Wednesday, April 20, 2016

Apr2016: Kidnappings in Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جرم کہانی: بے نیازی و بے بسی!
چھبیس مارچ سے اٹھارہ اپریل تک پشاور سے لاپتہ ہونے والے ایسے بچوں کی تعداد 8 بیان کی جاتی ہے‘جن کے بارے میں تاحال معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں‘ زندہ یا مردہ! اُور اِس حقیقت کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ کم و بیش ایک برس کے دوران 10بچے چند روز لاپتہ رہنے کے بعد پراسرار طور پر ہلاک پائے گئے جن کے بارے میں لواحقین کا کہنا ہے کہ اُنہیں قتل کیا گیا ہے جبکہ پولیس کے تفتیش کار ایسی کئی گتھیاں سلجھانے میں ناکام تو ہیں لیکن ساتھ ہی مؤقف رکھتے ہیں کہ اِن لاپتہ یا مردہ حالت میں یہاں وہاں سے برآمد ہونے والے بچوں کے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پشاور پر کس کی حکمرانی ہے؟ ایک ایسا مرکزی شہر جہاں عوام کی جان و مال کی حفاظت جیسے ’بنیادی فرض‘ کے عوض سینکڑوں کی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار نہ صرف ماہانہ تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں بلکہ اُن کے اہل خانہ اور عزیزواقارب بھی شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے لئے باعث تشویش و پریشانی امور پہلے کیا کم تھے کہ ’پشاور سے بچوں کے پراسرار انداز میں لاپتہ اور مردہ حالت میں پائے جانے کے واقعات ایک تواتر سے رونما ہونے لگے ہیں!‘

بچوں کے لاپتہ ہونے کے پیچھے محرکات کی تلاش اِس لئے بھی ضروری ہے کہ زیرگردش افواہوں کے مطابق انسانی اعضاء کی خریدوفروخت کرنے والے ایسے سرگرم جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں‘ جو گلی کوچوں‘ قدرے سنسان قرب و جوار یا تعلیمی اداروں کی مسافت کرنے والے بچوں کو چن لیتے ہیں۔ اگر سائنسی بنیادوں پر دہشت گردی کا کھوج لگانے کی طرح اِن جرائم کی بھی تفتیش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معصوم بچوں کے قاتلوں تک رسائی نہ ہو لیکن جو دو سطحی مایوس کن صورتحال سے سردست واسطہ ہے اُس کا تعلق نہ صرف ایسے بچوں سے ہے جو آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وہ کم سن کہ جنہیں محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے اُن کی بھی خاطرخواہ حفاظت یا کام کی جگہیں اور محفوظ ماحول کی فراہمی تاحال ممکن نہیں بنائی جاسکی ہے۔ کم و بیش ایک سال میں دس انسانی بچوں کی ہلاکت اور آٹھ بچوں کے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے کے واقعات محض اتفاق نہیں ہوسکتے جس کا تاحال پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سوموٹو (ازخود) نوٹس بھی نہیں لیا گیا! مایوسی کی انتہاء ملاحظہ کیجئے کہ سیاسی حکمراں و سرکاری اہلکاروں کا اپنے بچوں کی طرح دوسروں کا احساس کرنے کی صرف اُمید ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ اگر پولیس حکام سے بات کی جائے تو آجکل ’پولیس ایکٹ 2016ء‘ بارے زیادہ سنجیدگی سے غوروخوض ہو رہا ہے جس کے تحت مراعات و اختیارات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ اور فرائض کی حتی الوسع اِس قدر تقسیم در تقسیم ہو جائے گی کہ جرائم کے رونما ہونے کے لئے کوئی ایک کردار یا پولیس اہلکار ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکے گا! پولیس کے اعلیٰ حکام سے کسی بھی موضوع پر بات کریں گھوم پھر کر ’پولیس ایکٹ‘ کے بارے کچھ نہ کچھ تبادلۂ خیال قلبی و فکری تحاریک کا راز فاش کر دیتے ہیں۔

 یادش بخیر کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ’کابینہ کمیٹی‘ کے سامنے تین اقسام کے ’مجوزہ پولیس ایکٹ‘ رکھے (سجے) ہیں جن پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلا مسودہ وزیر بلدیات و دیہی ترقی عنایت اللہ خان کی ذہانت کا نچوڑ ہے دوسرا سابق صوبائی پولیس سربراہ فیاض طورو کے عملی تجربات کی عکاسی کرتا ہے جبکہ تیسرا خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ نے زمینی حقائق اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا ہے تاہم اِس کی انتہائی ترمیمی شکل ہی اِسے متنازعہ بنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ’مجوزہ پولیس ایکٹ‘ جس پر اتفاق کے لئے حاضر سروس پولیس حکام نے سولہ اپریل تک کی مہلت مانگی تھی لیکن مقررہ مدت کے بعد مسلسل سات گھنٹے تک جاری رہنے والا اجلاس بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا جس سے حالات کی سنگینی و سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے! کاش کہ کابینہ کی کوئی کمیٹی اُور متعلقہ حکام ’بچوں کے لاپتہ اُور قتل‘ ہونے کے واقعات پر بھی (کم سے کم) اتنی ہی (لائق بیان) تشویش کا مظاہرہ کرتے! زیادہ سے زیادہ مراعات و اختیارات اور کم سے کم فرائض و منقسم ذمہ داریوں کا تعین بھی ہو ہی جائے گا لیکن جملہ فیصلہ سازوں کو ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی تشویش بارے بھی سوچنا چاہئے جو اپنے اور ہم عصر بچوں کی حفاظت بارے سوچتے ہوئے انتہاء درجے کی مایوسی‘ بے بسی و غیریقینی کا شکار ہیں اور جو تھر تھرکانپتے ہوئے حکومت اور پولیس حکام کی بے حسی کا تماشا بھی دیکھ رہے ہیں!
Kidnappings in Peshawar touching the alarming rate

No comments:

Post a Comment