Saturday, January 2, 2016

Jan2016: Politics of cleverness!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دیر اَندھیر: شاطرانہ و ماہرانہ سیاست!
وزیراعظم نواز شریف کی قسمت پر جس قدر رشک کیا جائے کم ہوگا کیونکہ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے علاؤہ سیاسی محاذ پر پیش آنے والی مشکلات کے مقابلے میں اُن کی حکمت عملیاں بڑی حد تک کامیاب رہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت ہی کم جمہوری حکومتوں کو 2015ء جیسا سال نصیب ہوا ہوگا۔ یہ سال نواز شریف کی حکومت کے لئے مقبولیت کے مواقع پلیٹ میں رکھ کر لایا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اِن 146نادر مواقعوں145 سے خاطرخواہ فائدہ اٹھا پائی؟

سال کا آغاز ہوا تو دھرنے ختم ہو رہے تھے اور ملک عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم لئے ایک پرچم تلے جمع ہو رہا تھا۔ سال کے آغاز پر کئی اعلانات کیے گئے145 کچھ نے سرخیوں میں جگہ پائی تو کچھ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ سرخیوں میں جگہ پانے والے اعلانات میں نیشنل ایکشن پلان اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ تھے۔ دو مسائل جو زیادہ عرصہ سرخیوں میں نہیں رہے145 وہ 146نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجرأ145 اُور 146مارچ 2016ء تک مردم شماری145کروانا تھا۔ سال ختم ہو گیا لیکن 146این ایف سی ایوارڈ145 پر صوبوں کے تحفظات دور نہ ہو سکے اور نہ ہی ملک میں مردم شماری ہو سکی۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک کی اصل آبادی کتنی ہے تو اس آبادی کے لئے ضروریات کا تعین کس بنیاد پر ممکن ہوگا؟ منصوبہ بندی کرنے والے نجانے کس خواب و خیال اور تصورات کی بنیاد پر آبادی کا اندازہ لگاتے ہیں جو ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تعمیروترقی اور توسیع کا ہر منصوبہ ناکافی ثابت ہوتا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ سال 2016ء میں اِس کمی (خامی) کو دور کیا جائے گا۔

گذشتہ برس سے اختیار کئے جانے والے 146نیشنل ایکشن پلان145 نامی حکمت عملی کے ملے جلے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ دسمبر کا آخری مہینہ تو خوب گرم رہا جب سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی تحلیل ہو گئی اور تعلقات شدید دباؤ کا شکار رہے۔ سندھ کی حکمراں پیپلزپارٹی علی الاعلان 146نیشنل ایکشن پلان145 کو صرف اور صرف نواز لیگ کا 146146ایکشن پلان145145 قرار دے رہی ہے اور الزام عائد کرتی ہے کہ ایکشن پلان کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دہشت گردوں کی مالی امداد و اسباب کا راستہ نہ روکا جائے اور سچ تو یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اِس شعبے میں بمشکل کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کچھ گرفتاریوں اور ہلاکتوں کے علاؤہ دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امداد کی نگرانی اور اِسے روکنے کے لئے کوئی باقاعدہ نظام وضع نہیں کیا جاسکا۔ دوہزار پندرہ کے وسط میں قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) زیرعتاب آیا جب اُس کی جانب سے وزیرِ اعظم کو دہشت گردوں کی مالی امداد کے الزام میں منجمد کئے گئے اثاثوں کے بارے میں غلط اعداد و شمار فراہم کئے گئے۔

سال دوہزار پندرہ کی سب سے اہم بات 146146چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ145145 رہا جس کے حوالے سے سال کے اختتام تک غلط فہمیاں دور نہ ہو سکیں! خیبرپختونخوا کو اِس منصوبے کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں اور وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ 146146خیبرپختونخوا کو محض سڑک نہیں بلکہ راہداری منصوبے سے فوائد و ثمرات میں حصہ چاہئیں۔145145 راہداری کے علاؤہ تین دیگر بڑے منصوبوں کے حوالے سے بھی پیشرفت قابل ذکر ہے جن میں تھر کول145 اورنج لائن اور پورٹ قاسم پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پاور پلانٹ شامل ہیں145 جن کے لئے وفاقی حکومت نے مالی وسائل جاری کئے۔ تینوں منصوبے خوش آئند ہیں لیکن 146146اورنج لائن منصوبے145145 سے ماحول کو لاحق خطرات اور مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ گذشتہ برس قائدِ اعظم سولر پارک کو کامیابی سے لانچ کیا گیا اور اس نے پیداوار بھی شروع کی مگر بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے اگلے راؤنڈ کے لئے اعلان کردہ 146146سولر ٹیرف (فی یونٹ نرخ)145145 کم کر دیا گیا ہے145 جس کی وجہ سے سرمایہ کار منصوبے جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر غور کر سکتے ہیں۔

دوہزار پندرہ کے دوران 146این ایف سی ایوارڈ145 پر خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس حوالے سے صرف ایک اہم میٹنگ ماہ اپریل میں ہوئی۔ شروع میں سب نے ممبر نامزد کرنے کے لئے سندھ کا انتظار کیا اور اب پنجاب پر آنکھیں لگی ہوئی ہیں کیونکہ پنجاب کا نامزد کردہ ممبر صوبائی وزیرِ خزانہ بن چکا ہے۔ گذشتہ مالی سال بغیر کسی نئے اتفاق کے ختم ہوا اور اب ملک ایک عارضی بندوبست کے تحت گذشتہ ایوارڈ پر چل رہا ہے۔ صدر پاکستان نے گذشتہ 146این ایف سی ایوارڈ145 کی مدت میں ایک سال کا مزید اضافہ کیا تاکہ اتفاقِ رائے قائم ہو سکے جو اب تک نہیں ہوسکا کیونکہ یکم جولائی کو مدت میں اضافے کے بعد سے چھ ماہ گزر چکے ہیں مگر صوبوں اور وفاق کے درمیان کوئی نشست نہیں ہوئی۔ یہ ممکن ہے کہ اگلے چھ ماہ میں اتفاقِ رائے ہو جائے مگر وفاق کے سندھ اور خیبر پختونخوا کے ساتھ تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ ایسے کسی بھی اتفاقِ رائے کے لئے 146146شاطرانہ سے زیادہ ماہرانہ سیاست145145 کی ضرورت ہوگی۔ وفاقی حکومت دو ہزار سولہ کو مردم شماری کا سال قرار دے چکی ہے۔ یہ اعلان مارچ دوہزار پندرہ میں کرتے ہوئے مارچ دوہزار سولہ تک مردم شماری کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مردم شماری کے منصوبے میں ستمبر تک تمام مردم شماری بلاکس کو اپ ڈیٹ کرنا اور تمام بڑے موضع جات کا گلوبل پوزیشنگ سیٹلائٹ (جی پی ایس) کے ذریعے 146جی آئی ایس145 سروے کرنا شامل تھا۔ اب تک شہری علاقوں کے ڈیجیٹل نقشے بن جانے چاہئے تھے145 ڈیٹابیس میں بلاکس اپ ڈیٹ ہوجانے چاہئے تھے145 موضع جات کا پچاس سے زیادہ ٹیموں کی مدد سے سروے مکمل ہوجانا چاہئے تھا اور اس پوری مشق کے لئے ایک اعشاریہ دو ارب روپے جاری اور خرچ بھی ہوجانے چاہئے تھے لیکن یہاں دیر اور اندھیر میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دے رہا!

وفاقی ادارۂ شماریات کے بقول 146مردم شماری145 کے لئے اب تک صرف ساٹھ کروڑ روپے جاری کئے گئے اور اگر دوہزار سولہ میں باقی ماندہ رقم اور حسب ضرورت فوج کی جانب سے سیکورٹی بھی فراہم کر دی جاتی ہے تو مردم شماری کا عمل چند ماہ کی تاخیر کے ساتھ دوہزار سولہ ہی میں مکمل ہو سکتا ہے۔ اگر مردم شماری ہو جائے تو بلاشک و شبہ یہ وفاقی حکومت کے لئے بڑی کامیابی ہوگی۔ سال دوہزار پندرہ کا حاصل بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے145 سست شرحِ نمو145 بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی جیسے عوامل رہے لیکن سب سے اہم ملک میں امن و امان145 سیاسی استحکام145 صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کی بہتری145 مستحکم حکومتی خزانہ145 مردم شماری اور غیرترقیاتی اخراجات میں کمی لاتے ہوئے بجٹ کا خسارہ اپنے وسائل سے پورا کرنا ہے۔ بس اُمید اور دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ 146دوہزار سولہ145 کسی حکمراں جماعت یا وزیراعظم کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے اچھا سال ثابت ہو گا۔

No comments:

Post a Comment