Tuesday, January 5, 2016

Jan2016: Minrate of Wisdom and Truth

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مقاصد و فراموش لمحات!
صلیبی جنگ کے بعد ’بیت المقدس‘ کی ملکہ کو شکست کا پیغام دینے والا قاصد کہتا ہے کہ ’’ہماری جنت زمین کا ٹکڑا نہیں تھی‘ جو آج ہمارے ہاتھ سے نکل گئی بلکہ یہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں موجود ایک تصور ہے‘ جسے ہم اپنی زندگی کا مقصد اور اسے آنے والی نسلوں کومنتقل کریں گے۔‘‘ تاریخ کی کتابوں میں درج یہ چند جملے آج اسرائیل نامی حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے کیونکہ ایک قوم نے شکست جیسی حقیقت کو اپنے اوپر طاری‘ حاوی اور مسلط ہونے نہیں دیا اور چاہے اُن کے وجود اور طریقۂ کار سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے لیکن بالآخر محکوم و منتشر اُور محدود مالی و افرادی وسائل رکھنے کے باوجود اپنے عظیم مقصد کو حاصل کرکے دم لیا۔ تو معلوم ہوا کہ مقصد و طلب بلند ہونی چاہئے‘ عمل کا معیار اپنی ذات کو اعلیٰ و برتر ثابت کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہئے اور ایسی ہی خوبیوں کے مالک ’تحریک صوبہ ہزارہ پاکستان‘ کے بانی اور قائد سردار (بابا) حیدر زمان ہیں جنہوں نے اپنے نفس اور ذات کو نہ تو اَرزاں سمجھا اور نہ ہی اِسے روائتی سیاست دانوں کی طرح قابل فروخت بنا کر پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے سیاسی منظرنامے میں اُن کا توانا وجود ہمیشہ مستند حوالہ رہے گا۔کون جانتا تھا کہ تین دسمبر 1934ء کو ضلع ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے گاؤں دیول میں پیدا ہونے والا ’حیدر زمان‘ صرف اپنے حسب نسب ہی کے لئے نیک ثابت نہیں ہوگا بلکہ وہ پورے ہزارہ کی دھڑکن بن کر ایک ایسی سمت کا تعین کر دے گا‘ جس سے اُس کے ذاتی مفادات وابستہ نہیں۔ اُسے نہ تو عہدوں اور مراعات کی لالچ ہے اور نہ ہی شہرت چاہئے۔ صرف ہزارہ تو کیا پورے ملک میں بابا حیدر زمان کا نام ایک مکمل تعارف اپنی ذات میں ایک ایسی انقلابی تحریک کا نام ہے‘ جس کی شدت و حدت وقتی طور پر کم تو ہو سکتی لیکن ’ایک ہی نعرہ۔۔۔صوبہ ہزارہ‘ جیسی سوچ کو زوال نہیں ہوسکتا۔ بابا حیدر زمان اِن دنوں علیل لیکن تیزرفتاری سے صحت یابی ہو رہے ہیں۔ منڈیاں ایبٹ آباد کے نجی ہپستال کا ایک چھوٹا سا کمرہ اُن کا مسکن ہے‘ جہاں اُن کی اصولی سیاست‘ دلیرانہ مؤقف (حق گوئی) اور کھٹی میٹھی باتیں سننے یا سراہنے والوں کا جھمگھٹا رہتا ہے۔

تین جنوری کی شب ہلکی بوندا باندی کے دوران ’ایبٹ آباد الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن‘ کے نومنتخب صدر طاہر حسین شاہ کی جانب سے دیئے جانے والے پرتکلف عشایئے کے بعد تمام اراکین بابا حیدر زمان کی عیادت کرنے کے لئے چار گاڑیوں میں الرحمن ہسپتال پہنچے تو نصف شب کے قریب اوقات میں ہسپتال کی خاموش راہداریاں جاگ اُٹھیں۔ بابا حیدر زمان کے چہرے پر بے وقت کے مہمانوں کو دیکھ کر ناگواری کے نہیں بلکہ اطمینان و خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ خندہ پیشانی پرنور چہرے پر سرخی پھیلتی چلی گئی۔ یکایک انہوں نے کمر سیدھی کرکے ’تحریک صوبہ ہزارہ پاکستان‘ کے حصول کے لئے ہر محاذ پر جدوجہد تیز کرنے سے متعلق لائحہ عمل بیان کرنا شروع کردیا‘ جن کا تناظر حالیہ چند اقدامات تھے۔ ایک موقع پر تو انہوں نے دبی ہوئی آواز میں یہ بھی کہا کہ ’’مجھے اپنی جسمانی کیفیات کا اندازہ ہے۔ میں تم لوگوں کے درمیان شاید قلیل عرصے کا مہمان ہوں۔ میری یہ نصیحت یاد رکھنا کہ اگر ’ہزارہ‘ کے رہنے والوں نے اپنے الگ صوبے کے لئے جدوجہد نہ کی تو آنے والے دور میں اُن کا نام و نشان مٹ جائے گا۔‘‘ بابا حیدر زمان ’’چین پاکستان اِقتصادی راہداری منصوبے‘‘ کا نام لئے بناء بات کر رہے تھے جو ہزارہ ڈویژن کے کئی بڑے شہروں بشمول ایبٹ آباد سے ہو کر گزرے گی۔ اُنہیں اِس راہداری منصوبے پر تحفظات نہیں کیونکہ وہ ایک محب وطن اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ تعمیروترقی کے جو اہداف جوڑ دیئے گئے ہیں اُنہیں حقیقی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ’صوبہ ہزارہ‘ بنانے کے لئے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم لائی جائے اور عوام کی آنکھوں میں صوبائی اسمبلی کی ایک ایسی قرارداد کی منظوری سے دھول نہ جھونکی جائے‘ جس کا وجود تو ہے لیکن اُس کی آئینی حیثیت نہیں۔ بابا حیدر زمان تلخ و شریں لب و لہجے میں ’حق گوئی‘ کا حوصلہ اور جرأت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے وسیع دسترخوان اور مہمان نوازی میں بھی ہزارہ کے جملہ سیاستدانوں میں ممتاز ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی عزت‘ مرتبہ اور مقام بڑے بڑے عہدے و مراتب رکھنے والوں سے زیادہ ہے۔

بابا حیدر زمان محض جذبات کا نام نہیں اور نہ ہی اُن کی سوچ کا مرکز و محور ہزارہ ڈویژن کی حد تک محدود ہے۔ علالت کے دوران انہوں نے 8 نکاتی ایک ایسا انقلابی منشور تحریر کیا ہے‘ جسے اگر اُن کی پوری سیاسی و غیرسیاسی زندگی اور ذہانت کا نچوڑ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان قوم کا المیہ ’شخصیت پرستی‘ ہے۔ قوم بشمول سیاست دان قومی مسائل پر جامع اُور دیرپا عملی اقدامات کی بجائے ذاتی مفادات کے اسیر ہیں۔ عام آدمی کے پاس کوئی چارہ اور کوئی ایسا متبادل بھی نہیں رہا کہ وہ سیاست دانوں کی باتوں پر یقین نہ کرے لیکن اُسے ہر سیاسی جماعت سانپ کی طرح ڈس رہی ہے اور زہر اُس کے پورے جسم میں سرایت کر چکا ہے۔ ہمیں عام قانون سازایوانوں اور بلدیاتی اِداروں کے لئے ہونے والے عام انتخابات کے نظام کی اِصلاح کرنی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے شعوری وجود کا ثبوت دیتے ہوئے ’’مالی و انتظامی بدعنوانیوں‘ اقرباء پروری‘ سیاسی مذہبی‘ گروہی‘ نسلی و لسانی تعصبات‘‘ سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ہمیں ’صرف پاکستانی (ایک قوم)‘ بن کر سوچنا اور اِس مقصد کے حصول کے لئے عملی عملاً کوششیں کرنی ہیں۔

ہزارہ پر مشتمل الگ صوبے کا قیام ’بابا حیدر زمان‘ کی زندگی کا لب لباب‘ اُن کا مؤقف اور اُن کی ہر سوچ و عمل کا نتیجہ ہے۔ اِس (عظیم) مقصد (حاصل) کو اپنے سینے سے لگائے اگرچہ وہ جسمانی طورپر اپنی (81سالہ) عمر سے زیادہ لاغر دکھائی دیتے ہیں لیکن جب ’صوبہ ہزارہ‘ کی بات آتی ہے تو نجانے کہاں سے اُن میں توانائی بھر جاتی ہے۔ اُن کا لہجہ گرجدار ہے کیونکہ سچائی (مصلحت آشنا) اُور کبھی زیر نہیں ہوتی۔ سچائی مرتی بھی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ بابا حیدر زمان کی جلد صحت یابی اور درازئ عمر کی دعائیں کرتے ہوئے جب اُن سے ’اِلتماس دعا‘ کہا گیا تو انہوں ہاتھ تھامے کہا ’’بہت دعا‘ مجھے بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے تاکہ سچائی کے محاذ پر ڈٹ کر اُن قوتوں کا مقابلہ کرسکوں جو (مشتری ہوشیار باش) قیادت کے لبادے میں ’ہزارہ‘ کو پسماندہ‘ محکوم اُور اپنے مفادات کا اَسیر بنائے رکھنا چاہتے ہیں!

No comments:

Post a Comment