ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: اپنا پاؤں‘ ہاتھ اُور کلہاڑی!
پشاور: اپنا پاؤں‘ ہاتھ اُور کلہاڑی!
غیرمتوقع بارشوں کے جاری تسلسل نے شہری سہولیات کی فراہمی کا معیار اُور
متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا بھانڈا تو پھوڑ ہی دیا ہے (جو خبر نہیں رہی)
لیکن خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے لئے نکاسئ آب کا کوئی
ایسا ’وسیع و عریض‘ اُور ’خاطرخواہ کشادہ نظام‘ کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے
لگی ہے جو صرف موجودہ آبادی ہی کے لئے نہیں بلکہ چار اطراف پھیلتے ہوئے
مرکزی شہر (و مضافاتی علاقوں) اُور مستقبل کی ضروریات کے لئے بھی کافی ہونا
چاہئے۔ اِس سلسلے میں عوام کے منتخب ضلعی (بلدیاتی) نمائندوں کی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ ’’اپنی پہلی فرصت‘‘ میں ’شاہی کھٹہ‘ پر توجہ دیں جو سال
1839ء سے 1842ء کے درمیان (سکھ دور میں) ساٹھ ہزار آبادی کی ضروریات کو پیش
نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا لیکن آج اِس شاہی کھٹے پر تیس لاکھ سے زائد
افراد کا انحصار ہے! سکھ دور کی یادگار اُور انجنیئرنگ کے شہکار ’شاہی
کھٹے‘ کی طرز پر اب تک کوئی ایک بھی نظام نہیں دیا جاسکا جو ہمارے سیاسی و
غیرسیاسی حکمرانوں‘ خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ نفاست و ذہانت کا مجموعہ
سمجھنے والے فیصلہ سازوں‘ اربوں روپے کے چھوٹے بڑے ترقیاتی کاموں میں مشغول
اور افرادی قوت و ہرقسم کے وسائل سے مالا مال شہری ترقی کے ایک سے زیادہ
اداروں کی فہم و فراست‘ علم و دانش‘ تجربے اور پشاور شناسی و دوستی کا منہ
بولتا ثبوت ہیں! (اِس سلسلے میں گلبہار کالونی کے نکاسئ آب کے منصوبے کی
سرسری مثال دی جاسکتی ہے‘ جو حال ہی میں تعمیر ہوا لیکن ۔۔۔!!!)
پشاور کی ضلعی حکومت اِس حقیقت سے بخوبی آشنا (آگاہ) ہے کہ شاہی کھٹے کے پچاس فیصد سے زائد حصے پر ’پختہ مستقل‘ تجاوزات قائم ہیں جن کے سبب اِس کی صفائی اُور گہرائی کے ذریعے توسیع جیسی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا لیکن نجانے ایسی کیا ’مجبوری لاحق‘ ہے کہ تجاوزات کے خلاف متحرک اُور عزم و ہمت پر مبنی بیانات دینے والے ضلعی حکمران و بلدیاتی نمائندے ’شاہی کھٹے‘ کا ذکر آتے ہیں بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اُور معلوم تجاوزات ختم کرنے کے لئے ’شاہی کھٹہ کلین اَپ آپریشن‘ شروع نہیں کرتے‘ جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ہر بارش میں پشاور کو ڈوبتے اور اُبھرتے دیکھنے (تماشا کرنے) والوں کے لئے کیا یہ ’نظارہ‘ واقعی اتنا خوش کن ہے کہ وہ اِس منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے؟
پشاور کا کم و بیش 200 سالہ نکاسئ آب کا نظام ’فرسودہ‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اِس کی جملہ خوبیوں میں سطح سمندر سے پشاور کی بلندی اور نکاسئ آب کے نظام کی سطح کو اُس قدرتی ڈھلوان کے متوازی رکھا گیا جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ خودکار اور تیزرفتاری سے ’فلش آؤٹ‘ ہونے لگا لیکن پھر جب پشاور سے یہاں کے باسیوں کا دلی تعلق ٹوٹا‘ رشتے کمزور ہوئے‘ اپنوں کی بجائے غیر فیصلہ سازی پر مسلط ہوئے تو پشاور کا ہر رنگ دھندلا ہونے لگا۔ اِبتدأ شاہی کھٹے میں ٹھوس گندگی (کوڑا کرکٹ) پھینکنے سے ہوئی‘ کسی نے نوٹس نہ لیا تو ایک قوم پرست جماعت نے اپنے ووٹ بینک جیسے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے قبرستانوں پر قبضے کے ذریعے مکانات (رہائش) اور شاہی کھٹے پر چھت ڈال کر دکانیں (کاروبار) ڈالنے کی ’چپ چپیتے (غیرتحریری)‘ اجازت دے دی۔ جب تعمیرات مکمل ہوئیں تو انہیں ’قانونی کور (تحفظ)‘ فراہم کرنے کے لئے واجبی فیس و جرمانے کے عوض اجازت نامے (لائسینس) جاری کردیئے گئے جن کا قطعی کوئی قانونی جواز و ضرورت نہیں تھی۔ موجودہ ضلعی حکومت چاہے تو شاہی کھٹے پر تجاوزات کے مالکان کو نوٹسیز (تنبیہہ) جاری کر سکتی ہے کہ وہ آئندہ چند ہفتوں (برسات سے قبل) شاہی کھٹے کو واگزار کر دیں۔ اِس نالے کے اُن حصوں کو مکمل طور پر کھلا ہونا چاہئے جنہیں تعمیر کرنے والوں نے ایسا رکھا تھا‘ تاکہ روزمرہ بنیادوں پر ساتھ ساتھ صفائی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ شاہی کھٹے کی دو شاخیں ہیں۔کوہاٹی گیٹ‘ قصہ خوانی‘ شعبہ بازار‘ ریتی بازار‘ شبستان (فردوس) سینما (جی ٹی روڈ) اُور فقیر آباد کے راستے بڈھنی تک ایک جبکہ اندرون شہر کے علاقوں سے گزرتے ہوئے رنگ روڈ پر نہر سے ملنے والی دوسری شاخ پر تجاوزات کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں۔ البتہ رنگ روڈ کا مقام موزوں ہے کہ جہاں ضلعی حکومت پشاور شہر کے نکاسئ آب کی تطہیر کرکے اِس پانی کو آبپاشی کے لئے محفوظ قابل استعمال بنا سکتی ہے۔ سابق دور میں پشاور سے جمع ہونے والے یومیہ دس ٹن کچرے سے بجلی و کھاد پیدا کرنے کا ایک منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر مذکورہ منصوبہ سردخانے کی نذر کر دیا گیا‘ اُس منصوبے کی بحالی کے لئے غوروخوض بارے عوام کو آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر ضلعی حکومت ہر چوہے کے سر کی قیمت مقرر کرکے موذی چوپائے ختم کر سکتی ہے تو فی کلوگرام گندگی جمع کرکے اُسے کسی مرکزی مقام تک لانے کی قیمت مقرر کرنے سے کوئی وجہ نہیں کہ گندگی اُور کوڑا کرکٹ کا پشاور سے نام و نشان ہی مٹ جائے! لیکن اَفسوس کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے تھامی ہوئی کلہاڑی اپنے ہی پاؤں پر مار بھی رہے ہیں اور لہولہان ہونے‘ درد‘ تکلیف و پریشانی سہنے کے باوجود بھی نہ تو علاج چاہتے ہیں اور نہ ہی ماضی میں کی گئیں حماقتوں کی اصلاح کے لئے تیار ہیں!
پشاور کی ضلعی حکومت اِس حقیقت سے بخوبی آشنا (آگاہ) ہے کہ شاہی کھٹے کے پچاس فیصد سے زائد حصے پر ’پختہ مستقل‘ تجاوزات قائم ہیں جن کے سبب اِس کی صفائی اُور گہرائی کے ذریعے توسیع جیسی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا لیکن نجانے ایسی کیا ’مجبوری لاحق‘ ہے کہ تجاوزات کے خلاف متحرک اُور عزم و ہمت پر مبنی بیانات دینے والے ضلعی حکمران و بلدیاتی نمائندے ’شاہی کھٹے‘ کا ذکر آتے ہیں بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اُور معلوم تجاوزات ختم کرنے کے لئے ’شاہی کھٹہ کلین اَپ آپریشن‘ شروع نہیں کرتے‘ جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ہر بارش میں پشاور کو ڈوبتے اور اُبھرتے دیکھنے (تماشا کرنے) والوں کے لئے کیا یہ ’نظارہ‘ واقعی اتنا خوش کن ہے کہ وہ اِس منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے؟
پشاور کا کم و بیش 200 سالہ نکاسئ آب کا نظام ’فرسودہ‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اِس کی جملہ خوبیوں میں سطح سمندر سے پشاور کی بلندی اور نکاسئ آب کے نظام کی سطح کو اُس قدرتی ڈھلوان کے متوازی رکھا گیا جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ خودکار اور تیزرفتاری سے ’فلش آؤٹ‘ ہونے لگا لیکن پھر جب پشاور سے یہاں کے باسیوں کا دلی تعلق ٹوٹا‘ رشتے کمزور ہوئے‘ اپنوں کی بجائے غیر فیصلہ سازی پر مسلط ہوئے تو پشاور کا ہر رنگ دھندلا ہونے لگا۔ اِبتدأ شاہی کھٹے میں ٹھوس گندگی (کوڑا کرکٹ) پھینکنے سے ہوئی‘ کسی نے نوٹس نہ لیا تو ایک قوم پرست جماعت نے اپنے ووٹ بینک جیسے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے قبرستانوں پر قبضے کے ذریعے مکانات (رہائش) اور شاہی کھٹے پر چھت ڈال کر دکانیں (کاروبار) ڈالنے کی ’چپ چپیتے (غیرتحریری)‘ اجازت دے دی۔ جب تعمیرات مکمل ہوئیں تو انہیں ’قانونی کور (تحفظ)‘ فراہم کرنے کے لئے واجبی فیس و جرمانے کے عوض اجازت نامے (لائسینس) جاری کردیئے گئے جن کا قطعی کوئی قانونی جواز و ضرورت نہیں تھی۔ موجودہ ضلعی حکومت چاہے تو شاہی کھٹے پر تجاوزات کے مالکان کو نوٹسیز (تنبیہہ) جاری کر سکتی ہے کہ وہ آئندہ چند ہفتوں (برسات سے قبل) شاہی کھٹے کو واگزار کر دیں۔ اِس نالے کے اُن حصوں کو مکمل طور پر کھلا ہونا چاہئے جنہیں تعمیر کرنے والوں نے ایسا رکھا تھا‘ تاکہ روزمرہ بنیادوں پر ساتھ ساتھ صفائی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ شاہی کھٹے کی دو شاخیں ہیں۔کوہاٹی گیٹ‘ قصہ خوانی‘ شعبہ بازار‘ ریتی بازار‘ شبستان (فردوس) سینما (جی ٹی روڈ) اُور فقیر آباد کے راستے بڈھنی تک ایک جبکہ اندرون شہر کے علاقوں سے گزرتے ہوئے رنگ روڈ پر نہر سے ملنے والی دوسری شاخ پر تجاوزات کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں۔ البتہ رنگ روڈ کا مقام موزوں ہے کہ جہاں ضلعی حکومت پشاور شہر کے نکاسئ آب کی تطہیر کرکے اِس پانی کو آبپاشی کے لئے محفوظ قابل استعمال بنا سکتی ہے۔ سابق دور میں پشاور سے جمع ہونے والے یومیہ دس ٹن کچرے سے بجلی و کھاد پیدا کرنے کا ایک منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر مذکورہ منصوبہ سردخانے کی نذر کر دیا گیا‘ اُس منصوبے کی بحالی کے لئے غوروخوض بارے عوام کو آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر ضلعی حکومت ہر چوہے کے سر کی قیمت مقرر کرکے موذی چوپائے ختم کر سکتی ہے تو فی کلوگرام گندگی جمع کرکے اُسے کسی مرکزی مقام تک لانے کی قیمت مقرر کرنے سے کوئی وجہ نہیں کہ گندگی اُور کوڑا کرکٹ کا پشاور سے نام و نشان ہی مٹ جائے! لیکن اَفسوس کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے تھامی ہوئی کلہاڑی اپنے ہی پاؤں پر مار بھی رہے ہیں اور لہولہان ہونے‘ درد‘ تکلیف و پریشانی سہنے کے باوجود بھی نہ تو علاج چاہتے ہیں اور نہ ہی ماضی میں کی گئیں حماقتوں کی اصلاح کے لئے تیار ہیں!
![]() |
The need of expanding the Shahi Khatta of Peshawar should be done urgently |
No comments:
Post a Comment