایک) کے ’خونی موڑ‘ اُور پٹوار خانے کا شیلٹر تعمیر کرنے جیسے دیرینہ مطالبات پورے جبکہ غلط فہمیوں کو جنم دینے والے معاملات بھی یکے بعد دیگرے طے ہوتے چلے جائیں گے۔

’پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ کئی لحاظ سے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے جس کا مطالعہ مستقبل میں اِس قسم کے دیگر منصوبوں کی تیاری میں مددگار و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ایگریمنٹ کرتے ہوئے مقامی افراد کے مفادات کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا لیکن جو کچھ بھی معاہدے میں تحریر ہو چکا ہے کم سے کم اُس پر عمل درآمد کرانے میں اگر رکن قومی اسمبلی ڈاکٹراظہر ذاتی طورپر دلچسپی نہ لیتے تو ضلعی انتظامیہ کو تین یونین کونسلوں کے تین لاکھ سے زیادہ متاثرین کے مسائل و مشکلات سے کوئی دلچسپی یا سروکار نہیں تھا۔ آرام دہ کمروں میں گرمی و سردی کی شدت سے بے نیاز‘ چمکتی دمکتی میزوں پر بیٹھے حکمرانوں کی کمی نہیں لیکن فیصلہ سازی کے تقاضے اُور عام آدمی (ہم عوام) کے حقوق کا کون کتنا خیال رکھتا ہے‘ اِس بارے میں زیادہ تفصیلات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی کے منتخب نمائندے کی پوری کوشش ہے کہ سیاسی و انتخابی مفادات سے بالاتر ہو کر سرکل بکوٹ کے رہنے والوں کے ’’اجتماعی مفادات‘‘ کا بہرصورت و بہرکیف تحفظ ہو اُور تحریک انصاف کے اِس انصاف پر مبنی ’سیاسی رویئے‘ کی صرف سرکل بکوٹ ہی کیا‘ پورے ہزارہ کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی!

No comments:

Post a Comment