ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قیدخانہ: سہولیات کا فقدان!
قیدخانہ: سہولیات کا فقدان!
برطانوی راج کے دوران تعمیر ہونے والا پشاور جیل (سنٹرل پریزن)
خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا قیدخانہ ہے جو 450 قیدیوں کی گنجائش کو مدنظر
رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا تھا تاہم اِس میں قیدیوں کی تعداد سولہ سو سے
زیادہ ہے جن میں ایک ہزار سے زیادہ قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات مختلف
عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اُور باقی ماندہ اپنی سزا کے اذیت بھرے ایام کاٹ
رہے ہیں۔ سنٹرل جیل پشاور میں معمولی جرائم سے لیکر دہشت گردی‘ قتل اُور
منشیات فروشی جیسے جرائم میں ملوث افراد کو رکھا گیا ہے۔ عمارت کی گنجائش
بڑھانے کے لئے ایک ارب چالیس کروڑ آٹھ لاکھ روپے سے زائد کا تخمینہ لگا کر
مرحلہ وار تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا تاہم نئی بیرکوں کے اضافے سے
قیدیوں کی گنجائش میں تو اضافہ ہوگیا ہے لیکن یہاں فراہم کی جانے والی
بنیادی سہولیات کا معیار اور مقدار میں حسب ضرورت اضافہ نہیں ہوسکا۔ جیسا
کہ نئی تعمیر ہونے والی عمارت کا ایک بیرک ایسی بھی ہے جہاں چھت کے پنکھے
نصب نہیں اور گرمی و حبس کی وجہ سے قیدیوں شدید جسمانی و ذہنی اذیت سے گزر
رہے ہیں۔ جیل انتظامیہ کے مطابق ’سنٹرل جیل پشاور‘ کی عمارت کا زیادہ
گنجائش کے لئے مکمل منہدم کرکے ایک ہی وقت میں ازسرنو زیادہ تعمیر کرنا
ممکن نہیں تھا‘ اِس لئے یہ کام مرحلہ وار کیا گیا اور سردست 20 عدد پنکھوں
کی کمی صرف ایک بیرک میں ہے‘ جہاں صوبائی حکومت کی جانب سے مالی وسائل
(فنڈز) ملتے ہی پنکھوں کی تنصیب کر دی جائے گی۔ یاد رہے کہ 14 اپریل 2012ء
کو بنوں جبکہ 29 جولائی 2013ء کے روز ڈیرہ اسماعیل خان توڑنے کے بعد صوبائی
حکومت نے نہ صرف جیلوں کی تعمیرات زیادہ پختہ اور گنجائش بڑھانے کا فیصلہ
کیا تھا بلکہ فوری طورپر جیلوں کی حفاظت کے لئے چاردیواریاں بلند کرنے کا
حکم بھی دیا گیا تھا تاہم صوبے کے چار بڑے (مرکزی) قیدخانوں ہری پور‘
پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور بنوں کے علاؤہ 10 جیل خانے جبکہ چار ذیلی جیل
خانے اور اتنی ہی تعداد میں جوڈیشل لاک اپ اضلاع کی سطح پر قائم ہیں اور
سبھی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اِن میں گنجائش سے زائد اور خطرناک و معمولی
جرائم کرنے والوں کو اکٹھا رکھا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے قیدخانے سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ رواں ہفتے مانسہرہ کی ضلعی جیل میں ایک خاتون نے بچے کو جنم دیا جبکہ جیل میں نہ تو اِس قسم کی صورتحال میں طبی امداد دینے کا بندوبست موجود تھا اور نہ ہی ایمبولینس موجود تھی۔
سہولیات کے فقدان کا اعتراف صوبائی وزیر برائے جیل خانہ جات بھی کرتے ہیں لیکن محض غلطی کا احساس ہی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اِس کی فوری نہ سہی مرحلہ وار انداز ہی میں اصلاح کی جائے۔ قیدی کسی بھی طرح ’فائیوسٹار ہوٹل‘ والی سہولیات کا تقاضا نہیں کر رہے لیکن گرمی کے موسم میں اُن کی کم سے کم پنکھے جیسی ضرورت پوری ہونی چاہئے۔ ٹھنڈے پانی کی آسائش کا مطالبہ اِس مرحلے پر کرنا مناسب نہیں لیکن سابق وزیر جیل خانہ جات و عوامی شکایات سیّد قمر عباس (مرحوم) کی یاد آ رہی ہے جن کی کوششوں میں شریک بیگم نسیم ولی خان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اصلاحات کی گئیں تھیں‘جس میں قیدیوں کو صابن رکھنے کا استحقاق بھی دیا گیا تھا۔ تصور کیجئے کہ قیدخانوں میں کتنا انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور کتنی اصلاحات کی ضرورت ہنوز محسوس کی جا رہی ہے۔تاہم وقتی اقدامات و انتظامات (پنکھے‘ ٹھنڈا پانی‘ صاف کپڑے اور ایک عدد بستر وغیرہ) کے زیادہ ضرورت گیارہ ابواب اور باسٹھ شقوں پر مشتمل اُس قانون کو جدید سانچوں کے مطابق ڈھالنے (ترمیم) کرنے کی ہے جو سال 1894ء سے رائج ہے جبکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں آج کے جرائم اور مجرم زیادہ پیچیدہ و گھمبیر ہیں۔ قوانین کو ’حسب حالات‘ جامع بنانے کے لئے صرف متعلقہ وزیر ہی نہیں بلکہ جملہ اراکین صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے اُن کرداروں کا بھی خیال کریں جو اپنے کردہ ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں اُور ایسا بھی نہیں کہ پورے معاشرے میں صرف وہی ’’قانون شکن‘‘ تھے!
خیبرپختونخوا کے قیدخانے سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ رواں ہفتے مانسہرہ کی ضلعی جیل میں ایک خاتون نے بچے کو جنم دیا جبکہ جیل میں نہ تو اِس قسم کی صورتحال میں طبی امداد دینے کا بندوبست موجود تھا اور نہ ہی ایمبولینس موجود تھی۔
سہولیات کے فقدان کا اعتراف صوبائی وزیر برائے جیل خانہ جات بھی کرتے ہیں لیکن محض غلطی کا احساس ہی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اِس کی فوری نہ سہی مرحلہ وار انداز ہی میں اصلاح کی جائے۔ قیدی کسی بھی طرح ’فائیوسٹار ہوٹل‘ والی سہولیات کا تقاضا نہیں کر رہے لیکن گرمی کے موسم میں اُن کی کم سے کم پنکھے جیسی ضرورت پوری ہونی چاہئے۔ ٹھنڈے پانی کی آسائش کا مطالبہ اِس مرحلے پر کرنا مناسب نہیں لیکن سابق وزیر جیل خانہ جات و عوامی شکایات سیّد قمر عباس (مرحوم) کی یاد آ رہی ہے جن کی کوششوں میں شریک بیگم نسیم ولی خان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اصلاحات کی گئیں تھیں‘جس میں قیدیوں کو صابن رکھنے کا استحقاق بھی دیا گیا تھا۔ تصور کیجئے کہ قیدخانوں میں کتنا انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور کتنی اصلاحات کی ضرورت ہنوز محسوس کی جا رہی ہے۔تاہم وقتی اقدامات و انتظامات (پنکھے‘ ٹھنڈا پانی‘ صاف کپڑے اور ایک عدد بستر وغیرہ) کے زیادہ ضرورت گیارہ ابواب اور باسٹھ شقوں پر مشتمل اُس قانون کو جدید سانچوں کے مطابق ڈھالنے (ترمیم) کرنے کی ہے جو سال 1894ء سے رائج ہے جبکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں آج کے جرائم اور مجرم زیادہ پیچیدہ و گھمبیر ہیں۔ قوانین کو ’حسب حالات‘ جامع بنانے کے لئے صرف متعلقہ وزیر ہی نہیں بلکہ جملہ اراکین صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے اُن کرداروں کا بھی خیال کریں جو اپنے کردہ ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں اُور ایسا بھی نہیں کہ پورے معاشرے میں صرف وہی ’’قانون شکن‘‘ تھے!
![]() |
The prisons need attention too |
No comments:
Post a Comment