Friday, January 1, 2016

Jan2016: Pledges for New Year!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نیا سال: عہد نامہ!
منزل و سمت کا تعین کئے بغیر سفر اُور بناء کسی مقصد و عزم زندہ رہنے سے تو بہتر ہے کہ زندگی کے شعوری معنی تلاش کئے جائیں۔ اپنے وجود اور گردوپیش پر غور کیا جائے۔ اُن محرکات پر نظر رکھی جائے جو صرف بنی نوع انسان ہی نہیں بلکہ کرۂ ارض کے وجود کو اس حد تک متاثر کر رہے ہیں کہ یہ ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں یقیناًعیسوی سال 2016ء کے آغاز پر امن وامان کے قیام اور سلامتی جیسی درکار نیک خواہشات کے ساتھ ہمیں اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنی ذات یعنی اپنے آپ سے ایک عہد کرنے کا یہی نادر موقع ہے کہ نئے سال میں قول و فعل سے ’’ماحول دوست‘‘ بن کر عملاً اُس حدیث مبارکہ کی تفسیر بنا جائے کہ ’’تم میں بہترین انسان (خیرالناس) وہ ہیں جن کا وجود (دم کرم) دوسروں کے حق میں (ینفع الناس) بہتر ہے!‘‘

صنعتی و مادی ترقی اور بیجا نمودونمائش پر مبنی ہمارا طرزعمل ’ماحول دوست‘ نہیں۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے اگلتا ہوا دھواں‘ کیمیائی مادے نہروں و دریاؤں میں بہانے کی عادت‘ سست لیکن ماحول کے لئے غیرموافق ایندھن کا بڑھتا ہوا استعمال جیسا کہ اینٹوں کے بھٹوں میں پلاسٹک اور گاڑیوں کے ٹائر جلانے کا رجحان وغیرہ۔ کسی صنعتی علاقے یا اینٹوں کے بھٹے کے قریب سے گزرتے ہوئے عموماً گاڑی کے شیشے اُوپر چڑھا لئے جاتے ہیں کیونکہ ناگوار بو چند لمحوں میں اعصاب پر بوجھ ڈالتی ہے تو تصور کیجئے کہ آس پاس کی آبادیوں میں رہنے والے بالخصوص بچوں کی صحت پر ایسے آلودہ ماحول کا کتنا منفی اثر مرتب ہوتا ہوگا؟

ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی درجۂ حرارت میں ہر لمحے اضافہ اور ہر گھڑی ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ ایک ایسی تلخ سچائی ہے جس سے کسی کو انکار بھی نہیں لیکن اِس بارے میں فکرمند ہونے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا! ماحول کو مسلسل و مستقل نظرانداز کرنے والوں کو عہد کرنا چاہئے کہ وہ نئے سال میں اپنا طرزفکر و عمل ہی نہیں بلکہ طرز معاشرت بھی تبدیل کریں گے اور کم سے کم اُن کی صف میں شمار ہونا پسند نہیں کریں گے جو ماحول دوست نہیں۔ اس سلسلے میں مذہبی رہنماؤں‘ واعظین اور خطبات جمعۃ المبارک کی سعادت حاصل کرنے والوں کی خصوصی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی جیسی اہم ذمہ داری بھی اَدا کریں۔

سال 2015ء کرۂ ارض کی تاریخ کا گرم ترین سال ریکارڈ کیا گیا۔ دھند اور دھوئیں کا امتزاج (اسموگ)‘ آلودہ پانی اور کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) وہ چیزیں ہیں جن سے شہروں میں رہنے والوں کاہرروز بلکہ ہرگھڑی واسطہ رہنے لگا ہے اور اب تو بات اِس حد تک بگڑ گئی ہے کہ صاف آسمان دکھائی دینے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں! جو باشعور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر ذرا بھر بھی تشویش رکھتے ہیں اور حالات کی بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اُنہیں نئے سال میں درپیش ماحولیاتی چیلنجز سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ یقیناًسب مل کر بہت کچھ تبدیل کر سکتے ہیں اور ایسی کئی ماحول دشمن عادات باآسانی ترک بھی کی جا سکتی ہیں‘ جن کے منفی اَثرات ہمارے آج ہی نہیں بلکہ مستقبل (آنے والی نسلوں) کے لئے بھی خطرہ ہیں۔

نئے سال کے عہد نامے میں پہلی بات شامل کر لیجئے کہ ۔۔۔ جو برقی آلات آپ کے زیراستعمال نہیں اُن کے سوئچ بند یا تار کو پلگ سے الگ کریں گے۔ ٹیلی ویژن‘ کمپیوٹر‘ استری‘ حتیٰ کہ موبائل فون کا چارجر بھی اگر استعمال نہیں ہو رہا تو اُسے ساکٹ میں لگا رہنے نہ دیں کیونکہ اِس سے بجلی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ نئے سال میں کم سے کم بجلی خرچ کرنے کاعہد کریں۔

عہدنامے کا دوسرا نکتہ ’پانی کی بچت‘ ہے۔ ٹوتھ برش یا نہاتے ہوئے پانی کا استعمال کم سے کم کریں۔ زیادہ دیر تک خود پر پانی بہا کر تسکین تو ملتی ہے لیکن یہ غیرضروری اسراف ہے۔ اگر آپ کے آس پاس کسی نل سے پانی ٹپک رہا ہے تو اس کی مرمت کروانے کا بھی عہد کریں کیونکہ اس قطرہ قطرہ بہنے سے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔ جو لوگ پینے کے لئے بوتلوں میں بند پانی استعمال بطور فیشن کرتے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ ایک بوتل پانی کی تیاری پر اوسطاً تین بوتل پانی ضائع ہوتا ہے علاؤہ ازیں پلاسٹک کی بوتل کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادے ماحول دوست نہیں ہوتے! بوتل والے پانی کی جگہ اُبلا ہوا پانی استعمال کرنے کی عادت اپنائیں جو صحت کے موزون و یکساں محفوظ ہے۔

نئے سال کا تیسرا عہد ’پلاسٹک‘ سے بنی ہوئی اشیاء کے کم سے کم استعمال سے متعلق ہے۔ شاپنگ بیگز‘ چھوٹے بڑے تھیلے یا تھیلیاں‘ بوتلیں‘ ڈبے‘ ریپرز وغیرہ نے آسانیاں تو پیدا کی ہیں لیکن یہ ماحول کے لئے مضر ہے۔ ہر روز ہزار ہا کلوگرام کے حساب سے پلاسٹک کی چیزیں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں مناسب طور پر تلف نہیں کیا جاسکتا اور یوں کچرے کے ڈھیر پہاڑوں کی صورت بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ دریا‘ سمندر‘ جنگل اور شہر کوڑا دانوں جیسا منظر پیش کر رہے ہیں لہٰذا نئے سال میں پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیاء کے کم سے کم استعمال اور اس بارے دوسروں کو ترغیب دینے کی کوشش کی جائے۔

نئے سال کا چوتھا عہد ’غیرضروری اشیاء کی خریداری سے اجتناب‘ سے متعلق ہے۔ صرف وہی چیز خریدیں جس کی آپ کی ضرورت ہے اور حسب ضرورت مقدار سے زیادہ خریدنے سے گریز کریں۔ ڈبوں میں بند کھانے یا مشروبات کی بجائے تازہ کھانے جن میں سبزی یا دال شامل ہو کا زیادہ سے زیادہ استعمال صحت و ماحول دونوں کے لئے مفید ہے۔

نئے سال کا پانچواں عہد ’دن کی روشنی کا استعمال‘ ہے جس کے لئے ’آؤٹ ڈور سرگرمیوں (چہل قدمی وغیرہ)‘ کو اپنے معمولات میں شامل کرنے سے جسمانی بیماریوں کے علاؤہ ایندھن کی بچت بھی ہوگی۔ مثال کے طورپر سردی کے بچنے کے لئے کمرے میں ہیٹر ہر وقت لگائے رکھنے کی بجائے گرم کپڑے استعمال کریں۔ سر کو ڈھانپ کر رکھیں تو گیس کے استعمال پر انحصار کم ہوگا۔

ماحول دوستی کے لئے خود سے عہد کرتے ہوئے نئے سال میں کم از کم ایک درخت لگانے کا ارادہ رکھنے والے یہ پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں کہ ماحول دوستی کے بناء چارہ نہیں اور اگر ہم قدرت کے بنائے ہوئے ماحولیاتی تنوع (توازن) سے بے نیاز رہنے کی عادت ترک نہیں کریں گے تو اس میں سراسر نقصان و خسارہ ’اہل زمین‘ کا ہے لہٰذا کرۂ ارض پر رہنے والے ایک ذمہ دار و باشعور انسان کا کردار اَدا کرنے کے لئے خود بھی عملی کوشش کریں اور اپنی اپنی سماجی حیثیت (بطور معلم و مبلغ‘ بطور عالم دین‘ بطور سیاسی کارکن اور سب سے بڑھ کر بحیثیت اشرف المخلوقات) دوسروں کو بھی ماحول دوستی کی طرف راغب کریں۔ ’’شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔۔۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے! (اَحمد فراز)‘‘

No comments:

Post a Comment