Wednesday, January 6, 2016

Jan2015: Road to success!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کامیابی کا خلاصہ !
محاورہ ہے کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ لیکن ہمارے گردوپیش ایسی باہمت خواتین کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے حالات کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے نہایت ہی محدود پیمانے اور اپنے وسائل سے ’جذبے جنون اُور ہمت‘ کی ایسی کئی عملی مثالیں قائم کیں‘ جن کا ذکر کئے بناء وہ تذکرہ اُدھورا رہے گا جس کے بارے میں جاننے کے خواہشمند قارئین نے پوچھا ہے کہ ’’کاروبار شروع کرنے کے لئے تو سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہنرمندوں کی اکثریت کے پاس نہیں ہوتا اور مختلف اَدوار میں حکومتوں کی طرف سے ’بناء سود‘ قرض حسنہ کے لئے شرائط اِس قدر کڑی ہوتی ہیں جو ہر کس و ناکس کے لئے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتیں‘ ایسی صورت میں ’خودروزگار‘ کیسے ہوا جاسکتا ہے؟‘‘

حقیقت حال یہ ہے کہ روزگار ہمارے معاشرے کا تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان جس طرح نوکریوں کے لئے مارے پھرتے دکھائی دیتے ہیں یقین نہیں آتا اُور جس طرح امتحانی بورڈز کو مذاق بنا کر ’این ٹی ایس‘ کو قابلیت جاننے کا معیار بنا دیا گیا ہے تو اس سے روزگار کے مواقع تلاش کرنے والوں میں زیادہ مایوسی پھیل گئی ہے۔ ماضی میں جو کام سیاستدانوں کی سفارش‘ رشوت یا ذاتی و خاندانی سیاسی تعلق سے ہوجایا کرتا تھا‘ اُسے بھی مشکل ترین بنا دیا گیا ہے تو آخر ’بے روزگار‘ کہاں جائیں؟ ایسی صورت میں ’خود روزگار‘ ہی ایسی سبیل ہے‘ جو پائیدار اور قابل انحصار ہونے کے ساتھ توسیع کے وسیع امکانات رکھتا ہے۔

صنف نازک کہلانے والی ایک ایسی مضبوط اعصاب کی مالکہ محترمہ (ع) کی مثال ملاحظہ کیجئے جن کا تعلق ایبٹ آباد کے ایک معروف و خوشحال گھرانے سے ہے اور بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ کئی زبانوں پر عبور بھی رکھتی ہیں۔ سلیقہ شعار خاتون خانہ اُن کی زندگی میں دو بچوں کی تعلیم و تربیت میں ’محنت کی عظمت اور اپنی ذات کو بطور نمونہ پیش کرنے سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں اُور اِس ’’قابل رشک مقصد‘‘ کے لئے انہوں نے ہاتھ سے بُنے ہوئے اُونی ملبوسات (سوئٹر‘ دستانے‘ ٹائی وغیرہ) کا کاروبار شروع کیا لیکن چونکہ زیادہ سرمایہ ہاتھ میں نہیں تھا اِس لئے ’سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ فیس بک (facebook)‘ کے ذریعے انہوں نے اپنے ہنر کی مارکیٹنگ شروع کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک سے آرڈر ملنا شروع ہوگئے ۔

آن لائن مارکیٹنگ کے آغاز پر کچھ خطرہ مول لینا پڑتا ہے جیسا کہ محترمہ (ع) نے بھی کیا کہ وہ پہلے آرڈر کے مطابق مال ارسال کر دیتی ہیں اور گاہگ کو اُس کی مطلوبہ اور معیاری چیز سے متعلق جب تسلی ہوتی ہے تو وہ قیمت ادا کردیتا ہے۔ یہ خوداعتمادی اور اپنے فن پر عبور کا مرحلہ ہے جس میں اُنہیں کسی بھی قسم کی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ محترمہ (ع) کی بدولت ہاتھوں سے بُنے ہوئے اونی سوئیٹرز کی ختم ہوتی روایت کو نئی زندگی بھی ملی جس کے لئے اُن کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہوگا۔

 انٹرنیٹ کے ذریے مارکیٹنگ کا انتخاب کرنے والوں کو ابتدا میں یہ خطرہ لازمی طور پر مول لینا پڑے گا کہ وہ گاہگوں سے پیشگی قیمت ادا کرنے کا تقاضا نہیں کر سکیں گے لیکن اگر اعتماد کا رشتہ قائم ہوگیا تو زندگی حسب خواہش آسان ہوتی چلی جائے گیٗ جیسا کہ محترمہ (ع) کو سکون قلبی ہے کہ اُن کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی اور ایسے گاہگ نہیں ملیں گے جو کشمیر کی آزادی تک قرض ادا نہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے ہوں۔

عزم اُور حوصلے کے اِس مجسم پیکر سے اگر کوئی سبق سیکھا جاسکتا ہے تو ’عہد نبھانا (کمٹمنٹ)‘ ہے اور عملی زندگی میں ’’کامیابی کا بس یہی خلاصہ ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی کاروبار اور کسی بھی پیمانے پر لین دین کا عروج اُس ’عہد‘ سے مشروط ہوتا ہے جو پہلے مرحلے میں کوئی بھی شخص آپ اپنے سے اور دوسرے مرحلے میں اُن صارفین سے کرتا ہے‘ جن سے اعتماد کا رشتہ و تعلق کی حسب ضرورت مضبوطی اس قدر ہونی چاہئے کہ وہ پیشگی ادائیگی کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان میں کئی طرح کے کاروباری مواقع ہیں‘ جن میں پیداوار‘ ڈسٹری بیوشن‘ خدمات‘ زراعت‘ درآمد و برآمد وغیرہ شامل ہیں۔ اگر آپ کسی بھی درجے کا خودروزگار (انٹرپرینیورشپ) اختیار کرنے کا جذبہ رکھتے یا رکھتی ہیں تو اپنی پسند کے کسی بھی شعبے کا انتخاب کرنے سے قبل خوداحتسابی کی نظر سے اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں۔ حکومت پاکستان نے ’انٹرپرینیورشپ کے فروغ‘ کے لئے کئی سرکاری ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں۔ جن میں ’’سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا)‘‘ بھی شامل ہے جبکہ قومی و صوبائی بینک بھی کئی قسم کے چھوٹے کاروبار کی مالی و بنیادی تکنیکی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ بہتر ہے کہ کم ازکم ایک مرتبہ ہی ’سمیڈا‘ کے قریبی دفتر یا اُن کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جائے۔ جہاں کچھ منصوبہ جات کے لئے درکار ضروریات (پری فزیبلٹی رپورٹس) مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جاسکتی ہیں۔

اگر سوال یہ ہے کہ ’’کم سرمائے سے کون سا کاروبار شروع کیا جائے؟‘‘ تو اِس کے لئے محترمہ (ع) کی مثال موجود ہے‘ جنہیں نہ کسی دفتر‘ نہ شوروم اور نہ ہی نمودونمائش پر مبنی تشہیری مہم کی ضرورت ہے۔ طویل مسافت پر کسی منزل کے لئے قدم قدم چلنے والوں کا ’توازن‘ بھی برقرار رہتا ہے وہ ہر قدم اطمینان کے ساتھ اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتے ہیں۔ کسی کاروبار کی کامیابی کے لئے خوداعتمادی کے ساتھ خوداحتسابی کا عنصر بھی شامل حال رکھیں۔ خدمات فراہم کرنے کے شعبے میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ قابل بھروسہ روزگار ہی نہیں بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ آئی ٹی ماہرین کی طلب ڈاکٹروں‘ وکلأ‘ عمارتی نقشہ سازوں‘ تعمیراتی کام کرنے والے اداروں (آرکیٹکٹ‘ بلڈرز‘ مشاورت کاروں‘ اساتذہ‘ ماہرِین نفسیات‘ فنکاروں‘ اداکاروں حتیٰ کہ سیاستدانوں کو بھی ہوتی ہے جو خود معاشرے کو کسی نہ کسی صورت اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کاروبار کے لئے سرمائے سے زیادہ جنون کی حدوں کو چھونے والے جذبے اور محنت پر آمادگی والی لگن چاہئے ہوتی ہے۔ ’’تیسری بات جھوٹ ہوتی ہے۔۔۔ عشق ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔‘‘ بس اِسی طرح جسے محنت سے ’’عشق‘‘ ہوجائے‘ تو یقین جانئے کہ یہ سرمایہ (اثاثہ) ہر شعبے میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ خود پر یقین کے ساتھ دوسروں کے اِعتماد پر پورا اُترنے کی دانستہ کوشش کرنے والوں کے لئے کامیابی منتظر رہتی ہے!

No comments:

Post a Comment