ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کنارہ کشی‘ آخر کیوں ؟
کنارہ کشی‘ آخر کیوں ؟
خودکشی ’حرام‘ فعل ہے بالکل اِسی طرح سیاست کے تطہیری عمل سے ایک ایسے
فیصلہ کن موڑ پر اظہار لاتعلقی کرنا بھی ’اجتماعی مفاد‘ کے نکتۂ نظر سے
’حرام‘ ہی تصور ہوگا جبکہ معاشرے کو تعمیری و مثبت سوچ رکھنے والے ’اصلاح
کاروں (سیاست دانوں) کی اَشد ضرورت ہے۔ پشاور کے معروف سادات و سرتاج
’گیلانی‘ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ’سلسلۂ قادریہ حسنیہ‘ کے چشم و چراغ
’سیّد محمد سبطین گیلانی‘ اَلمعروف ’تاج آغا‘ نے سیاست سے ’کنارۂ کشی‘ کا
اعلان کیا ہے۔ آپ کا سیاسی تعلق طویل عرصے تک ’جمعیت علمائے پاکستان‘ کے
اُس دھڑے سے رہا‘ جو اگرچہ پارلیمانی سیاست میں عددی اعتبار سے ’انتخابی
کامیابیاں‘ حاصل نہیں کرتا (کیونکہ وہ انتخابی دھاندلی اور جوڑ توڑ کی
سیاست پر یقین نہ رکھنے والوں میں شامل ہے) لیکن یہ بھی ناقابل تردید حقیقت
ہے کہ اندرون شہر کے اِس گیلانی خاندان کے حمایت یافتہ کسی بھی اُمیدوار
کی بالخصوص پشاور کے سیاسی منظرنامے میں کامیابی لازمی تصور کی جاتی ہے۔
بلاتھکان ہر خاص و عام کو گرجدار آواز میں دعائیں دیتے‘ غمزدہ افراد کو گلے
لگانے اور داد و عنایات بانٹنے والے سخاوت کا حوالہ رکھنے والے دُرویش بہ
لقب ’تاج آغا‘ پشاور کی علمی ادبی‘ سیاسی و ثقافتی اور ہندکو زبان کے
سرپرست گھرانے کے چشم و چراغ ہیں جن کی قیام پاکستان کی جدوجہد میں خدمات
کا مستند حوالہ مملکت خداداد کی تاریخ کا باب ہے اور ایک دنیا اُن کے فیوض و
برکات سے آشنا و بہرہ مند ہے۔
پیر طریقت سیّد محمد امیر شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ المعروف مولوی جی نے ورثے میں جو نیک نامی‘ ساکھ اُور روحانی اُولاد چھوڑی ہے اُس کی سرپرستی و تربیت کا فریضہ آپؒ کے جانشین خنداں پیشاں‘ سیّد محمد نور الحسنین گیلانی المعروف سلطان آغا بخوبی سرانجام دے رہے ہیں جنہوں نے روحانی محاذ پر ڈٹ کر تصوف و روحانیت کے چراغوں کی لو میں اضافہ کیا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس گھرانے کو تاقیامت سلامت وآباد رکھے جو پشاور کا ایک مستند حوالہ اور ایک ایسی عظیم خانقاہ کا تسلسل ہے جس کے دروازے علم و دین اور خیر کے طلبگار کے لئے ہمیشہ اور ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ امن و امان کے بدترین حالات میں بھی اندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر جان میں واقع ’آستانہ عالیہ حسنیہ‘ کے در دولت پر دستک دینے والوں کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں تھا‘ جو جب چاہے حاضر ہو کر اپنا مدعا خانوادۂ اہل بیت کے حضور بیان کرسکتا ہے اور آج بھی ہر ماہ کی گیارہ تاریخ‘ بعد نماز فجر ’ختم غوثیہ‘ کا اہتمام جبکہ ہر شام ہی کسی نہ کسی مناسبت سے نعتیہ اور محافل مقاصدیہ کا انعقاد باقاعدگی سے ہونا ایک معمول ہے جبکہ اس کے علاؤہ پشاور سے کراچی تک محافل غوثیہ کے انعقاد میں بھی اِسی گھرانے کی سرپرستی سے ہوتا ہے‘ جس کی برکات ہیں کہ پاکستان باوجود اپنوں کی لوٹ مار اُور غیروں کی سازشوں کے باوجود قائم ودائم اور مشہور و مشہود ہے۔
گرامی قدر ’تاج آغا‘ کی جانب سے صرف ’جمعیت علمائے پاکستان‘ ہی سے نہیں بلکہ عملی سیاست سے علیحدگی کے ایک اعلان کا سبب یقیناًاُن کے روحانی درجات و کمالات اور مرتبے میں اضافے کی وجہ سے بھی ہے جس نے اُنہیں کم گو اور گوشہ نشین کر دیا ہے اور اب اُن کا زیادہ تر وقت مکۃ المکرمہ و مدینہ منورہ کی پرنور و باشعور فضاؤں میں گزرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کسی کا تعلق متواتر اور مسلسل ’سلسلۂ نور‘ سے ہو جائے اُس کے لئے دیگر دنیاوی چیزیں‘ رتبے مراتب اور اسباب دنیا بے معنی و بے وقعت ہو جاتے ہیں لیکن شاید ’تاج آغا‘ یہ بات بھول گئے ہیں کہ اُن کے کندھوں پر ’اُمت کی اصلاح کی ذمہ داری‘ بھی عائد ہے۔ وہ منبر کے وارث ہیں۔ سیّد گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے ناطے اُنہیں روحانی و علمی اور عملی رہنمائی کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا پڑے گا۔
مکر و فریب‘ جھوٹ‘ ریاکاری اور دغابازی پر مبنی کھیل تماشوں کے شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے سیاست کے میدان کی تمثیل عصر حاضر کے ’کربلا‘ سے دی جاسکتی ہے جس میں حق و صداقت کو ایک مرتبہ پھر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ وقت غاصبوں کی بیعت سے انکار کرنے کا ہے۔ انتخابی دھاندلی‘ مالی و انتظامی بدعنوانی اور تعصب پر مبنی سیاست پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت کا مقابلہ کرتے ہوئے بھوک و پیاس جیسی چند ایک نہیں بلکہ کئی مخالف و شیطانی قوتوں کا ’’مردانہ وار مقابلہ‘‘ کرنے کی اِس ’امتحانی گھڑی‘ اگر کوئی سادات گھرانے کا ’صاحب وقار معالج‘ اپنی ذات اُور اپنے آپ میں ڈوب کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اُور گردوپیش پھیلی غربت و افلاس‘ مسائل و مشکلات اور گمراہی کا علاج کرنے کے لئے خود کو وقف نہیں کرتا‘ اُور اپنے عزیز ترین مقاصد و آسائشوں کی قربانی نہیں دیتا تو یہ ’مجرمانہ غفلت (حرام)‘ اُور سادات کرام کے رتبے و مقام کے شایان شان نہیں‘ جو دنیا میں عدل و احترام اِنسانیت عام کرنے کے لئے نازل ہوا۔
قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ’مسلم لیگ‘ سے وابستہ رہے پشاور کا یہ سرتاج سادات گھرانہ بعدازاں ’جمعیت علمائے پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے ’مجاہد ملت علامہ شاہ اَحمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ‘ کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا‘ جنہوں نے ’ختم نبوت‘ کی تحریک کو کمال شان سے آگے بڑھایا اُور پاکستان کے موجودہ آئین کے تشکیلی مراحل سے لے کر ’توہین رسالت‘ سے متعلق قوانین کے تحفظ‘ رویت ہلال‘ روحانی و تصوف کے موضوعات پر وعظ و تلقین‘ دروس قرآن اور علمی و ادبی محافل کے انعقاد میں بھی یہی گھرانہ پیش پیش رہا تو کیا موجودہ اَبتر سیاسی و غیریقینی و گھٹن کے سیاسی ماحول میں خود کو ’مسجد و منبر تک‘ محدود کرلینا کسی ’صاحب شان‘ کے ’حسب شان‘ ہو سکتا ہے؟ (گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے) موجودہ حالات میں جبکہ ’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیریؓ‘ اَدا کرنے کی ضرورت ہے تو ’تاج آغا‘ سمیت جملہ اہل مراتب و مقام اور نظریاتی سیاست پر یقین و عہد رکھنے والے حب الوطن سیاست (اصلاح کاروں) سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ ’انصاف و عدل‘ کی منزل تک رسائی سے قبل ہی عملی سیاسی جدوجہد سے خود کو الگ نہ کریں بلکہ اگر کسی ایک سیاسی جماعت سے اُنہیں حسب حال تیزرفتار بہتری کی اُمید نہیں رہی تو ایسی تحریک (صورت) موجود ہے جو انقلاب و جنون کے ذریعے تبدیلی اور ایک نئے پاکستان کی تشکیل کا عزم رکھتی ہے۔
موروثی سیاست کی دلدل میں دھنسنے سے اچھا ہے کہ ’تبدیلی کے سرسبز و شاداب‘ چمن زار میں قدم رکھا جائے۔ اُس پرچم (علم) کو تھام لیا جائے‘ جس پر سرخ رنگ ’شہادت و جدوجہد کی دائمی تحریک کے قائد اِمام عالی مقام حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ‘ سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو دوسرے رنگ کو دیکھ کر نواسۂ رسول سبزقبا حضرت اِمام حسن رضی اللہ عنہ کی یاد آتی ہے‘ جن کی سیاست‘ فہم و فراست اُمت مسلمہ کے مفاد کے لئے اپنے مفادات کی قربانی دینے پر مبنی اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔
پیر طریقت سیّد محمد امیر شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ المعروف مولوی جی نے ورثے میں جو نیک نامی‘ ساکھ اُور روحانی اُولاد چھوڑی ہے اُس کی سرپرستی و تربیت کا فریضہ آپؒ کے جانشین خنداں پیشاں‘ سیّد محمد نور الحسنین گیلانی المعروف سلطان آغا بخوبی سرانجام دے رہے ہیں جنہوں نے روحانی محاذ پر ڈٹ کر تصوف و روحانیت کے چراغوں کی لو میں اضافہ کیا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس گھرانے کو تاقیامت سلامت وآباد رکھے جو پشاور کا ایک مستند حوالہ اور ایک ایسی عظیم خانقاہ کا تسلسل ہے جس کے دروازے علم و دین اور خیر کے طلبگار کے لئے ہمیشہ اور ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ امن و امان کے بدترین حالات میں بھی اندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر جان میں واقع ’آستانہ عالیہ حسنیہ‘ کے در دولت پر دستک دینے والوں کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں تھا‘ جو جب چاہے حاضر ہو کر اپنا مدعا خانوادۂ اہل بیت کے حضور بیان کرسکتا ہے اور آج بھی ہر ماہ کی گیارہ تاریخ‘ بعد نماز فجر ’ختم غوثیہ‘ کا اہتمام جبکہ ہر شام ہی کسی نہ کسی مناسبت سے نعتیہ اور محافل مقاصدیہ کا انعقاد باقاعدگی سے ہونا ایک معمول ہے جبکہ اس کے علاؤہ پشاور سے کراچی تک محافل غوثیہ کے انعقاد میں بھی اِسی گھرانے کی سرپرستی سے ہوتا ہے‘ جس کی برکات ہیں کہ پاکستان باوجود اپنوں کی لوٹ مار اُور غیروں کی سازشوں کے باوجود قائم ودائم اور مشہور و مشہود ہے۔
گرامی قدر ’تاج آغا‘ کی جانب سے صرف ’جمعیت علمائے پاکستان‘ ہی سے نہیں بلکہ عملی سیاست سے علیحدگی کے ایک اعلان کا سبب یقیناًاُن کے روحانی درجات و کمالات اور مرتبے میں اضافے کی وجہ سے بھی ہے جس نے اُنہیں کم گو اور گوشہ نشین کر دیا ہے اور اب اُن کا زیادہ تر وقت مکۃ المکرمہ و مدینہ منورہ کی پرنور و باشعور فضاؤں میں گزرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کسی کا تعلق متواتر اور مسلسل ’سلسلۂ نور‘ سے ہو جائے اُس کے لئے دیگر دنیاوی چیزیں‘ رتبے مراتب اور اسباب دنیا بے معنی و بے وقعت ہو جاتے ہیں لیکن شاید ’تاج آغا‘ یہ بات بھول گئے ہیں کہ اُن کے کندھوں پر ’اُمت کی اصلاح کی ذمہ داری‘ بھی عائد ہے۔ وہ منبر کے وارث ہیں۔ سیّد گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے ناطے اُنہیں روحانی و علمی اور عملی رہنمائی کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا پڑے گا۔
مکر و فریب‘ جھوٹ‘ ریاکاری اور دغابازی پر مبنی کھیل تماشوں کے شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے سیاست کے میدان کی تمثیل عصر حاضر کے ’کربلا‘ سے دی جاسکتی ہے جس میں حق و صداقت کو ایک مرتبہ پھر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ وقت غاصبوں کی بیعت سے انکار کرنے کا ہے۔ انتخابی دھاندلی‘ مالی و انتظامی بدعنوانی اور تعصب پر مبنی سیاست پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت کا مقابلہ کرتے ہوئے بھوک و پیاس جیسی چند ایک نہیں بلکہ کئی مخالف و شیطانی قوتوں کا ’’مردانہ وار مقابلہ‘‘ کرنے کی اِس ’امتحانی گھڑی‘ اگر کوئی سادات گھرانے کا ’صاحب وقار معالج‘ اپنی ذات اُور اپنے آپ میں ڈوب کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اُور گردوپیش پھیلی غربت و افلاس‘ مسائل و مشکلات اور گمراہی کا علاج کرنے کے لئے خود کو وقف نہیں کرتا‘ اُور اپنے عزیز ترین مقاصد و آسائشوں کی قربانی نہیں دیتا تو یہ ’مجرمانہ غفلت (حرام)‘ اُور سادات کرام کے رتبے و مقام کے شایان شان نہیں‘ جو دنیا میں عدل و احترام اِنسانیت عام کرنے کے لئے نازل ہوا۔
قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ’مسلم لیگ‘ سے وابستہ رہے پشاور کا یہ سرتاج سادات گھرانہ بعدازاں ’جمعیت علمائے پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے ’مجاہد ملت علامہ شاہ اَحمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ‘ کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا‘ جنہوں نے ’ختم نبوت‘ کی تحریک کو کمال شان سے آگے بڑھایا اُور پاکستان کے موجودہ آئین کے تشکیلی مراحل سے لے کر ’توہین رسالت‘ سے متعلق قوانین کے تحفظ‘ رویت ہلال‘ روحانی و تصوف کے موضوعات پر وعظ و تلقین‘ دروس قرآن اور علمی و ادبی محافل کے انعقاد میں بھی یہی گھرانہ پیش پیش رہا تو کیا موجودہ اَبتر سیاسی و غیریقینی و گھٹن کے سیاسی ماحول میں خود کو ’مسجد و منبر تک‘ محدود کرلینا کسی ’صاحب شان‘ کے ’حسب شان‘ ہو سکتا ہے؟ (گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے) موجودہ حالات میں جبکہ ’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیریؓ‘ اَدا کرنے کی ضرورت ہے تو ’تاج آغا‘ سمیت جملہ اہل مراتب و مقام اور نظریاتی سیاست پر یقین و عہد رکھنے والے حب الوطن سیاست (اصلاح کاروں) سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ ’انصاف و عدل‘ کی منزل تک رسائی سے قبل ہی عملی سیاسی جدوجہد سے خود کو الگ نہ کریں بلکہ اگر کسی ایک سیاسی جماعت سے اُنہیں حسب حال تیزرفتار بہتری کی اُمید نہیں رہی تو ایسی تحریک (صورت) موجود ہے جو انقلاب و جنون کے ذریعے تبدیلی اور ایک نئے پاکستان کی تشکیل کا عزم رکھتی ہے۔
موروثی سیاست کی دلدل میں دھنسنے سے اچھا ہے کہ ’تبدیلی کے سرسبز و شاداب‘ چمن زار میں قدم رکھا جائے۔ اُس پرچم (علم) کو تھام لیا جائے‘ جس پر سرخ رنگ ’شہادت و جدوجہد کی دائمی تحریک کے قائد اِمام عالی مقام حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ‘ سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو دوسرے رنگ کو دیکھ کر نواسۂ رسول سبزقبا حضرت اِمام حسن رضی اللہ عنہ کی یاد آتی ہے‘ جن کی سیاست‘ فہم و فراست اُمت مسلمہ کے مفاد کے لئے اپنے مفادات کی قربانی دینے پر مبنی اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔
No comments:
Post a Comment