Tuesday, March 22, 2016

Mar2016: Corruption & Plantation Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شجر کاری مہم: منفی عوامل!
عمران خان پشاور تشریف لائے لیکن خبر یہ ہے کہ اُنہوں نے اکیس مارچ کے روز دوپہر دو بجکر بیس منٹ پر ’ریگی للمہ ٹاؤن شپ‘ کے مقام پر ’شجرکاری مہم‘ کا افتتاح کیا جس سے قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’رواں موسم بہار میں دس لاکھ پودے لگائے جائیں گے جبکہ مجموعی طور پر درخت لگانے کے ہدف کو ایک ارب سے بڑھا دیا گیا ہے۔‘‘ اس موقع پر گرمجوش انداز میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’’پاکستان کی 70سالہ تاریخ سب سے زیادہ درخت خیبرپختونخوا میں لگائے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے ’سبز ربن مہم (Green Ribbon)‘ بھی متعارف کرائی جس میں ہر طالبعلم پر زور دیا گیا کہ وہ رواں برس کم سے کم ایک پودا ضرور لگائے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی خواہش پر صوبائی حکومت ہر سال پہلے سے زیادہ درخت لگانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ پانچ سال میں ’ایک ارب درخت‘ نامی شجرکاری مہم کو عملی جامہ پہنایا جاسکے جو نہ صرف خیبرپختونخوا کی معیشت و اقتصادیات پر طویل المعیاد مثبت اثرات مرتب کرے گی بلکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے اور بالائی علاقوں میں بارشوں کا اعتدال‘ زمینی کٹاؤ کے کم ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے کا عمل روکنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن شجرکاری مہم کو دیمک کی طرح چاٹنے والے چند ایسے منفی عوامل بھی ہیں جن کی بارہا اِن سطور میں نشاندہی کی جاتی رہی ہے لیکن صوبائی کابینہ کی سطح پر اُن کے امکانی و ظاہری وجود کے بارے سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں شجرکاری کے نام پر پودوں کی خریداری میں گھپلوں کے انکشاف نہ صرف صوبائی حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بن رہا ہے بلکہ شجرکاری مہم جیسی اہم ضرورت کی رفتار بھی سست ہونے کا اندیشہ ہے! علاؤہ ازیں جنگلات میں اضافے کے لئے صوبائی حکومت کے عزم کو لگنے والا دھچکا الگ سے توجہ طلب ہے‘ جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہوگی!

توجہ رہے کہ خیبرپختونخوا میں شجرکاری مہم کے لئے مختلف اضلاع میں پودوں کی مہنگے داموں اُور من مانی قیمتوں پر خریداری کا معاملہ ’درختوں کے عالمی دن (اکیس مارچ)‘ کے روز منظرعام پر آیا ہے جبکہ بدعنوانی سے پاک طرزحکمرانی متعارف کرانے کا دعویٰ کرنے والوں میں پائی جانے والی مایوسی یقیناًاُن تمام سرکاری اہلکاروں کا کڑا احتساب ہونا چاہئے جنہوں نے ’شجرکاری مہم‘ کی آڑ میں بدعنوانی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا! قابل ذکر ہے کہ ہرسال اکیس مارچ کے روز ’تین عالمی دنمنائے جاتے ہیں۔ 1: جنگلات کا عالمی دن۔ 2: شجرکاری کا عالمی دن۔ 3: لکڑی کا عالمی دن اُور تینوں ایام کا تعلق ایک ہی شے یعنی درخت سے ہے‘ جس کی اہمیت و ضرورت کو سمجھ لیا گیا ہے لیکن چند ایسے عناصر بھی ہیں جو ترقی کے عمل اور اِس کے مقاصد کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ’شجرکاری مہم‘ سے ذاتی مفادات وابستہ کررکھے ہیں!

افسوسناک امر ہے کہ خیبرپختونخوا میں شجرکاری کے لئے کی گئی خریداری میں خردبرد سامنے آئی ہے‘ جس کی گہرائی سے جانچ ہونی چاہئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ضلع مردان میں چیر درخت کا ایک پودا چھ روپے جبکہ دیگر اضلاع میں ایک سو روپے سے زائد کے عوض خریدا گیا۔ اسی طرح آم کا پودا جو کہ پشاور کی نرسریوں میں بھی عام طور پر ایک سو روپے قیمت رکھتا ہے لیکن اِس پودے کی سرکاری کاغذوں میں دو سو تیس روپے قیمت ادا کی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شجرکاری مہم کے اخراجات میں سرکاری اہلکاروں نے اپنی صوابدید پر تین ہزار روپے فی پودا خریداری بھی فرمائی ہے جبکہ شجرکاری مہم کی ایک افتتاحی تقریب ایسی بھی ہوئی جس کے لئے 1200 روپے کا پودا خریدا گیا! بے قاعدگیوں کی ایسی درجنوں مثالیں مزید تحقیقات کے لئے خفیہ ادارے کو سونپ دی گئی ہیں۔ اگر ماضی میں اِس طرح کی بے قاعدگیوں کی خاطرخواہ تحقیقات کی جاتیں اور بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے معاف نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اِس قدر بڑے پیمانے پر مالی وسائل خردبرد ہوتے۔ محکمۂ جنگلات و زراعت سمیت جملہ سرکاری محکموں میں ’سزا و جزأ‘ کا تصور اور صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین سالانہ بنیادوں پر اپنے اثاثہ جات سے متعلق کوائف بمعہ بیان حلفی داخل دفتر کریں۔ عجب ہے کہ جملہ سرکاری وسائل بشمول گاڑیوں اور اُن کے ایندھن کی مد میں ہونے والی خردبرد چند ہزار درختوں کی خریداری میں ہوئی لاکھوں ہزار روپے کی خردبرد سے کہیں زیادہ اور مستقل بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک ’شجرکاری مہم‘ کی بدنامی و ناکامی کا سبب بننے والے جملہ محرکات کی اصلاح فرماتے ہوئے سرکاری وسائل کی اندھا دھند لوٹ مار کا بھی نوٹس لیں گے اور فوری طور پر ابتدا اِس بات سے کر سکتے ہیں کہ دفتری اُوقات کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ سخت ترین مالی و انتظامی نظم وضبط لاگو کئے بناء اصلاحاتی کوششیں معنوی و عملی لحاظ سے کافی ثابت نہیں ہوں گی۔
Corruption shadow the plantation drive in KP, Pakistan

No comments:

Post a Comment