ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاحت: حائل مستقل مشکلات!
سیاحت: حائل مستقل مشکلات!
خیبرپختونخوا کے سیاحتی صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ سے گلیات کی جنت نظیر وادیوں
کی سیر و تفریح کے لئے آنے والوں کو ’ٹریفک‘ کے جس بے ہنگم نظام سے واسطہ
پڑتا ہے‘ وہ ایک ایسا ’’مستقل مسئلہ‘ ہے جو نہ صرف ملکی و غیرملکی سیاحوں
بلکہ مقامی اَفراد کے لئے بھی درد سر ہے اُور یہ دیرینہ مسئلہ سنجیدہ عملی
حل کا متقاضی ہے۔ بات صرف ہزارہ ڈویژن ہی کی حد تک محدود نہیں کہ جہاں اَن
گنت سیاحتی امکانات کی موجودگی سے انکار نہ کرنے والے متعلقہ حکومتی ادارے
سیاحوں کی رہنمائی کے لئے خاطرخواہ اقدامات و انتظام کرنے میں کیوں سستی کا
مظاہرہ کرتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
عجب ہے کہ کسی بھی جگہ سیاحوں کے قیام و طعام کی سہولیات اُور اُن کا معیار تسلی بخش نہیں۔ سیاحوں کی حفاظت یا کسی خطرے کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کاری کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں اور نہ ہی موسم گرما (سیاحتی سیزن) کے دوران پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ چونکہ خیبرپختونخوا میں تین سطحی بلدیاتی نظام رائج ہے اِس لئے تجویز ہے کہ ہر ضلعی حکومت اپنی اپنی حدود میں تحصیل و یونین کونسل اور دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کی حدود میں سیاحتی مقامات کی ترقی کے لئے خصوصی فنڈز مختص کرے۔ سردست سیاحوں کی آمدورفت سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ نجی اداروں میں تقسیم ہو جاتا ہے جس سے یقیناًطور پر سرکاری عہدوں پر فائز مفاد پرست عناصر فائدہ اُٹھا رہے ہیں لیکن اگر حکومت سیاحتی شعبوں کو منظم و مربوط خطوط پر استوار کرے تو کوئی وجہ نہیں خیبرپختونخوا کو سب سے زیادہ آمدنی اِسی مد سے ہونے لگے۔
ایبٹ آباد کے قریب ترین ’ہرنو‘ کا مقام جسے عرف عام میں ’ہرنوئی‘ بھی کہا جاتا ہے یونین کونسل دھمتوڑ کی اختتامی حد اور یونین کونسل سربنہ و کٹھوال کے ایک حصے پر واقع ہے اور ’نتھیاگلی‘ سمیت گلیات کے عازمین ایبٹ آباد کے راستے اِسی مقام سے گزرتے ہیں جہاں چند گھنٹے قیام کرنے یا نتھیاگلی کی شام سے اُکتاہٹ محسوس کرنے والے بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہرنوئی ضرور آتے ہیں تاکہ ایک معتدل موسم کا مزا لے سکیں۔ ہرنوئی کی مقبولیت اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہاں کے بلند و بالا سرسبز و شاداب اور گھنے جنگلات سے لبالب پہاڑ اُور کے درمیان نہایت خاموشی سے بہنے والے مختلف برساتی نالوں کا ٹھنڈا پانی ہے‘ جس کی سطح چند فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور گرمی کے ستائے یہاں بے فکری سے اپنے بچوں کے ساتھ چند لمحوں کے سکون کی یادیں سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہرنوئی کے مقام پر گاڑیاں دھونے سے پھیلنے والی آلودگی یا سیاحوں کے زیراستعمال رہی پلاسٹک کی خالی بوتلیں‘ خالی پیکٹ اور دیگر کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ گندگی اکٹھا اُور اسے تلف کرنے کے لئے متعلقہ یونین کونسلوں کی ذمہ داری ہے تاہم اگر سیاحوں کو ایبٹ آباد میں داخل ہوتے وقت کسی ٹول پلازہ یا پیٹرول پمپ ایسی ہدایات تھما دی جائیں کہ وہ سیاحتی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں یا اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں یا سیاحتی مقامات کا ایک دوسرے سے فاصلہ اور وہاں سہولیات سے استفادہ کرنے کے لئے کن ٹیلی فون نمبروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ گلیات کی سیر کے لئے آنے والی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو ادویات حاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے اگر ضلعی حکومت ’آن کال فارمیسی‘ کا بندوبست کرے یا سیاحوں کی رجسٹریشن کے مقامات یا آن لائن رجسٹریشن متعارف کرانے سے ایسی خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ چلچلاتی گرمی سے بھاگ کر گلیات کی سیر کے لئے آنے والوں کو قیام و طعام کی مد میں لوٹنے والوں کی بھی کمی نہیں۔سیاح سے ایسی ایسی شکایات سننے کو ملتی ہیں کہ یقین نہیں آتا جیسا کہ ہوٹل والے گاڑی کی پارکنگ کے لئے علیحدہ سے کرایہ وصول کرتے ہیں۔
ضلعی حکومت کی جانب سے ’پارکنگ پلازہ‘ اور رہنمائی کا انتظام کیوں نہیں ہوسکتا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے لئے سیاحت کے ترقیاتی ادارے سے لیکر ضلعی انتظامیہ تک ہر ایک جوابدہ اور ذمہ دار ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے درخواست ہے کہ وہ ماضی میں ’ہرنو‘ کے مقام پر ’’واٹر سپورٹس‘‘ کے تفریحی منصوبے کی فائل سرد خانے سے نکالیں اُور ’ہرنو‘ کی ترقی کے لئے پہلی فرصت میں اِس مقام کا خود دورہ کریں کیونکہ ’’شنیدہ کی بود مانند دیدہ!‘‘
اَلمیہ ہے کہ سیاحوں کی رہنمائی کے لئے سائن بورڈوں پر چسپاں پوسٹرز اور اسٹکرز فی الفور ہٹائے جائیں جو بدصورتی کی بھی علامت ہیں اور آئندہ سائن بورڈز پر یوں انتخابی امیدواروں کی تصاویر چسپاں کرنے والوں پر جرمانے عائد کئے جائیں۔ فاصلوں کی واضح نشاندہی کے ساتھ متعلقہ حکام کے ایسے فون نمبرز بھی مشتہر کئے جائیں جنہیں ڈائل کرنے پر یہ ’دلخراش اناونسمینٹ‘ سنائی نہ دے کہ ’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الوقت رابطہ ممکن نہیں!‘‘ سیاح مہمان ہیں اور مہمان نوازی کے تقاضے اپنی جگہ لیکن جو سرکاری ملازمین حکومت سے سارا سال ’تنخواہ و مراعات‘ ہی مہمان داری کے لئے وصول کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ کم سے کم چند ماہ کے ’سیاحتی سیزن‘ میں اپنی موجودگی عملاً ثابت بھی کیا کریں۔ ایبٹ آباد سے رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے معاون خصوصی ’الحاج عبد الحمید‘ کی جانب سے محدود پیمانے پر ایک کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے چند ایک مقامات پر ایسے اعلانات (بل بورڈز) نصب کئے ہیں جس کی مثال سرکاری اداروں بشمول ضلع ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے دیگر اراکین اسمبلی کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔
پینافلیکس بورڈوں پر جلی حروف (اردو زبان) میں لکھا گیا ہے کہ ’’اگر کسی سیاح کو مشکل ہو تو رکن قومی اسمبلی کے نمائندے سے دیئے گئے نمبروں پر رابطہ کرسکتا ہے۔‘‘ اِس قسم کے اشتہار انگریزی زبان میں بھی ہونے چاہئیں اور زیادہ بڑے پیمانے پر یہاں وہاں آویزاں ہوں تاکہ سیاحوں کو ناجائز منافع خوری اور منافع خوروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ تحریک انصاف کے ایک نمائندے کی جانب سے اصلاح و رہنمائی کی یہ ’’بظاہر معمولی سی کوشش‘‘ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹے چھوٹے کام کرے تو یقیناًایک بہت بڑی تبدیلی عملاً ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
عجب ہے کہ کسی بھی جگہ سیاحوں کے قیام و طعام کی سہولیات اُور اُن کا معیار تسلی بخش نہیں۔ سیاحوں کی حفاظت یا کسی خطرے کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کاری کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں اور نہ ہی موسم گرما (سیاحتی سیزن) کے دوران پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ چونکہ خیبرپختونخوا میں تین سطحی بلدیاتی نظام رائج ہے اِس لئے تجویز ہے کہ ہر ضلعی حکومت اپنی اپنی حدود میں تحصیل و یونین کونسل اور دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کی حدود میں سیاحتی مقامات کی ترقی کے لئے خصوصی فنڈز مختص کرے۔ سردست سیاحوں کی آمدورفت سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ نجی اداروں میں تقسیم ہو جاتا ہے جس سے یقیناًطور پر سرکاری عہدوں پر فائز مفاد پرست عناصر فائدہ اُٹھا رہے ہیں لیکن اگر حکومت سیاحتی شعبوں کو منظم و مربوط خطوط پر استوار کرے تو کوئی وجہ نہیں خیبرپختونخوا کو سب سے زیادہ آمدنی اِسی مد سے ہونے لگے۔
ایبٹ آباد کے قریب ترین ’ہرنو‘ کا مقام جسے عرف عام میں ’ہرنوئی‘ بھی کہا جاتا ہے یونین کونسل دھمتوڑ کی اختتامی حد اور یونین کونسل سربنہ و کٹھوال کے ایک حصے پر واقع ہے اور ’نتھیاگلی‘ سمیت گلیات کے عازمین ایبٹ آباد کے راستے اِسی مقام سے گزرتے ہیں جہاں چند گھنٹے قیام کرنے یا نتھیاگلی کی شام سے اُکتاہٹ محسوس کرنے والے بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہرنوئی ضرور آتے ہیں تاکہ ایک معتدل موسم کا مزا لے سکیں۔ ہرنوئی کی مقبولیت اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہاں کے بلند و بالا سرسبز و شاداب اور گھنے جنگلات سے لبالب پہاڑ اُور کے درمیان نہایت خاموشی سے بہنے والے مختلف برساتی نالوں کا ٹھنڈا پانی ہے‘ جس کی سطح چند فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور گرمی کے ستائے یہاں بے فکری سے اپنے بچوں کے ساتھ چند لمحوں کے سکون کی یادیں سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہرنوئی کے مقام پر گاڑیاں دھونے سے پھیلنے والی آلودگی یا سیاحوں کے زیراستعمال رہی پلاسٹک کی خالی بوتلیں‘ خالی پیکٹ اور دیگر کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ گندگی اکٹھا اُور اسے تلف کرنے کے لئے متعلقہ یونین کونسلوں کی ذمہ داری ہے تاہم اگر سیاحوں کو ایبٹ آباد میں داخل ہوتے وقت کسی ٹول پلازہ یا پیٹرول پمپ ایسی ہدایات تھما دی جائیں کہ وہ سیاحتی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں یا اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں یا سیاحتی مقامات کا ایک دوسرے سے فاصلہ اور وہاں سہولیات سے استفادہ کرنے کے لئے کن ٹیلی فون نمبروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ گلیات کی سیر کے لئے آنے والی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو ادویات حاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے اگر ضلعی حکومت ’آن کال فارمیسی‘ کا بندوبست کرے یا سیاحوں کی رجسٹریشن کے مقامات یا آن لائن رجسٹریشن متعارف کرانے سے ایسی خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ چلچلاتی گرمی سے بھاگ کر گلیات کی سیر کے لئے آنے والوں کو قیام و طعام کی مد میں لوٹنے والوں کی بھی کمی نہیں۔سیاح سے ایسی ایسی شکایات سننے کو ملتی ہیں کہ یقین نہیں آتا جیسا کہ ہوٹل والے گاڑی کی پارکنگ کے لئے علیحدہ سے کرایہ وصول کرتے ہیں۔
ضلعی حکومت کی جانب سے ’پارکنگ پلازہ‘ اور رہنمائی کا انتظام کیوں نہیں ہوسکتا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے لئے سیاحت کے ترقیاتی ادارے سے لیکر ضلعی انتظامیہ تک ہر ایک جوابدہ اور ذمہ دار ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے درخواست ہے کہ وہ ماضی میں ’ہرنو‘ کے مقام پر ’’واٹر سپورٹس‘‘ کے تفریحی منصوبے کی فائل سرد خانے سے نکالیں اُور ’ہرنو‘ کی ترقی کے لئے پہلی فرصت میں اِس مقام کا خود دورہ کریں کیونکہ ’’شنیدہ کی بود مانند دیدہ!‘‘
اَلمیہ ہے کہ سیاحوں کی رہنمائی کے لئے سائن بورڈوں پر چسپاں پوسٹرز اور اسٹکرز فی الفور ہٹائے جائیں جو بدصورتی کی بھی علامت ہیں اور آئندہ سائن بورڈز پر یوں انتخابی امیدواروں کی تصاویر چسپاں کرنے والوں پر جرمانے عائد کئے جائیں۔ فاصلوں کی واضح نشاندہی کے ساتھ متعلقہ حکام کے ایسے فون نمبرز بھی مشتہر کئے جائیں جنہیں ڈائل کرنے پر یہ ’دلخراش اناونسمینٹ‘ سنائی نہ دے کہ ’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الوقت رابطہ ممکن نہیں!‘‘ سیاح مہمان ہیں اور مہمان نوازی کے تقاضے اپنی جگہ لیکن جو سرکاری ملازمین حکومت سے سارا سال ’تنخواہ و مراعات‘ ہی مہمان داری کے لئے وصول کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ کم سے کم چند ماہ کے ’سیاحتی سیزن‘ میں اپنی موجودگی عملاً ثابت بھی کیا کریں۔ ایبٹ آباد سے رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے معاون خصوصی ’الحاج عبد الحمید‘ کی جانب سے محدود پیمانے پر ایک کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے چند ایک مقامات پر ایسے اعلانات (بل بورڈز) نصب کئے ہیں جس کی مثال سرکاری اداروں بشمول ضلع ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے دیگر اراکین اسمبلی کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔
پینافلیکس بورڈوں پر جلی حروف (اردو زبان) میں لکھا گیا ہے کہ ’’اگر کسی سیاح کو مشکل ہو تو رکن قومی اسمبلی کے نمائندے سے دیئے گئے نمبروں پر رابطہ کرسکتا ہے۔‘‘ اِس قسم کے اشتہار انگریزی زبان میں بھی ہونے چاہئیں اور زیادہ بڑے پیمانے پر یہاں وہاں آویزاں ہوں تاکہ سیاحوں کو ناجائز منافع خوری اور منافع خوروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ تحریک انصاف کے ایک نمائندے کی جانب سے اصلاح و رہنمائی کی یہ ’’بظاہر معمولی سی کوشش‘‘ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹے چھوٹے کام کرے تو یقیناًایک بہت بڑی تبدیلی عملاً ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
![]() |
TOURISM need more attractions including a water park in Harnoi, Abbottabad |
No comments:
Post a Comment