ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ناکافی نیک نیتی!
ناکافی نیک نیتی!
قبائلی علاقہ جات کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے وفاقی حکومت کی جانب سے قائم
کردہ ’’اصلاحات کا تعین کرنے والی خصوصی اختیاراتی کمیٹی‘‘ میں متعلقہ
اراکین اسمبلیوں کوشامل نہ کرنے کی وجہ سے اِس گروہ کی صحت پر اگرچہ کوئی
فرق نہیں پڑتا اُور نہ ہی اُن کی آئینی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے کیونکہ آئین
کی کسی بھی شق میں یہ نہیں لکھا ملتا کہ جب کبھی قبائلی علاقوں کی اصلاحات
کی جائیں گی تو اِس کے لئے مشاورتی عمل میں قبائلیوں نمائندگی وہاں سے
منتخب ہونے والے لازماً کریں گے یا سبھی قبائلی علاقوں کی نمائندگی کوئی
ایک منتخب نمائندہ کرے گا لیکن چونکہ ’کامن سینس‘ زیادہ ’کامن‘ نہیں ہوتا
اِس لئے فیصلہ سازی کی حد تک وفاقی حکومت نے جو کچھ بھی کیا وہ آئینی طور
پر جائز لیکن اخلاقی طور پر ناقابل یقین ہے کیونکہ کسی ایسی اصلاحاتی کمیٹی
کا اخلاقی جواز‘ حیثیت کیا ہو سکتی ہے جو قبائلی حالات‘ روایات‘ وہاں کے
رہنے والوں کی ضروریات اور سوچ سے متعلق سمجھ بوجھ کا سطحی معیار رکھتی ہو؟
یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے وکلأ نے بادلنخواستہ
فیصلہ کیا ہے کہ وہ ’اصلاحاتی کمیٹی‘ کے قیام سمیت اِس پورے اصلاحاتی عمل
سے قبائلیوں کو الگ رکھنے کے معاملے کو ’پشاور ہائی کورٹ‘ میں چیلنج کریں
گے۔ قبائلی وکلأ کا منطقی جواز یہ ہے کہ ’’آئینی اختیار یا کسی معاملے کے
حل کی خواہش یا محض نیک نیتی ہی کافی نہیں ہوتی‘ بلکہ جن کے بارے میں فیصلہ
ہونے جا رہا ہے وہ جمادات و نباتات نہیں بلکہ انسان ہیں اُور اُن کے نکتۂ
نظر کو پیش کرنے‘ اُن کے مفادات‘ ضروریات اور خواہشات بھی سوچ بچار کے عمل
کا لازمی جز ہونی چاہیءں۔‘‘
کیا یہی جمہوریت ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں پر فیصلے مسلط کئے جائیں؟ کیا قبائلی علاقوں کے رہنے والے بھیڑ بکریوں یا جانوروں جیسے ہیں کہ جن میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کرنے کی صلاحیت و ذہانت (شعور) نہیں پایا جاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لئے قائم ’اصلاحاتی کمیٹی‘ میں پارلیمانی نمائندوں کو شامل نہ کرنا ’’ستم بالائے ستم‘‘ کے مترادف ہے‘ جس کا مقصد و حاصل کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اِس سے درکار خیروعافیت یعنی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ہمارے فیصلہ ساز اِس باریک نکتے پر کیوں نہیں سوچتے کہ حال و مستقبل کے قبائلی اُن کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے؟ دہشت گردی کے خلاف اختیار کی جانے والی قومی حکمت عملی بنام ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں اگر قبائلی علاقوں کی اصلاحات کی شق موجود نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ اِن علاقوں پر مسلط و حاوی سوچ کو اب بھی قبائلیوں کا خیال نہ آتا لیکن غیرضروری جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کی گتھی سلجھانے کی بجائے مزید الجھائی جا رہی ہے‘ اُور اَگر ایسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کے بارے میں قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے نکتۂ نظر سے کمی یا خامی یا مزید اصلاح کی گنجائش باقی رہ گئی تو موجودہ کوشش ماضی ہی کی طرح محض وقت و سرمائے کا ضیاع ثابت ہوگی!
یادش بخیر قبائلی علاقوں (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے ’’19 پارلیمانی نمائندے‘‘ پہلے ہی ایک مسودۂ قانون (آئینی ترمیم) پر دستخط کرکے اُسے قومی اسمبلی میں جمع کرا چکے ہیں اور ’’فاٹا اصلاحاتی کمیٹی‘‘ کے بارے میں شدید تحفظات دل میں نہیں بلکہ زبانوں پر سجائے ہوئے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ قبائلی پارلیمانی نمائندے اِس قدر اپنے متعلق ہونے والے فیصلے پر اس قدر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہوں! آئینی ترمیم کا پارلیمانی فریقین کی جانب سے مشترکہ مطالبہ قبائلی وکلأ کے مقدمے کا بنیادی نکتہ ہے اور وہ بھی اِسی بات پر زور دے رہے ہیں کہ قبائلی پارلیمانی نمائندوں کی جانب نے جس اتفاق رائے سے آئینی ترمیم تیار کی گئی پھر وہ قرارداد ایوان بالا (سینیٹ) کی قانون و پارلیمانی کمیٹی نے منظور کی اور بعدازاں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے مذکورہ ’بل‘ کی حمایت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تو پھر کیا امر مانع ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں میں احساس محرومی کو باقی رکھا جارہا ہے اور پارلیمانی نمائندوں کو ایک ایسے سفر میں ہمسفر نہیں کیا جا رہا‘ جس کی منزل اُنہی کی مقصود ہے؟!
قبائلی علاقوں اور وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں ہر نکتۂ اعتراض‘ ہر سوال اُور ہر آئینی ترمیم کا مطالبہ جائز ہے کیونکہ یہ علاقے بنیادی ضروریات ہی نہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور پسماندگی و غربت کی زندہ تصویریں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسندوں اور انتہاء پسندوں کو یہاں کے نوجوانوں کو شکارکرنے کا موقع ملا اُور اُنہوں نے محب وطن قبائلیوں کی سرزمین پر پاؤں جمائے۔ قبائلی علاقوں کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ مالی مفادات جیسی ترجیحات کی بناء پر پولیٹیکل انتظامیہ کی گرفت اِن علاقوں پر کمزور ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کو اِن علاقوں کے استعمال کا موقع ہاتھ آیا اُور اُنہوں نے پاکستان دشمن قوتوں کی پشت پناہی سے نہ صرف باقی ماندہ پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا میں اپنے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنا شروع کردیں۔ حکومت نے ماضی میں قبائلی علاقوں سمیت پاکستان کی سرزمین کے استعمال اور افغانستان میں دو طاقتوں کے درمیان جنگ میں فریق بن کر جو غلطی کی‘ اُس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں اور یقیناًآئندہ کسی ایسی غلطی سے اجتناب کیا جائے گا‘ جو قبائلی علاقوں کی قسمت کے فیصلے سے متعلق ہو اور بعدازاں مستقل گلے پڑ جائے!
قبائلی عوام کیا چاہتے ہیں؟ اِس سیدھے سوال کو جب قبائلی عمائدین اور عام آدمی کے سامنے رکھا جائے تو ترجیحات کی فہرست میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح انصاف کی فراہمی‘ یکساں قانون کی حکمرانی‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی و فعالیت اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقوں میں سرکاری محکموں کا نظام قائم کرنے پر صرف زور ہی نہیں دیا جاتا بلکہ بات کا اختتام کرتے ہوئے اکثریت اِس ایک جملے کا اضافہ بھی کردیتے ہیں کہ اگر قبائلیوں کی حسب منشاء اصلاحات نہیں کی جاتیں تو یہ عمل تشنہ ہی نہیں بلکہ سعی لاحاصل رہے گی۔ قبائلی وکلأ سے بات کی گئی تو انہوں نے عجیب منطق بیان کی کہ اصلاحاتی کمیٹی کے کسی بھی رکن کو ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر)‘ کے تلخ حقائق کے بارے علم نہیں اُور نہ ہی وہ کبھی اِس قانون کے تحت کبھی گرفتار ہوئے ہیں جو انہیں علم ہو سکے کہ ’ایف سی آر‘ کے سزا یافتہ ہونا کیا الگ و اضافی معنی رکھتا ہے۔ ایبٹ آباد میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک قبائلی نوجوان نے یہاں تک کہا کہ ’’وہ نفوس ہمارے (قبائلیوں کے) دُکھ کو بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں جن کی سکھ بھری‘ مراعات یافتہ اور حاکمانہ زندگی کا ایک دن تو کیا ایک لمحہ بھی محروم و محکوم قبائلیوں جیسا نہ گزرا ہو۔ ہم اپنے ہی ملک میں جلاوطنی و مہاجرت جیسی صعوبتوں بھری زندگی بسر کررہے ہیں۔ آج بھی پاکستان کے لئے اگر کوئی قوم قربانی دے رہی ہے تو وہ قبائلی ہیں۔ کھلے آسمان تلے گرمی کی شدت برداشت کرنے والے‘ بھوک پیاس اور بے سرسامانی پر صبر کرنے والے‘ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر اپنے بچوں کو سینے سے لگانے والوں کا قصور کیا ہے؟ ایک طرف ہم پر اسلحہ تان کر نقاب پوش کھڑے ہیں تو دوسری طرف غلامی جیسی زندگی دینے والوں نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ موسمی شدت‘ بھوک و پیاس لئے بھکاریوں جیسی زندگی اگر قبائلیوں کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘ تو وقت ہے کہ اِسے تبدیل کیا جائے!‘‘
قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کا دکھ خود اُن کے علاؤہ کوئی محسوس نہیں کرسکتا اور نہ ہی اِس دکھ کا مدواہ اُن کی رائے شامل کئے بناء ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے مشاورت سے کئے گئے تو قبائلی نہ صرف اُنہیں اپنائیں گے بلکہ اُن کے تحفظ و کامیابی کے لئے انتھک و پرخلوص کوششیں بھی کریں گے بصورت دیگر وقت اُور مہلت دونوں تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
کیا یہی جمہوریت ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں پر فیصلے مسلط کئے جائیں؟ کیا قبائلی علاقوں کے رہنے والے بھیڑ بکریوں یا جانوروں جیسے ہیں کہ جن میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کرنے کی صلاحیت و ذہانت (شعور) نہیں پایا جاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لئے قائم ’اصلاحاتی کمیٹی‘ میں پارلیمانی نمائندوں کو شامل نہ کرنا ’’ستم بالائے ستم‘‘ کے مترادف ہے‘ جس کا مقصد و حاصل کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اِس سے درکار خیروعافیت یعنی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ہمارے فیصلہ ساز اِس باریک نکتے پر کیوں نہیں سوچتے کہ حال و مستقبل کے قبائلی اُن کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے؟ دہشت گردی کے خلاف اختیار کی جانے والی قومی حکمت عملی بنام ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں اگر قبائلی علاقوں کی اصلاحات کی شق موجود نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ اِن علاقوں پر مسلط و حاوی سوچ کو اب بھی قبائلیوں کا خیال نہ آتا لیکن غیرضروری جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کی گتھی سلجھانے کی بجائے مزید الجھائی جا رہی ہے‘ اُور اَگر ایسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کے بارے میں قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے نکتۂ نظر سے کمی یا خامی یا مزید اصلاح کی گنجائش باقی رہ گئی تو موجودہ کوشش ماضی ہی کی طرح محض وقت و سرمائے کا ضیاع ثابت ہوگی!
یادش بخیر قبائلی علاقوں (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے ’’19 پارلیمانی نمائندے‘‘ پہلے ہی ایک مسودۂ قانون (آئینی ترمیم) پر دستخط کرکے اُسے قومی اسمبلی میں جمع کرا چکے ہیں اور ’’فاٹا اصلاحاتی کمیٹی‘‘ کے بارے میں شدید تحفظات دل میں نہیں بلکہ زبانوں پر سجائے ہوئے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ قبائلی پارلیمانی نمائندے اِس قدر اپنے متعلق ہونے والے فیصلے پر اس قدر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہوں! آئینی ترمیم کا پارلیمانی فریقین کی جانب سے مشترکہ مطالبہ قبائلی وکلأ کے مقدمے کا بنیادی نکتہ ہے اور وہ بھی اِسی بات پر زور دے رہے ہیں کہ قبائلی پارلیمانی نمائندوں کی جانب نے جس اتفاق رائے سے آئینی ترمیم تیار کی گئی پھر وہ قرارداد ایوان بالا (سینیٹ) کی قانون و پارلیمانی کمیٹی نے منظور کی اور بعدازاں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے مذکورہ ’بل‘ کی حمایت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تو پھر کیا امر مانع ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں میں احساس محرومی کو باقی رکھا جارہا ہے اور پارلیمانی نمائندوں کو ایک ایسے سفر میں ہمسفر نہیں کیا جا رہا‘ جس کی منزل اُنہی کی مقصود ہے؟!
قبائلی علاقوں اور وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں ہر نکتۂ اعتراض‘ ہر سوال اُور ہر آئینی ترمیم کا مطالبہ جائز ہے کیونکہ یہ علاقے بنیادی ضروریات ہی نہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور پسماندگی و غربت کی زندہ تصویریں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسندوں اور انتہاء پسندوں کو یہاں کے نوجوانوں کو شکارکرنے کا موقع ملا اُور اُنہوں نے محب وطن قبائلیوں کی سرزمین پر پاؤں جمائے۔ قبائلی علاقوں کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ مالی مفادات جیسی ترجیحات کی بناء پر پولیٹیکل انتظامیہ کی گرفت اِن علاقوں پر کمزور ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کو اِن علاقوں کے استعمال کا موقع ہاتھ آیا اُور اُنہوں نے پاکستان دشمن قوتوں کی پشت پناہی سے نہ صرف باقی ماندہ پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا میں اپنے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنا شروع کردیں۔ حکومت نے ماضی میں قبائلی علاقوں سمیت پاکستان کی سرزمین کے استعمال اور افغانستان میں دو طاقتوں کے درمیان جنگ میں فریق بن کر جو غلطی کی‘ اُس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں اور یقیناًآئندہ کسی ایسی غلطی سے اجتناب کیا جائے گا‘ جو قبائلی علاقوں کی قسمت کے فیصلے سے متعلق ہو اور بعدازاں مستقل گلے پڑ جائے!
قبائلی عوام کیا چاہتے ہیں؟ اِس سیدھے سوال کو جب قبائلی عمائدین اور عام آدمی کے سامنے رکھا جائے تو ترجیحات کی فہرست میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح انصاف کی فراہمی‘ یکساں قانون کی حکمرانی‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی و فعالیت اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقوں میں سرکاری محکموں کا نظام قائم کرنے پر صرف زور ہی نہیں دیا جاتا بلکہ بات کا اختتام کرتے ہوئے اکثریت اِس ایک جملے کا اضافہ بھی کردیتے ہیں کہ اگر قبائلیوں کی حسب منشاء اصلاحات نہیں کی جاتیں تو یہ عمل تشنہ ہی نہیں بلکہ سعی لاحاصل رہے گی۔ قبائلی وکلأ سے بات کی گئی تو انہوں نے عجیب منطق بیان کی کہ اصلاحاتی کمیٹی کے کسی بھی رکن کو ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر)‘ کے تلخ حقائق کے بارے علم نہیں اُور نہ ہی وہ کبھی اِس قانون کے تحت کبھی گرفتار ہوئے ہیں جو انہیں علم ہو سکے کہ ’ایف سی آر‘ کے سزا یافتہ ہونا کیا الگ و اضافی معنی رکھتا ہے۔ ایبٹ آباد میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک قبائلی نوجوان نے یہاں تک کہا کہ ’’وہ نفوس ہمارے (قبائلیوں کے) دُکھ کو بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں جن کی سکھ بھری‘ مراعات یافتہ اور حاکمانہ زندگی کا ایک دن تو کیا ایک لمحہ بھی محروم و محکوم قبائلیوں جیسا نہ گزرا ہو۔ ہم اپنے ہی ملک میں جلاوطنی و مہاجرت جیسی صعوبتوں بھری زندگی بسر کررہے ہیں۔ آج بھی پاکستان کے لئے اگر کوئی قوم قربانی دے رہی ہے تو وہ قبائلی ہیں۔ کھلے آسمان تلے گرمی کی شدت برداشت کرنے والے‘ بھوک پیاس اور بے سرسامانی پر صبر کرنے والے‘ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر اپنے بچوں کو سینے سے لگانے والوں کا قصور کیا ہے؟ ایک طرف ہم پر اسلحہ تان کر نقاب پوش کھڑے ہیں تو دوسری طرف غلامی جیسی زندگی دینے والوں نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ موسمی شدت‘ بھوک و پیاس لئے بھکاریوں جیسی زندگی اگر قبائلیوں کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘ تو وقت ہے کہ اِسے تبدیل کیا جائے!‘‘
قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کا دکھ خود اُن کے علاؤہ کوئی محسوس نہیں کرسکتا اور نہ ہی اِس دکھ کا مدواہ اُن کی رائے شامل کئے بناء ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے مشاورت سے کئے گئے تو قبائلی نہ صرف اُنہیں اپنائیں گے بلکہ اُن کے تحفظ و کامیابی کے لئے انتھک و پرخلوص کوششیں بھی کریں گے بصورت دیگر وقت اُور مہلت دونوں تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment