ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
علاج معالجہ: افراتفری کا عالم!
علاج معالجہ: افراتفری کا عالم!
خدانخواستہ ایسا بھی نہیں کہ دنیا کی تمام خطرناک بیماریوں نے ہمارے ہاں
ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ہر نئی بیماری کا نزول بھی یہیں ہو رہا ہے بلکہ
بیماریوں کے عام اُور پیچیدہ ہونے کی وجہ غیرمحتاط‘ غیر حساس‘ سہل پسندی پر
مبنی تشخیصی نظام اور عوام کی اکثریت کا (بہ اَمر مجبوری) سرکاری علاج
گاہوں سے رجوع کرنا ہے جہاں علاج معالجے کی اِصلاح اُور ناکافی سہولیات میں
اضافہ کرنے کی بجائے کچھ ایسے اقدامات کرنے پر اکتفا کرلیا گیا ہے‘ جن سے
وقت‘ بڑے پیمانے پر مالی وسائل اور (ناقابل تلافی نقصان یعنی) قیمتی انسانی
جانیں ضائع ہو رہی ہیں! بطور مثال خیبرپختونخوا کے کئی بڑے ہسپتالوں کا
ذکر کیا جاسکتا ہے جن میں ایبٹ آباد کا ایوب میڈیکل کمپلیکس ہسپتال بھی
شامل ہے جہاں ایک ہزار بستروں کی گنجائش ہونے کے باوجود رجوع کرنے والوں کو
آخرکار قرب و جوار میں کسی نہ کسی نجی ہسپتال سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ رقبے
کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے اِس سب سے بڑے ہسپتال میں 200بیڈز پر مشتمل زچہ
و بچہ (گائنی) وارڈ ایک ایسا اضافہ تھا جس کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی
تھی لیکن سال دوہزار بارہ کے اختتام تک گائنی وارڈ کا جملہ تعمیراتی کام
مکمل ہونے کے باوجود یہ وارڈ تاحال فعال نہیں ہوسکا ہے! عمارت بن چکی ہے۔
رنگ روغن ہو چکے ہیں۔ ٹھیکیدار پیسے وصول کرچکا ہے۔ آلات خرید لئے گئے ہیں
لیکن ایبٹ آباد کے موسمی حالات کو مدنظر نہ رکھنے کی وجہ سے پورا منصوبہ
اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔ افسوس صد افسوس کہ خود پر تعلیم و
تجربے اور ہنر کی بدولت فخر کرنے والوں نے اِس ’گائنی و پیڈز شعبے‘ کے لئے
کی جانے والی خریداریوں میں حسب توفیق و استطاعت بدعنوانیاں کیں۔ تحریک
انصاف کی حکومت آئی تو مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کرائی گئیں اور خردبرد
میں ملوث ڈاکٹروں کا تعین ہونے کے باوجود سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے!
ہسپتال میں موجود ادویات فروشی کا ایک نجی مرکز (فارمیسی شاپ) قدرے چھوٹے
پیمانے کی بدعنوانی ہے‘ جس کی معیاد ختم ہونے کے باوجود اِس بہتی گنگا میں
صرف چند انتظامی نگران ہی نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے تک فیصلہ ساز ہاتھ دھو
رہے ہیں! اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک علاج معالجے کی سہولیات میں تاخیر‘
بدعنوانی اور غلط منصوبہ بندی کرنے والے اپنے صرف منطقی انجام تک ہی نہیں
بلکہ نشان عبرت بنا دیئے گئے ہوتے! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ گائنی وارڈ کے
لئے خریدے گئے آلات نجی کلینک میں استعمال ہوتے رہے! اُور آلات کی خریداری
میں قیمتوں کو بڑھا چڑھا پر پیش کیا گیا لیکن پھر بھی ’’سب اچھا ہے!‘‘
افراتفری کے اِس ماحول میں وزیراعظم کی خصوصی دلچسپی و ہدایات پر وفاقی وزارتِ صحت کی جانب سے اُن ہم وطنوں کے لئے ’’ہیلتھ کارڈ‘‘ جاری کئے گئے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو سو روپے یا اِس سے کم ہے۔ ایک کارڈ میں فی کس پچاس ہزار روپے عام بیماریوں کے طبی معانے کے لئے مختص ہوں گے‘ جن میں بخار‘ زکام‘ کھانسی‘ نزلہ اور یرقان (ہیپاٹائیٹس) شامل ہیں۔اس کے علاؤہ تین لاکھ روپے سنگین بیماریوں جیسا کہ دل کے امراض (بائی پاس‘ اینجیوپلاسٹی) یا گردوں کی بیماریوں (ڈائیلائسز وغیرہ) کے لئے بھی فراہم کئے جائیں گے۔ اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے مگر کیا اِس سے صحت کے عمومی نظام میں موجود بڑے مسائل مثلاً ڈاکٹروں کی کمی اور غیر معیاری سہولیات کی بہتری (یا عدم دستیابی) جیسی صورتحال کی اصلاح ممکن ہوگی؟ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں علاج معالجے کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں طبی عملے کی کمی ہے جبکہ وہاں موجود سٹاف مریض کی نگہداشت‘ صفائی ستھرائی اور سامان کی دستیابی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا۔ پاکستان کے تناظر میں ہمیں زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا کہ ۔۔۔ ’’اگر ڈاکٹر ہی نہیں تو پھر علاج بھی نہیں!‘‘
ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی وجہ سے غریبوں کی اکثریت علاج سے محروم رہتی ہے۔ طرح طرح کی ادویات استعمال کرنے کی وجہ سے مریض کا مدافعاتی توازن اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ ایک بیماری سے کئی دیگر امراض پھوٹ پڑتے ہیں! بیکٹیریل انفیکشن والے کو انٹی بائیوٹکس نہیں ملتی اور معمولی نزلہ زکام والے کے ’’انٹی بائیوٹکس‘‘ استعمال کرنے کی وجہ سے اندرونی اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں‘ زخمیوں کی بروقت جراحت (آپریشن) نہیں ہوتے! یہ صورتحال شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ مایوس کن ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں بنیادی و علاقائی سطح پر صحت کے مراکز اور مرکزی ضلعی ہسپتال موجود ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ آپریشن تھیٹر تو دور کی بات ادویات تک دستیاب نہیں۔ طبی عملہ نہیں۔ گاڑیاں ناکارہ کھڑی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے یرقان و دیگر بیماریاں عام ہیں لیکن مرض کے سبب کی نشاندہی کے باوجود اُس سے چھٹکارہ اور علاج دونوں ذمہ داریوں کی ادائیگی تسلی و تشفی کے انداز میں نہیں ہو رہی۔ التجا ہے کہ اِس صورتحال میں ’’ہیلتھ کارڈ‘‘ دینے سے پاکستان میں موجود ڈاکٹروں کی کمی‘ سہولیات سے عاری ہسپتال یا علاج معالجے کی غیر معیاری صورتحال اور ڈاکٹروں کی اکثریت جس حرص و طمع کی وباء سے متاثر ہے اُن کا علاج ممکن نہیں ہوگا۔
مسائل کا حل طب کے شعبے میں مہارت (سپیشلائزیشن) اور صحت کی تعلیم عام کرنے کے ساتھ بروقت علاج کی سہولیات میں اضافہ ہے! ایسے کئی ڈاکٹرز دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ جو اپنے پیشے سے مخلص تھے اور انتھک انداز میں مریضوں کی کثیر تعداد کا علاج کرتے رہے لیکن بالآخر تھک گئے کیونکہ اُنہیں شاباش دینے والا کوئی نہیں تھا! جہاں سزاوجزأ کے تصورات مبہم ہوں‘ وہاں ذمہ داری اور احساس ذمہ داری تقویت نہیں پاتا۔ افسوس کہ ہمارے ہاں طبیبوں میں صلاحیتوں اور قابلیت کی بجائے تجربے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے! اس غیر منصفانہ ماحول اور طبی عملے کی کمی کے باعث مریضوں کو بہتر طبی سہولیات میسر نہیں ہو رہیں اور اگر بات طب کی مروجہ تعلیم اُور اِس کے معیار کی ہو تو بھی ترقی یافتہ ممالک نہ سہی ہمارا حال خطے کے ممالک جیسا بھی نہیں! صحت کی تعلیم نجی شعبے کے حوالے کرنے سے سرمایہ کاروں اور طب کے نگران ادارے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کے قواعد و ضوابط کا اطلاق کرنے والوں کے ذاتی اثاثوں میں یقیناًاضافہ ہوا ہے۔ ایک ڈاکٹر عاصم گرفتار تو کئی دوسرے کھلے عام سرکاری وسائل کی لوٹ مار‘ اختیارات کے عوض سودا بازی اُور تعلیم کو کاروبار بنائے ہوئے ہیں جن کے مقابلے بیچارہ عام آدمی (ہم عوام) ہاتھ پھیلائے کہیں ایک وقت کے اناج تو کہیں علاج کے نام پر صرف درد سے نجات کے طالب ہیں! ’’اَیسا نہ ہو کہ درد بنے درد لا دوا ۔۔۔ (اُور پھر) اَیسا نہ ہو کہ تم بھی مداواہ نہ کرسکو!‘‘
افراتفری کے اِس ماحول میں وزیراعظم کی خصوصی دلچسپی و ہدایات پر وفاقی وزارتِ صحت کی جانب سے اُن ہم وطنوں کے لئے ’’ہیلتھ کارڈ‘‘ جاری کئے گئے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو سو روپے یا اِس سے کم ہے۔ ایک کارڈ میں فی کس پچاس ہزار روپے عام بیماریوں کے طبی معانے کے لئے مختص ہوں گے‘ جن میں بخار‘ زکام‘ کھانسی‘ نزلہ اور یرقان (ہیپاٹائیٹس) شامل ہیں۔اس کے علاؤہ تین لاکھ روپے سنگین بیماریوں جیسا کہ دل کے امراض (بائی پاس‘ اینجیوپلاسٹی) یا گردوں کی بیماریوں (ڈائیلائسز وغیرہ) کے لئے بھی فراہم کئے جائیں گے۔ اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے مگر کیا اِس سے صحت کے عمومی نظام میں موجود بڑے مسائل مثلاً ڈاکٹروں کی کمی اور غیر معیاری سہولیات کی بہتری (یا عدم دستیابی) جیسی صورتحال کی اصلاح ممکن ہوگی؟ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں علاج معالجے کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں طبی عملے کی کمی ہے جبکہ وہاں موجود سٹاف مریض کی نگہداشت‘ صفائی ستھرائی اور سامان کی دستیابی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا۔ پاکستان کے تناظر میں ہمیں زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا کہ ۔۔۔ ’’اگر ڈاکٹر ہی نہیں تو پھر علاج بھی نہیں!‘‘
ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی وجہ سے غریبوں کی اکثریت علاج سے محروم رہتی ہے۔ طرح طرح کی ادویات استعمال کرنے کی وجہ سے مریض کا مدافعاتی توازن اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ ایک بیماری سے کئی دیگر امراض پھوٹ پڑتے ہیں! بیکٹیریل انفیکشن والے کو انٹی بائیوٹکس نہیں ملتی اور معمولی نزلہ زکام والے کے ’’انٹی بائیوٹکس‘‘ استعمال کرنے کی وجہ سے اندرونی اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں‘ زخمیوں کی بروقت جراحت (آپریشن) نہیں ہوتے! یہ صورتحال شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ مایوس کن ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں بنیادی و علاقائی سطح پر صحت کے مراکز اور مرکزی ضلعی ہسپتال موجود ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ آپریشن تھیٹر تو دور کی بات ادویات تک دستیاب نہیں۔ طبی عملہ نہیں۔ گاڑیاں ناکارہ کھڑی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے یرقان و دیگر بیماریاں عام ہیں لیکن مرض کے سبب کی نشاندہی کے باوجود اُس سے چھٹکارہ اور علاج دونوں ذمہ داریوں کی ادائیگی تسلی و تشفی کے انداز میں نہیں ہو رہی۔ التجا ہے کہ اِس صورتحال میں ’’ہیلتھ کارڈ‘‘ دینے سے پاکستان میں موجود ڈاکٹروں کی کمی‘ سہولیات سے عاری ہسپتال یا علاج معالجے کی غیر معیاری صورتحال اور ڈاکٹروں کی اکثریت جس حرص و طمع کی وباء سے متاثر ہے اُن کا علاج ممکن نہیں ہوگا۔
مسائل کا حل طب کے شعبے میں مہارت (سپیشلائزیشن) اور صحت کی تعلیم عام کرنے کے ساتھ بروقت علاج کی سہولیات میں اضافہ ہے! ایسے کئی ڈاکٹرز دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ جو اپنے پیشے سے مخلص تھے اور انتھک انداز میں مریضوں کی کثیر تعداد کا علاج کرتے رہے لیکن بالآخر تھک گئے کیونکہ اُنہیں شاباش دینے والا کوئی نہیں تھا! جہاں سزاوجزأ کے تصورات مبہم ہوں‘ وہاں ذمہ داری اور احساس ذمہ داری تقویت نہیں پاتا۔ افسوس کہ ہمارے ہاں طبیبوں میں صلاحیتوں اور قابلیت کی بجائے تجربے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے! اس غیر منصفانہ ماحول اور طبی عملے کی کمی کے باعث مریضوں کو بہتر طبی سہولیات میسر نہیں ہو رہیں اور اگر بات طب کی مروجہ تعلیم اُور اِس کے معیار کی ہو تو بھی ترقی یافتہ ممالک نہ سہی ہمارا حال خطے کے ممالک جیسا بھی نہیں! صحت کی تعلیم نجی شعبے کے حوالے کرنے سے سرمایہ کاروں اور طب کے نگران ادارے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کے قواعد و ضوابط کا اطلاق کرنے والوں کے ذاتی اثاثوں میں یقیناًاضافہ ہوا ہے۔ ایک ڈاکٹر عاصم گرفتار تو کئی دوسرے کھلے عام سرکاری وسائل کی لوٹ مار‘ اختیارات کے عوض سودا بازی اُور تعلیم کو کاروبار بنائے ہوئے ہیں جن کے مقابلے بیچارہ عام آدمی (ہم عوام) ہاتھ پھیلائے کہیں ایک وقت کے اناج تو کہیں علاج کے نام پر صرف درد سے نجات کے طالب ہیں! ’’اَیسا نہ ہو کہ درد بنے درد لا دوا ۔۔۔ (اُور پھر) اَیسا نہ ہو کہ تم بھی مداواہ نہ کرسکو!‘‘
No comments:
Post a Comment