Incentives for peace
(افغانستان: قیام) اَمن کے ثمرات
(افغانستان: قیام) اَمن کے ثمرات
افغانستان میں قیام امن کے لئے معطل عمل کو پھر سے فعال کرنے کے لئے معلوم
کوشش جاری ہے اور اس سلسلے میں پیشرفت پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف
کے دورۂ افغانستان کے دوران دیکھنے میں آئی۔ یہ دورۂ ستائیس دسمبر کے روز
کیا گیا۔ درحقیقت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی افغانستان سے متعلق ’ہارٹ
آف ایشیاء کانفرنس‘ جو کہ آٹھ اور نو دسمبر کے روز ہوئی کے بعد سے
افغانستان متعلق بہت سے امور طے پا رہے ہیں۔ اسی کانفرنس کا نتیجہ تھا کہ
افغان صدر اشرف غنی جو کہ پاکستان کا دورۂ کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے اور
یہ مؤقف رکھتے تھے کہ پاکستان افغانستان میں عدم استحکام کے لئے درحقیقت
ذمہ دار ہے لیکن وہ پاکستان آئے اور پھر اُنہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا
کہ افغان طالبان سے مذاکراتی عمل کے لئے پاکستان کی مدد اور کردار سے
استفادہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں دوسری پیشرفت پاک فوج کے سربراہ اور خفیہ
ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہوں کا افغانستان کا دورہ تھا جس میں وسیع
بنیادوں پر قیام امن کے لئے اپنے ہم منصبوں بشمول افغان حکمرانوں سے بات
چیت کی گئی۔ اگر اشرف غنی معاملات کو سمجھنے میں جذبات کی بجائے بصیرت سے
کام لیتے تو ’ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس‘ کے انعقاد سے قبل پاکستان کی عسکری
قیادت افغانستان کے دورے کر چکی ہوتی اور کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی
دونوں ممالک کے درمیان کئی امور پر اتفاق رائے بلکہ لائحہ عمل بھی تشکیل
پاچکا ہوتا۔ پاکستان میں فوجی قیادت کے دورۂ افغانستان پر تنقید سننے میں
آئی۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ فوجی قیادت کی بجائے منتخب سیاسی رہنماؤں
اور متعلقہ وزارت خارجہ کے امور کی نگرانی کرنے والوں کو پہلے مرحلے میں
افغانستان کا دورہ کرنا چاہئے تھا یا اِن افراد کو بھی فوجی قیادت کے ہمراہ
افغانستان کا دورہ کرنا چاہئے تھا جس سے یہ پیغام منتقل ہوتا کہ افغان
امور سے متعلق پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت ایک جیسی سوچ‘ فیصلے‘ عمل اور
مشترکہ حکمت عملی رکھتی ہے۔ پاک فوج کی قیادت کے دورۂ افغانستان سے یہ
تاثر اُبھرا ’افغان امور‘ پاک فوج سے متعلقہ ہیں اور ان کے طے کرنے میں ملک
کے منتخب وزیراعظم کا عمل دخل غیرمعمولی نہیں۔ یہ بات شک وشبے سے بالاتر
ہے کہ پاکستان کی ’افغان پالیسی‘ اور داخلی سطح پر متعلقہ امور جیسا کہ
اندرون ملک سیکورٹی کی صورتحال یا دہشت گردی سے نمٹنے جیسے امور کا بڑا حصہ
پاک فوج ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن افغانستان جانے والے وفد کے ہمراہ سیاسی
رہنماؤں یا متعلقہ وزارت کے اہلکاروں کے نہ ہونے سے افغان حکومت کے اس تاثر
کو ایک مرتبہ پھر تقویت ملی ہے کہ اگر انہیں افغان مسئلے کو حل کرنا ہے تو
اِس کے لئے پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے معاملہ کرنا
ہوگا۔
جنرل راحیل شریف کے دورۂ افغانستان سے چند مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے۔ سب سے پہلی غیرمعمولی بات تو یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرلز کے درمیان براہ راست ٹیلی فونک رابطہ کاری (ہاٹ لائن) کے قیام پر اتفاق ہوا جس سے دونوں عسکری امور کے نگران ڈھائی ہزار کلومیٹر کی سرحد پر پیش آنے والی کسی ہنگامی صورتحال یا عمومی سطح پر مشاورت کے لئے ایک دوسرے سے فوری رابطہ کرکے تبادلۂ خیال کرسکیں گے۔ اسی ’ہاٹ لائن‘ کے ذریعے دونوں ممالک میں سرحدوں کی خلاف ورزی یا سرحد پار سے کسی اشتعال انگیز کاروائی سے متعلق ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا جا سکے گا‘ جس سے اُن کے درمیان غلط فہمیوں کا فوری (بروقت) ازالہ ممکن ہوگا۔ یہ ’ہاٹ لائن‘ رابطہ کاری کا قیام 30دسمبر سے ہو چکا ہے اور اُمید ہے کہ دونوں ممالک اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی اختلافات و عدم اعتمادی کا سبب بننے والے محرکات سے نجات حاصل سے کریں گے۔ پاکستان حکام کے تحفظات رہے کہ ماضی میں بھی افغان صدر کے ساتھ ہوئی بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے سے جن اقدامات پر اتفاق ہوا‘ وہ سرحدوں کی نگرانی کرنے والے افغان حکام کو منتقل نہیں ہوسکے اور اسی قسم کے گلے شکوے افغان قیادت کی جانب سے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’ہاٹ لائن رابطہ کاری‘ سے غلط فہمیوں کا مؤجب بننے والے امور طے ہوتے چلے جائیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان شکایات کے ازالے کے لئے ایک طریقہ کار سال2014ء کے اختتام تک موجود تھا تاہم افغانستان سے نیٹو تنظیم کے رکن ممالک کی افواج کے مرحلہ وار انخلأ کے مکمل ہونے کے ساتھ رابطہ کاری پر سکوت طاری ہوگیا۔ ماضی میں سہ فریقی عسکری کمیشن افغانستان پاکستان اور امریکہ کی قیادت والی نیٹو افواج کی کمانڈ میں مستقل بنیادوں پر ملاقاتیں کرتی رہتی تھی جن میں سرحد پر پیدا ہونیو الے مسائل و حالات کے بارے بروقت اقدامات (حل) طے کر لئے جاتے تھے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں تعینات خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے درمیان بھی رابطے کی سبیل موجود تھی اور دونوں ممالک معلومات کا تبادلہ کرتے تھے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضاء کو خوشگوار بنائے رکھنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔
پاکستان کی فوجی قیادت کے دورۂ افغانستان کا ایک حاصل یہ بھی رہا کہ افغان حکومت اور افغان طالبان مزاحمت کاروں کے درمیان ’امن مذاکرات‘ کے لئے شروعاتی اقدامات طے کئے گئے جس سے تعطل کا شکار مذاکراتی عمل پھر سے بحال ہو سکے۔ اس سلسلے میں ’ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس‘ میں چار فریق پاکستان‘ افغانستان‘ امریکہ اور چین پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ہرممکن و بھرپور تعاون کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں جس میں امن مذاکرات کی نگرانی بھی شامل ہے۔ اس چار فریقی ٹیمکو ’اسٹیرینگ کمیٹی‘ کا نام دیا گیا جس پر چین کے سفارتکار نے اعتراض کرتے ہوئے یہ مؤقف پیش کیا کہ افغانستان میں قیام امن کی باگ دوڑ اور کوششوں کا انحصار افغان حکومت کے ہاتھ ہونا چاہئے اور افغان حکومت ہی کو اس کی ملکیت بھی رکھنی چاہئے تو یہ عمل زیادہ تیزرفتار اور پائیدار خاطرخواہ نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں اس چار فریقی ٹیم کو ’کوآرڈینیشن کمیٹی‘ کا نام دے کر مخاطب کیا جائے جو نہ صرف امن مذاکرات کی سہولت کار و نگران ہو بلکہ اگر قیام امن کے لئے جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا ہے تو وہ اس عمل کی پائیداری کے لئے بطور ضامن بھی کردار ادا کرے۔
افغان قیام امن سے متعلق چار فریقی کمیٹی کا پہلا اجلاس 16 جنوری کے روز ہونا طے ہے جس میں اُمید ہے کہ فیصلہ کیا جائے گا کہ امن کی راہ میں حائل مشکلات اور قیام امن کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینے جیسی تفصیلات (روڈ میپ) پہلے ہی اجلاس میں طے کر لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کا کردار کلیدی ہے جنہیں ظاہری سی بات ہے کہ طالبان کے لئے ایسی پیشکشیں کرنا ہوں گی جس سے وہ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں اور بعدازاں قیام امن کے لئے جنگ بندی پر بھی رضامند ہو جائیں۔ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ جو متحارب فریق افغان امن کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے اُن کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے گا جبکہ ایسے فریق جو قیام امن میں معاونت کریں گے اُنہیں سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں کہ کس طرح کے سخت اقدامات کئے جائیں گے لیکن ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ انتہائی درجے کا ہوگا اگر پرامن مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے (حل) تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ دوسری طرف افغان طالبان کی صفوں میں اتفاق نہیں۔ ایک گروہ امن مذاکرات کا مخالف ہے اور مذاکرات سے انکار کئے بیٹھا ہے تاہم طالبان کے بڑے دھڑے جس کی قیادت ملا اختر محمد منصور اور سب سے چھوٹے دھڑے جس کی قیادت ملا محمد رسول کر رہے ہیں‘ اِن دونوں کی جانب سے امن مذاکراتی عمل کے بارے میں کوئی بیان (مؤقف) تاحال سامنے نہیں آیا لیکن دونوں کے بارے میں قوی تاثر ہے کہ وہ امن مذاکرات کے شروع ہوتے ی اس میں شریک ہو جائیں گے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت کے لئے اضافی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
افغان طالبان کے قدرے چھوٹے اور کمزور دھڑے پاکستان کے دباؤ میں آسانی سے آ جائیں گے لیکن اُن کے رضامند ہونے سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ سابق مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی دعوت اسلامی بھی عسکری طور پر کمزور ہے افغان حکومت سے مذاکرات کرلے گی کیونکہ وہ ماضی میں بھی افغان حکومت اور امریکی حکام سے اِس قسم کے مذاکرات کرچکے ہیں۔ سب سے مشکل (چیلنج) یہ ہوگا کہ ملا منصور جس طالبان گروہ کی قیادت کررہے ہیں انہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے کیونکہ یہی گروہ افغانستان کے سبھی صوبوں میں اپنی فعالیت رکھتا ہے اور قطر میں افغان طالبان کا دفتر بھی انہی کے پاس ہے۔
پاکستانی حکام ان خدشات کا شکار ہیں کہ اگر افغان طالبان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے امن کے مذاکراتی عمل پر منفی اَثر پڑسکتا ہے اُور افغان حکومت اور عوام میں پاکستان مخالف جذبات بڑھ سکتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں چین اور امریکہ کو شامل کئے جانے سے کم از کم اس بات کی تو ضمانت مل چکی ہے کہ اگر یہ مذاکراتی عمل کسی وجہ سے تعطل کا شکار ہوتا ہے یا کسی اتفاق رائے پر عملی پیشرفت اگر نہیں ہوتی تو اِس کے لئے ماضی کی طرح صرف پاکستان کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ افغانستان میں قیام امن ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ایک مشترکہ ضرورت ہے بالخصوص 10 ارب ڈالر مالیت کا ترکمنستان‘ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ صرف ایک ہی صورت مکمل ہوسکتا ہے اگر افغانستان میں وسیع البناد امن کے قیام کا حصول ممکن بنا دیا جائے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
جنرل راحیل شریف کے دورۂ افغانستان سے چند مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے۔ سب سے پہلی غیرمعمولی بات تو یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرلز کے درمیان براہ راست ٹیلی فونک رابطہ کاری (ہاٹ لائن) کے قیام پر اتفاق ہوا جس سے دونوں عسکری امور کے نگران ڈھائی ہزار کلومیٹر کی سرحد پر پیش آنے والی کسی ہنگامی صورتحال یا عمومی سطح پر مشاورت کے لئے ایک دوسرے سے فوری رابطہ کرکے تبادلۂ خیال کرسکیں گے۔ اسی ’ہاٹ لائن‘ کے ذریعے دونوں ممالک میں سرحدوں کی خلاف ورزی یا سرحد پار سے کسی اشتعال انگیز کاروائی سے متعلق ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا جا سکے گا‘ جس سے اُن کے درمیان غلط فہمیوں کا فوری (بروقت) ازالہ ممکن ہوگا۔ یہ ’ہاٹ لائن‘ رابطہ کاری کا قیام 30دسمبر سے ہو چکا ہے اور اُمید ہے کہ دونوں ممالک اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی اختلافات و عدم اعتمادی کا سبب بننے والے محرکات سے نجات حاصل سے کریں گے۔ پاکستان حکام کے تحفظات رہے کہ ماضی میں بھی افغان صدر کے ساتھ ہوئی بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے سے جن اقدامات پر اتفاق ہوا‘ وہ سرحدوں کی نگرانی کرنے والے افغان حکام کو منتقل نہیں ہوسکے اور اسی قسم کے گلے شکوے افغان قیادت کی جانب سے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’ہاٹ لائن رابطہ کاری‘ سے غلط فہمیوں کا مؤجب بننے والے امور طے ہوتے چلے جائیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان شکایات کے ازالے کے لئے ایک طریقہ کار سال2014ء کے اختتام تک موجود تھا تاہم افغانستان سے نیٹو تنظیم کے رکن ممالک کی افواج کے مرحلہ وار انخلأ کے مکمل ہونے کے ساتھ رابطہ کاری پر سکوت طاری ہوگیا۔ ماضی میں سہ فریقی عسکری کمیشن افغانستان پاکستان اور امریکہ کی قیادت والی نیٹو افواج کی کمانڈ میں مستقل بنیادوں پر ملاقاتیں کرتی رہتی تھی جن میں سرحد پر پیدا ہونیو الے مسائل و حالات کے بارے بروقت اقدامات (حل) طے کر لئے جاتے تھے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں تعینات خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے درمیان بھی رابطے کی سبیل موجود تھی اور دونوں ممالک معلومات کا تبادلہ کرتے تھے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضاء کو خوشگوار بنائے رکھنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔
پاکستان کی فوجی قیادت کے دورۂ افغانستان کا ایک حاصل یہ بھی رہا کہ افغان حکومت اور افغان طالبان مزاحمت کاروں کے درمیان ’امن مذاکرات‘ کے لئے شروعاتی اقدامات طے کئے گئے جس سے تعطل کا شکار مذاکراتی عمل پھر سے بحال ہو سکے۔ اس سلسلے میں ’ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس‘ میں چار فریق پاکستان‘ افغانستان‘ امریکہ اور چین پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ہرممکن و بھرپور تعاون کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں جس میں امن مذاکرات کی نگرانی بھی شامل ہے۔ اس چار فریقی ٹیمکو ’اسٹیرینگ کمیٹی‘ کا نام دیا گیا جس پر چین کے سفارتکار نے اعتراض کرتے ہوئے یہ مؤقف پیش کیا کہ افغانستان میں قیام امن کی باگ دوڑ اور کوششوں کا انحصار افغان حکومت کے ہاتھ ہونا چاہئے اور افغان حکومت ہی کو اس کی ملکیت بھی رکھنی چاہئے تو یہ عمل زیادہ تیزرفتار اور پائیدار خاطرخواہ نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں اس چار فریقی ٹیم کو ’کوآرڈینیشن کمیٹی‘ کا نام دے کر مخاطب کیا جائے جو نہ صرف امن مذاکرات کی سہولت کار و نگران ہو بلکہ اگر قیام امن کے لئے جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا ہے تو وہ اس عمل کی پائیداری کے لئے بطور ضامن بھی کردار ادا کرے۔
افغان قیام امن سے متعلق چار فریقی کمیٹی کا پہلا اجلاس 16 جنوری کے روز ہونا طے ہے جس میں اُمید ہے کہ فیصلہ کیا جائے گا کہ امن کی راہ میں حائل مشکلات اور قیام امن کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینے جیسی تفصیلات (روڈ میپ) پہلے ہی اجلاس میں طے کر لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کا کردار کلیدی ہے جنہیں ظاہری سی بات ہے کہ طالبان کے لئے ایسی پیشکشیں کرنا ہوں گی جس سے وہ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں اور بعدازاں قیام امن کے لئے جنگ بندی پر بھی رضامند ہو جائیں۔ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ جو متحارب فریق افغان امن کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے اُن کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے گا جبکہ ایسے فریق جو قیام امن میں معاونت کریں گے اُنہیں سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں کہ کس طرح کے سخت اقدامات کئے جائیں گے لیکن ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ انتہائی درجے کا ہوگا اگر پرامن مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے (حل) تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ دوسری طرف افغان طالبان کی صفوں میں اتفاق نہیں۔ ایک گروہ امن مذاکرات کا مخالف ہے اور مذاکرات سے انکار کئے بیٹھا ہے تاہم طالبان کے بڑے دھڑے جس کی قیادت ملا اختر محمد منصور اور سب سے چھوٹے دھڑے جس کی قیادت ملا محمد رسول کر رہے ہیں‘ اِن دونوں کی جانب سے امن مذاکراتی عمل کے بارے میں کوئی بیان (مؤقف) تاحال سامنے نہیں آیا لیکن دونوں کے بارے میں قوی تاثر ہے کہ وہ امن مذاکرات کے شروع ہوتے ی اس میں شریک ہو جائیں گے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت کے لئے اضافی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
افغان طالبان کے قدرے چھوٹے اور کمزور دھڑے پاکستان کے دباؤ میں آسانی سے آ جائیں گے لیکن اُن کے رضامند ہونے سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ سابق مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی دعوت اسلامی بھی عسکری طور پر کمزور ہے افغان حکومت سے مذاکرات کرلے گی کیونکہ وہ ماضی میں بھی افغان حکومت اور امریکی حکام سے اِس قسم کے مذاکرات کرچکے ہیں۔ سب سے مشکل (چیلنج) یہ ہوگا کہ ملا منصور جس طالبان گروہ کی قیادت کررہے ہیں انہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے کیونکہ یہی گروہ افغانستان کے سبھی صوبوں میں اپنی فعالیت رکھتا ہے اور قطر میں افغان طالبان کا دفتر بھی انہی کے پاس ہے۔
پاکستانی حکام ان خدشات کا شکار ہیں کہ اگر افغان طالبان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے امن کے مذاکراتی عمل پر منفی اَثر پڑسکتا ہے اُور افغان حکومت اور عوام میں پاکستان مخالف جذبات بڑھ سکتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں چین اور امریکہ کو شامل کئے جانے سے کم از کم اس بات کی تو ضمانت مل چکی ہے کہ اگر یہ مذاکراتی عمل کسی وجہ سے تعطل کا شکار ہوتا ہے یا کسی اتفاق رائے پر عملی پیشرفت اگر نہیں ہوتی تو اِس کے لئے ماضی کی طرح صرف پاکستان کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ افغانستان میں قیام امن ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ایک مشترکہ ضرورت ہے بالخصوص 10 ارب ڈالر مالیت کا ترکمنستان‘ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ صرف ایک ہی صورت مکمل ہوسکتا ہے اگر افغانستان میں وسیع البناد امن کے قیام کا حصول ممکن بنا دیا جائے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
No comments:
Post a Comment