Monday, April 18, 2016

APR2016: Anti Encroachments Drive & measures to treat the issue!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاوزات: مرض‘ سبب اُور علاج!
غلطیوں میں اِصلاح کے پہلو تلاش کرنے چاہیءں۔ کسی عمل کی ’مماثلت (نقل بمطابق اَصل)‘ بھی باعث خیروبرکت ہو سکتی ہے‘ اگر شامل کھوٹ (درپردہ مفادات) کی بجائے‘ نیت و عمل جیسے کلیدی اَجزأ میں ’اخلاص‘ کا اضافہ کر لیا جائے۔ یہی ضرورت پشاور میں رواں ماہ کے آغاز (9 اپریل) سے ’تجاوزات کے خلاف جاری مہم کے نئے مرحلے میں غیرمعمولی تیزی کو دیکھتے ہوئے بھی محسوس کی جا رہی ہے جس میں پہلی مرتبہ مساجد‘ اِمام بارگاہوں اور دیگر ایسے حساس مقامات کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے‘ جنہوں نے امن و امان کی خراب صورتحال کا فائدہ یا بلدیہ ملازمین کی مٹھیاں گرم کرکے پشاور کی کشادگی اور وسعت کو ہڑپ کر رکھا تھا۔

ماضی میں پشاور کے ضلعی حکمران ہی ’تجاوزات کے بادشاہ‘ تھے جن کے وزیروں اور مشیروں کے کارنامے انگلیوں پر شمار کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات ’گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں شامل ہونے لائق ہے کہ پشاور میں ایک ’سی این جی (گیس) اسٹیشن‘ ایسا بھی ہے جو سڑک کے کنارے نہیں بلکہ سڑک کے ایک حصے کو شامل کرتے ہوئے بنایا گیا! فصیل شہر کو مسمار کرکے پلازے بنانے والوں کی کرامات سٹی سرکلر روڈ کا طواف کر رہی ہیں اور حال ہی لاہوری گیٹ سے رہائشی کواٹر ختم کرنے کے بعد اُمید تھی کہ سٹی سرکلر روڈ کی نکاسئ آب کا منصوبہ تشکیل دینے میں آسانی ہوگی لیکن راتوں رات لاہوری گیٹ سے نشترآباد کی پٹی پر دکانیں اور کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہوگئیں جن میں سے کئی ایک پر وکلأ کے ناموں کے بورڈز بھی آویزاں دیکھے جا سکتے ہیں یعنی ضلعی حکومت کو متنبہہ کیا گیا ہے کہ اگر اِس عمارت کو ہاتھ لگایا تو سخت قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

 تصور کیجئے کہ جو قانون سرکاری اِداروں کے لئے باعث تقویت ہونا چاہئے تھا اُس کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری اداروں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے! یہی حال اَدویات فروخت کرنے والوں کا بھی ہے‘ جو اَسناد کی آڑ میں ’کاروبار کو شرعی و قانونی طور پر جائز‘ سمجھتے ہیں! ضلعی حکومت کو اپنی توجہ دیگر ایسی بے قاعدگیوں کی جانب بھی مبذول کرنا پڑے گی لیکن تجاوزات کے مرض‘ اِس کی بنیادی وجہ اُور علاج تجویز کرنے والوں کو ’توڑ پھوڑ‘ کے ساتھ ’بلڈنگ کنٹرول‘ کے شعبے کو فعال کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ 1: نئی تعمیرات منظور شدہ نقشے کے مطابق کرنے کی پابندی کا اطلاق ہو سکے۔ مختلف علاقوں کی مٹی کے مطابق بلڈنگ کوڈز مرتب کئے جائیں۔ 2: نئی بستیوں اور بالخصوص اندرون پشاور کے رہائشی و تجارتی علاقوں کے درمیان پائی جانے والی تمیز برقرار رکھی جائے۔ 3: جن علاقوں سے تجاوزات کا خاتمہ کر دیا گیا ہے وہاں اِنہیں پھر سے قائم نہ ہونے دیا جائے۔ 4: جہاں کہیں تاجروں دکانداروں (بازاروں کی سطح پر منتخب نمائندہ) تنظمیں موجود ہیں‘ اُنہیں تجاوزات کی نگرانی سونپی جائے اور کسی بے قاعدگی کی صورت اطلاع پر فوری کاروائی تعطیل کے ایام میں بھی ہونی چاہئے کیونکہ تجاوزات قائم کرنے والوں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ عام تعطیلات کے ایام میں راتوں رات دکانیں تعمیر کر لیتے ہیں۔ 5: گوگل میپ (Google Map) کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ضلع پشاور بلکہ شہری و دیہی علاقوں کے الگ الگ نقشہ جات ترتیب دیئے جائیں جو جدید ’’جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم (GiS)‘‘ کے اصولوں کے مطابق ہونے چاہیءں ایسے ’آن لائن نقشہ جات‘ مرتب کرنے کے بعد نہ صرف گلی کوچوں اور بازاروں کو تجاوزات سے پاک کرنے میں مدد مل سکے گی بلکہ ایک منظم و مربوط طریقے سے پشاور میں ترقی کا عمل بھی زیادہ پائیدار و معیاری بنایا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر اگر ضلعی حکومت پشاور کے ہر رہنے والے کو پینے کا ’صاف پانی‘ فراہم کردے تو یہ ایک ایسا مثالی کام ہو گا جس سے پشاور ملک بھر میں ممتاز ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح پشاور کے قبرستان تجاوزات کی زد میں ہیں‘ جن کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے اور قبرستانوں کی حدود کا خلائی سیارے سے حاصل کردہ تصویر اُور بعدازاں ’جی آئی ایس‘ کی مدد سے تعین کردیا جاتا ہے تو یہ ایک مستقل پریشانی کا مستقل حل ثابت ہوگا۔

پشاور سے تجاوزات کا خاتمہ محض ’ٹیکنالوجی‘ پر انحصار سے ممکن نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں کے ہر ملازم اور بالخصوص عوام کے منتخب ضلعی نمائندوں کو انفرادی و اجتماعی حیثیت میں پشاور کو ’’اپنا شہر‘ اپنا گھر‘‘ جیسا سمجھنا ہوگا۔ تبدیلی لانی ہے تو اُس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا‘ جس میں پشاور کسی دوسرے کا نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک مسئلہ اور ترجیح ہونی چاہئے۔
Anti Encroachment drive in Peshawar need to be organize & extended up-to mapping the city from scratch

No comments:

Post a Comment