Wednesday, March 23, 2016

Mar2016: Hopes & Disappointments about Regi!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اُمید و یاس: ریگی ماڈل ٹاؤن
درخت امن‘ خوشحالی اور زندگی کی علامت ہیں‘ جنہیں اُن کے تعمیروترقی کا استعارہ قرار دیتے ہوئے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک نے روایت شکنی اور غیرمعمولی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح جنگلات کے عالمی دن (اکیس مارچ) کے موقع پر وزیراعلیٰ نے نہ صرف خود بلکہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کے ہمراہ ایک ایسا خطرہ مول لیا‘ جس کا ایک عرصے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اور پشاور میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ جیسی اہم شخصیت ایسے علاقے کا دورہ کرنے گئی جو ’نوگو ایریا‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو کسی ’سرکاری عمارت یا اپنی رہائشگاہ‘ کے سبزہ زار میں بھی رسمی طور پر ایک درخت لگا کر اُس شجرکاری مہم کا افتتاح کرسکتے تھے‘ جس میں رواں سال دس لاکھ جبکہ پانچ سالہ حکمت عملی کے تحت ایک کروڑ سے زائد درخت لگائے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ کے ہمراہ دیگر اہم شخصیات اور اِس موقع پر موجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک ایسی اجاڑ زمین میں پودے لگائے جہاں اِس قسم کی سرگرمیوں کے انعقاد کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا اُور اہم شخصیات تو درکنار مسلح پولیس اہلکار بھی دن دیہاڑے جانے سے کتراتے تھے۔ یہ بات وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب میں بھی کہی اُور اِس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ایک دہائی سے قانونی کاروائیوں کے باعث سردخانے کی نذر ’ریگی (للمہ) ماڈل ٹاؤن‘ نامی ایک معیاری و ضروری ’جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی منصوبے‘ کو مکمل کی جائے گا اور اِس اراضی پر ملکیت کا دعویٰ رکھنے والے مقامی افراد کی رضامندی حاصل کی جائے گی۔‘‘

ریگی ماڈل ٹاؤن نہایت ہی خطرناک‘ پیچیدہ اور دیرینہ تنازعہ ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس معاملے کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اتنا ہی الجھتا چلا جا رہا ہے اور یقینی امر ہے کہ اگر صوبائی حکومت اِس منصوبے کی تکمیل میں دلچسپی لے گی تو مخالفت کرنے والے عناصر کی تسلی و تشفی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ 25 برس قبل (سال 1991ء میں) شروع ہونے والا ’ریگی ماڈل ٹاؤن‘ منصوبہ 27 ہزار سے زائد مکانات پر مشتمل ہوگا لیکن چونکہ ’پشاور کے ترقیاتی ادارے (پی ڈی اے)‘ نے منصوبے کے اراضی کی حصول (خریداری) میں خاطرخواہ احتیاط و دردمندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ اِس لئے کئی فریق اِس بنجر زمین کی ملکیت کے اچانک دعویدار بن کر سامنے آگئے اور انہوں نے بھاری رقومات (معاوضے) کامطالبہ شروع کردیا۔ المیہ ہے کہ غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے دو دہائیوں سے زائد التوأ کا شکار رہنے والے اِس منصوبے کی تکمیل پر لاگت کا تخمینہ کئی ہزار گنا بڑھ چکا ہے۔ تصور کیجئے کہ جو منصوبہ صرف 7 ارب روپے سے مکمل ہو سکتا تھا اب اُس کی تکمیل کے لئے 35ارب روپے درکار ہوں گے!
پشاور کی آواز (Peshawar Voice) کے نام سے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’ٹویٹر‘ پر ’ریگی ماڈل ٹاؤن‘ منصوبے کیجانب فیصلہ سازوں کی توجہ مبذول کرانے کی ایک ’خصوصی مہم‘ @Regi_Model_Town کے ہینڈلر سے جاری ہے اور اِس مہم کی حمایت یا اِس میں سرگرمی سے حصہ لینے والے اراکین کی تعداد (بائیس مارچ دوہزار سولہ دوپہر دو بجے تک) 1769 تک پہنچ چکی ہے۔ اِس گروپ کی جانب سے 217 افراد کے دستخطوں سے 2 سال قبل ایک ’کھلا خط‘ بنام عمران خان‘ اسد عمر‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اُور وزیر بلدیات عنایت اللہ کے نام شائع کیا گیا جس کا یک نکاتی مطالبہ یہ تھا کہ ’’گرین اینڈ کلین پشاور‘‘ نامی مہم میں ’ریگی ٹاؤن شپ‘ کو بھی شامل کی جائے۔‘‘ تنظیم کی جانب سے صوبائی حکومت کی توجہ اِس امر کی جانب بھی مبذول کرائی گئی کہ ’ریگی منصوبے‘ پر کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں‘ جن سرکاری ملازمین کو چھت فراہم کرنے اور گنجان آباد پشاور میں رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک معیاری منصوبہ تشکیل دیا گیا‘ اُس کے خالق عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے اور اب تک پانچ حکومتیں اِس منصوبے کی تباہی خاموش تماشائی بن کر دیکھ چکی ہیں لہٰذا موجودہ صوبائی حکومت پشاور کے اِس سب سے بڑے اُور منفرد رہائشی منصوبے کی تکمیل کو عملاً ممکن بنائے۔ یقیناًسماجی رابطہ کاری کے ذریعے اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچانے والوں کی کوششیں رنگ لائی ہیں اور اُنہیں اکیس مارچ کی تقریب و اعلانات سے راحت کا احساس ہو رہا ہوگا لیکن یہ مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہونے والا نہیں کیونکہ جس وقت عمران خان اور پرویز خٹک سمیت اہم شخصیات ریگی کی مٹی میں درخت لگا کر پشاور کی ترقی‘ سرسبزی وشادابی کی دعائیں مانگ رہے تھے عین اُن لمحات میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر خیبرایجنسی کی تحصیل جمرود کے ’’غنڈئ چھوٹا نہار‘‘ نامی مقام پر قبائلی عمائدین بشمول اراکین قومی اسمبلی (الحاج شاہ جی اور باز گل آفریدی) جمع ہوئے اُور کوکی خیل قبیلے کے اِن عمائدین نے ریگی ماڈل ٹاؤن کی تکمیل کے حوالے سے صوبائی حکومت کے بیانات و تقریب کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دی کہ ’’اگر صوبائی حکومت نے ماورائے عدالت (متنازعہ) ’ریگی ماڈل ٹاؤن‘ کو بنانے کی کوشش کی تو نہ صرف تعمیراتی و ترقیاتی کام روکا جائے گا بلکہ پاک افغان (جمرود) شاہراہ بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دی جائے گی!‘‘ ضرورت نپے تلے اقدامات کے ساتھ قبائلی روایات کو سمجھتے ہوئے جرگہ کی صورت متعلقہ قبائلی عمائدین کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی ہے تاہم اِس حکمت عملی کی کامیابی کے صوبائی حکومت کو بطور فریق سامنے آنا ہوگا۔ بہت سا وقت ضائع ہوچکا ہے اور ریگی ماڈل ٹاؤن کو ایک ماڈل بنا کر تحریک انصاف کی قیادت اپنے اُس انتخابی وعدے کی تکمیل میں ایک اہم سنگ میل عبور کر سکتی ہے جو پشاور میں رہائشی وسائل میں اضافے اور متعلقہ مسائل کے حل کے سلسلے میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ ’’اُمیدویاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے۔۔۔مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے!‘‘


The future of Regi Model Town still not clear as CM KP Pervez Khattak promised to resume the development work

No comments:

Post a Comment