Monday, January 4, 2016

TRANSLATION: Checks and balances

Checks & balances
نگرانی کا عمل
دنیا میں قریب 12 درجن اقسام کی جمہوریتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے 8 صدراتی نظام حکومت جبکہ چار درجن پارلیمانی نظام حکومت کے مطابق فیصلے کرتی ہیں جن میں کسی فرد واحد کی بجائے حکمراں قانون ساز اسمبلی کے سامنے جواب دے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح طرز حکمرانی کا ایک طریقہ ’آمریت (ڈکٹیٹرشپ)‘ کہلاتا ہے جس میں ملک پر فرد واحد کی حکومت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک طرز حکمرانی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں اختیار کم تعداد میں افراد کے پاس ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو جمہوریت کو آمریت بننے سے روکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جس میں جمہوریت جیسا وسیع فیصلہ سازی کا اختیار چند افراد کی حد تک محدود ہو جاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ جمہوریت کو اُس کی اصل اور روح کے مطابق چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ادارے مضبوط کئے جائیں‘ اُن پر نگرانی رکھی جائے اور انتظامی و مالی بدعنوانیوں کو روکنے کے لئے کارکردگی کا احتساب مسلسل عمل کی صورت جاری و ساری رہے۔

سال1985ء میں پاکستان کے آئین کی 58ویں شق میں ترمیم کرتے ہوئے اضافہ کیا گیا کہ ’’ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس میں وفاق پر مشتمل حکومت کو آئین کے مطابق چلانا ممکن نہیں رہا اُور اس صورتحال میں ووٹ دینے والوں سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔‘‘ سال 1988ء میں ہوئے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے قریباً 75لاکھ ووٹ حاصل کئے اور 114 قومی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔ 9 جماعتوں کے ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی کی 60 نشستیں حاصل کیں۔ جب بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم عہدے کا حلف لیا تو اُس وقت اُن کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے دو اسباب موجود تھے۔ ایک تو آئین میں ’اٹھاون ٹو بی‘ کی شق اور دوسرا پارلیمنٹ کے اندر ایک مضبوط حزب اختلاف کا وجود تھا۔

سال 1990ء میں ہوئے عام انتخابات میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ نے قومی اسمبلی کی 111 نشستیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 44نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اُس وقت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے دو قسم کے مؤثر ’چیکس اینڈ بیلنسیز‘ موجود تھے یعنی آئین میں ’اٹھاون ٹو بی‘ کی شق موجود تھی جس کے تحت حکومت کو اُس کی مدت سے قبل ختم کیا جاسکتا تھا اور دوسرا پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا وجود تھا۔

سال 1993ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے قریباً 76لاکھ ووٹ حاصل کئے اور قومی اسمبلی کی 89نشستوں پر پیپلزپارٹی کے نامزد اُمیدوار کامیاب ٹھہرے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو قریباً 80لاکھ ووٹ اور قومی اسمبلی کی 73نشستیں ملیں۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے دو قسم کے مؤثر ’چیکس اینڈ بیلنسیز‘ موجود تھے یعنی آئین میں ’اٹھاون ٹو بی‘ کی شق موجود تھی جس کے تحت حکومت کو اُس کی مدت سے قبل ختم کیا جاسکتا تھا اور دوسرا پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا وجود تھا۔

سال 1997ء میں ہوئے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 137 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلزپارٹی نے 18۔ چار اپریل 1997ء کے روز آئین میں 13ویں ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت ’اٹھاون ٹو بی‘ کا خاتمہ کر دیا گیا اور اسی طرح صدر کی جانب سے وزیراعظم کی کارکردگی پر نگرانی کے آئینی طریقۂ کار کو بھی ختم کر دیا گیا۔

14مئی 2006ء کے روز بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے ’قراردار جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی)‘ پر دستخط کئے جس کے تحت پارلیمینٹ میں حزب اختلاف کے مؤثر کردار کو ختم کردیا گیا۔ سال2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 119 جبکہ نواز لیگ نے 89 نشستیں حاسل کی۔ جب سیّد یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھایا تو اُن کی کارکردگی پر نگرانی کا کوئی بھی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔

سال 2013ء کے عام انتخابات میں جب پاکستان مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 166 اور پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور نواز شریف نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو بھی منتخب جمہوری حکومت کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے والا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔ سوچئے کہ وہ کیا انتظامات و اقدامات ہو سکتے ہیں جو کسی منتخب جمہوری حکومت کو آمریت یا شخصی اقتدار کا مجموعہ بنا سکتے ہیں؟

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment