Monday, January 4, 2016

The game of counting!

 ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گنتی کا کھیل!
سترہ برس کا اعصاب شکن انتظار کسی بھی صورت معمولی نہیں لیکن بالآخر فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے کہ پاکستان میں مردم اور گھروں کا شمار رواں برس تیسرے ماہ میں کروایا جائے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے حسب حکم محکمۂ شماریات نے ایک معاہدے کو حتمی شکل بھی دے دی ہے جسے ’دیر آئد درست آئد‘ قرار دیتے ہوئے زیرلب دعا ہے کہ ایسا کچھ بڑا نہ ہو جائے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیکورٹی خدشات کے سبب ایک مرتبہ پھر مردم و خانہ شماری جیسا دیرینہ کام بادلنخواستہ ملتوی کرنا پڑ جائے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (ادارہ شماریات) کی گورننگ کونسل کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے مردم شماری کے منعقد کرانے کے لئے جس نئے لائحہ عمل کی منظوری دی ہے‘ وہ ایک درست سمت اور درست وقت پر کیا جانے والا درست اقدام ہے۔ اگر حالات معمول پر رہتے ہیں تو مردم و خانہ شماری کے ابتدائی نتائج کو یکجا کرنے کا کام رواں سال جون میں مکمل کرلیا جائے گا جبکہ اس کے دیگر پہلوؤں پر تفصیلی کام مکمل کرنے میں مزید اٹھارہ ماہ کا وقت درکار ہو گا یعنی دسمبر دو ہزار سترہ تک مردم و خانہ شماری کے عمل کی تکمیل اور ایک ایسا تفصیلی جائزہ (سروے) ہاتھ آ جائے گا‘ جس میں اضلاع کی سطح پر جامع اعدادوشمار شامل ہوں گے۔ منصوبہ سازی کے مرحلے پر غوروخوض سے طے ہوا ہے کہ آبادی کی مردم شماری و خانہ شماری کی تفصیلات ترتیب دینے کے لئے تین سال کا عرصہ درکار ہوگا تاہم دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل قبل مکمل کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں جن میں زیادہ افرادی قوت و ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے‘ جس سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ تو ہوگا لیکن عام انتخابات سے قبل اسے مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ آخر عام انتخابات سے قبل ہی کیوں؟

پاکستان کا طرز حکمرانی ترجیحات کے درجات میں منقسم ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی طرح انتخابی سیاست کرنے والوں کے اپنے مفادات بھی ہیں جن کا بہرصورت تحفظ کرنے کے لئے نہایت ہی سنجیدگی و باریک بینی سے قومی و صوبائی حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں۔ اجتماعی اور قومی مفاد جیسی اصطلاحات تو نمائشی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو اتنا وقت دینا مقصود ہے جس میں نئی حلقہ بندیاں اور حالیہ آبادی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں (نشستوں کی تعداد) میں اضافہ کیا جا سکے لیکن یہ اضافہ کچھ اِس طرح ہو کہ حکمراں و حزب اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت کے (انتخابی) مفادات پر ضرب نہ لگے۔ اِس سلسلے میں جملہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کوششوں کا آغاز بھی آئندہ چند ہفتوں میں درپردہ رابطہ کاری سے شروع ہو جائے گا تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردم شماری کے موقع پر عوام اپنی بیداری اور احساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اِس عمل کی معاونت اُور ’’گنتی کے کھیل‘‘ کو اِدھر اُدھر کرنے والوں کے عزائم پورے نہ ہونے دیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قانون ساز ایوانوں میں اقلیتوں‘ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے متعدد بل (مسودۂ قانون) تعطل کا شکار ہیں۔جن پر غوروخوض کے کئی مراحل کے بعد دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیاں پہلے ہی اس امر پر اتفاق کر چکی ہیں کہ ’’مردم شماری کے نتائج آنے تک ایسی قانون سازی نہ کی جائے کیونکہ وہ متنازعہ رہے گی۔‘‘ خوش آئند ہے کہ مردم شماری کے ذریعے سے ملک بھر میں نقل مکانی اور دیہی و شہری آبادی کے حجم و تناسب کے بارے میں کسی حد تک مکمل و قابل بھروسہ اعداد و شمار حاصل ہوجائیں گے۔ اِس پورے عمل پر ماحولیاتی خطرات اور تحفظ خوراک کی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کی توجہ مرکوز ہے کیونکہ جہاں ایک طرف کرۂ ارض کے موسم تبدیل ہونے کے منفی اثرات ہمارے ہاں دیکھے جا سکتے ہیں وہیں بڑے پیمانے پر زیرکاشت و قابل کاشت زرعی اراضی بھی رہائشی مقاصد کے لئے استعمال ہونے کی وجہ سے خوراک کا تحفظ ممکن نہیں ہو پارہا۔ اگر قارئین تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ لیں تو ایک زرعی ملک کی صنعتی ترجیحات رکھنے والوں کو اپنے قول و فعل پر غور کرنا چاہئے۔ الغرض زراعت (بشمول لائیوسٹاک) گریز منفی عوامل کی حوصلہ شکنی مردم شماری وخانہ شماری کے بناء ممکن نہیں۔

انتخابی حلقہ بندیاں اُور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نئے حلقے آئین کے تحت ایک ایسی ضرورت ہیں‘ جنہیں پورا کرنے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ اگرچہ مردم شماری کی درست تاریخوں کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی تاہم اِس بات کا فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ مردم شماری مارچ کے آخری دنوں میں کی جائے۔ جس کے لئے چودہ ارب پچاس کروڑ روپے کا بجٹ منظور کرنے کے بعد اِسے صوبوں پر تقسیم کر دیا جائے گا یعنی ہر صوبہ اپنے ہاں ہونے والی مردم و خانہ شماری کے اخراجات خود برداشت کرے گا۔ یہ فیصلہ کہ مردم شماری ایک ہی مرحلے میں مکمل کی جائے‘ بہتر ہے۔ پہلے تین روز میں مکانات کا شمار دیگر پندرہ روز میں ہر گھر کی مردم شماری کے کوائف اکٹھا کرنے جبکہ ایک روز بے گھر افراد کے لئے مختص کیا جائے گا۔ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ملک کی ’’چھٹی مردم شماری‘‘ کا عمل فوج کی زیرنگرانی اور حفاظتی حصار میں مکمل کیا جائے گا تاہم اِس کے انعقاد کے ساتھ یکساں اہمیت شفافیت کو بھی دینی چاہئے کیونکہ اگر اجتماعی مفاد عزیز ہے اور منصوبہ سازوں کے پیش نظر صرف نئی انتخابی حلقہ بندیاں متعین کرنے ہی کا ہدف نہیں تو چودہ ارب روپے سے زائد جیسی خطیر رقم خرچ کرنے میں صوبوں کو شریک سفر ہی نہیں بلکہ مشاورتی و منصوبہ بندی کے عمل میں بھی ساتھ رکھنا چاہئے۔

 اُمید ہو چلی ہے کہ اگر عمومی صورتحال میں (وفاقی و صوبائی) حکومتیں عام آدمی تک بنیادی یا تعلیم و صحت جیسی سہولیات نہیں پہنچا پا رہیں تو یقیناًمردم شماری کے بعد اجتماعی مفادات بطور ترجیح فیصلہ سازی کے عمل پر حاوی و بھاری دکھائی دیں گے۔ ’’زخموں کے باوجود میرا حوصلہ تو دیکھ۔۔۔ تو ہنس دیا‘ تو میں بھی تیرے ساتھ ہنس دیا!‘‘

No comments:

Post a Comment