Sunday, March 27, 2016

Mar2016: Pak Iran Relations: New Era

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاک اِیران تعلقات: توقعات کا نیا دور!
جب کسی ملک کی قیادت داخلی و خارجی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے خلوص نیت و عمل سے اقدامات کرتی ہے تو لامحالہ ’وقوع پذیر‘ ہونے والی بہتری کے بارے میں صرف اپنے ہی نہیں بلکہ غیروں کے منہ سے بھی تعریفی کلمات کی بارش ہونے لگتی ہے یقین نہ آئے تو مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے تبصروں اور جائزوں کو ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح پاکستان کے اُس کردار کو سراہا جا رہا ہے جو سعودی عرب کے قریب رہتے ہوئے اپنے ہمسایہ ’جمہوری اسلامی ایران‘ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے اُمت مسلمہ کے دو اہم ممالک میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کرنے کے لئے مثبت‘ کثیرالجہت مثبت کردار سے متعلق ہے‘ اور جس کا اعتراف خود ایران بھی بارہا کرچکا ہے۔ اگرچہ ایک ہمسایہ ملک کے صدر کو اسلام آباد کا دورہ کرنے میں چار سال کا وقفہ ہے لیکن اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کی قیادت ایک دوسرے کے قریب آئے گی۔ اراکین اسمبلی کے وفود کا زیادہ بڑے پیمانے پر تبادلہ ہوگا اور پاکستان و ایران باہم تجارت کے امکانات کے علاؤہ خطے میں امن و سلامتی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کو ایران سے کیا چاہئے؟ پیٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اُور گیس کا پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات کے ساتھ تبادلہ۔ سوال یہ ہے کہ ایران کی پاکستان سے توقعات کیا ہیں؟ ایک ایسی تجارت جس میں اجناس کے بدلے اجناس سے زیادہ نقد قیمت وصول کی جائے جو ایران کی فی الوقت ضرورت ہے۔ پاکستان دوطرفہ تجارت میں درآمدات و برآمدات کے توازن کو اپنے حق میں رکھنا چاہتا ہے اور ایران کو ایک ایسی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے جہاں خوردنی اجناس اُور ملبوسات کی مانگ ہے۔ دوسری طرف ایران مسلم امہ اور عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جبکہ پاکستان داخلی محاذ پر ایران کے اثرورسوخ سے فرقہ واریت پر قابو پانے کا متمنی ہے۔ دونوں ممالک کی ایک دوسرے سے ’’توقعات اُور اُمیدوں کی پیاس‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کامیابی کے امکانات واضح دکھائی دے رہے ہیں۔

ایران کے صدر حسن روحانی اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ایک ہی وقت یعنی سال 2013ء سے برسراقتدار ہیں اور دونوں رہنماؤں کو کم و بیش ایک جیسے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے‘ جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حسن روحانی نے ’مشروط حالات اور وابستگی‘ کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’پاکستان کی سلامتی و خوشحالی ایران کی سلامتی و خوشحالی کا ذریعہ ہے۔‘‘ ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس تو دونوں ممالک کی قیادت کو پہلے ہی سے تھا لیکن جس انداز میں ایران کے صدر نے تعلقات و تجارت بڑھانے کی بات کی ہے‘ اُس سے دلی کیفیت پوشیدہ نہیں رہی۔ تصور کیجئے کہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد روس کے صدر ولادمیر پوٹن وہ پہلے غیرملکی رہنما تھے جنہوں نے نومبر دوہزار پندرہ میں ایران کا دورہ کیا۔ جس کے بعد جنوری دوہزار سولہ میں چین کے صدر زی جن پنگ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے دوسرے ایسے مستقل رکن تھے جو تہران جا پہنچے۔ قابل ذکر ہے کہ عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی روس اور چین کا ایران سے تجارت کا حجم بالترتیب چار اور پانچ سو ارب ڈالر رہا۔ ایران نے حال ہی میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ چین سے تجارت کو چھ سو ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے اور اسی طرح کی کوشش میں روس بھی لگا ہوا ہے جس نے جوہری و دفاعی شعبوں کے علاؤہ ایران سے پیٹرولیم مصنوعات و گیس کی ترقی کے لئے حال ہی میں معاہدے کئے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمسایہ ملک پاکستان اور ایران کے درمیان فاصلے نہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہونے والی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی‘ جسے بہرحال کم کرنے کے لئے دونوں ممالک کی قیادت پراُمید دکھائی دے رہی ہے۔

اگر اندیشہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے کے قریب آنے کو کس نظر سے دیکھتا ہے تو اس بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مسلم ممالک کے عسکری اتحاد میں شمولیت کے باوجود پاکستان نے جس غیرجانبداری کا ثبوت دیا ہے‘ اُس سے دنیا پر پاکستان کی غیرجانبدار و آزاد خارجہ پالیسی واضح ہوگئی ہے۔ یہی وہ امر بھی ہے جس نے ایران کی قیادت و عوام کے دل جیت لئے ہیں اور دراصل اِسی کا اظہار تشکر کرنے کے لئے صدر روحانی پچیس مارچ کو اسلام آباد پہنچے۔ اگر ہم نوروز (نئے سال) کے موقع پر ایرانی صدر کی تقریر دیکھیں تو اُس میں بھی خطے کے ممالک سے تجارتی روابط بہتر بنانے کی ضرورت اور قیام امن کے لئے تعاون کی جو بات کہی گئی ہے تو اشارہ پاکستان ہی کی طرف تھا یقیناًایران پاکستان کی مدد سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے جو درپردہ (بادی النظر میں) سب سے مثبت و اہم پیشرفت ہے۔

پاکستان کے اِس مؤقف کو پوری امہ میں پذیرائی ملی ہے کہ سعودی عرب اُور ایران کے کردار و باہمی تعلقات کو دوست یا دشمن کی اصطلاحوں یا حوالوں سے نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ہی امت کے جز اور انہیں ایک ہی امت کے نظریئے سے دیکھنا چاہئے۔ ایران پاکستان کے لئے یکساں مفید (کارآمد) ہے کیونکہ ہمیں ’انتہاء پسندی‘ کے جس مسئلے کا سامنا ہے اُس میں ایران اپنے اثرورسوخ سے کمی لا سکتا ہے۔ ایران کے صدر کا پاکستان آنا بہت ہی غیرمعمولی بات ہے تاہم برسوں کا تعلق لیکن چار سال بعد ایران کے صدر کا دورہ فاصلوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ایران پر امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے اقتصادی و معاشی تعلقات بحال رکھنا پاکستان کے لئے مشکل تھا لیکن اسے پاکستان کی طرف سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا کیونکہ ثقافتی و دیگر شعبوں میں بھی تعاون اور تعلقات بھی کم ترین سطح پر رہے۔

ایک دہائی سے جو رکاوٹیں (مجبوریاں) تھیں وہ (الحمدللہ) ختم ہو گئیں ہیں۔ ایران دنیا کے تجارتی و اقتصادی ترقی کے نقشے پر اُبھر رہا ہے اور ایسے وقت میں جو کوئی ایران کے قریب ہوا وہی مستقبل میں زیادہ مستفید ہوگا کیونکہ باہم تجارت کے روابط گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔ ایران سے ہمارا کوئی سرحدی تنازعہ نہیں۔ جتنی تجارت ہوگی اُتنے ہی اختلافات کم ہوتے چلے جائیں گے۔ دنیا میں سفارتکاری کے اسلوب بدل رہے ہیں۔ اگر ہمارے سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایران سے دوری (کنارہ کشی) اختیار کر لیں۔ دونوں ممالک نے پانچ ارب تک تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جس میں اِس سے دگنا اضافہ ممکن ہے کیونکہ اگر پاکستان ایران سے صرف گیس ہی خریدتا ہے تو یہ سودا 2ارب ڈالر سے زیادہ ہوگا۔ البتہ دونوں ممالک کو مشترکہ باڈر منیجمنٹ‘ دفاعی شعبوں میں تعاون‘ خفیہ معلومات کے تبادلے اور پاکستان اور ایران کے درمیان بلوچستان میں امن کی بحالی کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ایران اور پاکستان کے درمیان دفاع کے شعبوں میں تعاون اور خفیہ معلومات کا تبادلہ نہ ہونے کے برابر ہے جسے بڑھانے کا کھلے عام تذکرہ (چرچا) تو نہیں ہوا‘ لیکن اِیرانی ذرائع کے مطابق ’’پاکستانی قیادت سے ہوئی ملاقاتوں میں اِس شعبے میں بھی تعاون کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔‘‘
The new era of cooperation with Iran based on lot of expectations, only from the Pakistan side

No comments:

Post a Comment