ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
’بدعنوانی‘ کی گھٹی!
’بدعنوانی‘ کی گھٹی!
روایت رہی ہے کہ کسی بھی مالی سال کے اختتامی ہفتوں میں سرکاری محکموں میں
کام کاج اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کسی کو سرکھجانے کی فرصت نہیں رہتی۔ وجہ یہ
نہیں ہوتی کہ وہ مفاد عامہ کے کسی منصوبے کے تکمیلی مراحل پر کام کی رفتار
بڑھا رہے ہوتے ہیں بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ حکومت سے ملنے والے سالانہ مالی
وسائل کے باقی ماندہ بیلنس کو کسی غیرترقیاتی مد میں کس طرح اور کس جواز
کے تحت خرچ کیا جائے۔ کہ ایسا کرنے سے نہ صرف خریداری اور ذاتی مفاد جیسے
اہداف بھی حاصل ہو جائیں اور کارکردگی بھی ظاہر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دفاتر و
سرکاری رہائشگاہوں کی تعمیرومرمت‘ تزئین و آرائش اُور دیگر کئی مدوں میں
بھی سانس روکے بغیر اَخراجات ایک معمول ہے جن کے بل بذریعہ ’اکاونٹنٹ جنرل
آفس‘ مالی سال کے اختتام سے قبل ادا ہونا ہوتے ہیں۔ نجی اِداروں کی جانب سے
سرکاری محکموں سے لین دین کے ’مروجہ اَصولوں (ضوابط)‘ کے تحت ’سپلائی اُور
وصولی‘ کے درمیان کل بل (وصولی کی رقم) کا ایک فیصد حصہ (نقد) بینک چیک کی
وصولی کے وقت ادا کرنا پڑتا تھا اور یہ روایت (وائٹ کالر کرائم) ایک دو
برس قدیم نہیں بلکہ مبینہ طور پر گذشتہ تین دہائیوں سے بل کے عوض چیک وصول
کرنے کا ’مقررہ نرخ‘ ایک فیصد پر ٹھہرا رہا‘ جس میں اچانک ایک فیصد اضافے
پر بلبلا اُٹھنے والوں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے اپیل کی ہے کہ وہ خفیہ
ذرائع سے تحقیقات کروائیں کہ کس طرح ’اکاونٹنٹ جنرل آفس‘ میں رشوت ستانی
کا بازار گرم ہے اور اِس میں ملوث کردار کون کون ہیں؟ ’’ہمیں خبر ہے لٹیروں
کے ہر ٹھکانے کی ۔۔۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے! (اَاذہر درانی)‘‘
خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے لئے ’تحریک انصاف‘ کو دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی لیکن جس ایک نکتے پر کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا وہ مالی بدعنوانی تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج بھی عوامی اجتماعات میں یہ بات فخر اور سینہ ٹھوک کر بیان کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری دفاتر میں ماضی کے مقابلے بدعنوانی کم ہوئی ہے اور یقیناًایسا ہی تھا لیکن جیسے جیسے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے ماہ و سال کے سفر میں دوری ہو رہی ہے ویسے ویسے وہ سبھی عناصر سرگرم ہوتے جا رہے ہیں جن کی گھٹی میں بدعنوانی پڑی ہوئی تھی! تحریک انصاف کو کسی ایسی واردات کے لئے ذمہ دار قرار دینا مبنی برانصاف نہیں کیونکہ جب ’اے جی آفس‘ میں رشوت ستانی کے بارے شکایت کرنے والے سے کہا گیا کہ کیا وہ شواہد کے ساتھ وزیراعلیٰ کے روبرو پیش ہونے کے لئے تیار ہے تو یکایک غبارے سے ہوا نکل گئی! اور موصوف نے ایک لمبی ٹیلی فون کال کا اختتام متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف جاری کراچی آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب کوئی وکیل ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف پیش ہوتا تو اگلے روز یا تو وہ پراسرار طور پر ہلاک پایا جاتا یا پھر وہ خود ہی مقدمے سے دستبرداری کی درخواست دائر کردیتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی انصاف چاہتا ہے صرف اپنے لئے اور اِس کے لئے قربانی دینے کو تیار (آمادہ) بھی نہیں۔ ’ایک‘ یا ’دو‘ فیصد کمیشن (رشوت) اَدا کرنے والوں نے سرکاری ملازمین کے منہ کو خون لگا دیا ہے (پورے کے پورے نظام کو کرپٹ کردیا ہے اور اب اِس کی خرابی کے لئے خود کو نہیں بلکہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں!) عجب ہے کہ خود کی بجائے وہ دوسروں سے اپنے کئے کی شکایت کرتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں جو کوئی جو کچھ بوئے گا‘ اُسے وہی کچھ کاٹنا بھی پڑے گا۔ مالی بدعنوانی ہو یا رشوت ستانی‘ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ کس طرح ٹیکس چوری‘ کم قیمت اشیاء کو بیش قیمت ظاہر کرنے اور پھر سرکاری افسروں کے ساتھ مل کرداروں کے وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار رہا ہے یا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی صورت ایک ایسی متبادل سیاسی قوت ہاتھ آئی ہے جسے ’نجات دہندہ‘ کے روپ میں دیکھنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک ہم میں سے ہر ایک ’اصلاح کار‘ کا کردار اَدا نہیں کرتا اور اپنے مفادات کی قربانی نہیں دیتا اُس وقت تک ’’تبدیلی‘‘ نہیں آسکتی۔ کیا عمران خان کو اِس لئے ووٹ دیا گیا کہ وہ ایک جادوگر ہے اور جب چاہے چھڑی گھما کر سب کچھ تبدیل کر دے گا؟ کیا عمران خان کو محض ووٹ دینا ہی کافی تھا اور اب ووٹ دے کر حمایت کرنے والوں کی ذمہ داری ختم (یا کم) ہوگئی ہے؟ تعصب کی سیاست کرنے والوں سے قوم اظہار بیزاری نہیں کر رہی جس کے ثبوت ضمنی انتخابات میں ’این اے ون‘ سے لیکر ’پی کے آٹھ‘ کے درمیان اور خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پانامہ لیکس کے ظاہر ہونے والی ’آف شور سرمایہ کاری‘ یا دو فیصد رشوت طلب کرنے والے ’آن شور بدعنوان‘ یکساں ’ایکسپوز‘ ہوئے ہیں تو کون ہے جو اِس استحصالی منظرنامے کو تبدیل کرے اور اصلاح کا کام اپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے اپنی مصلحتوں یا اپنے مفادات کی قربانی دے؟
خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے لئے ’تحریک انصاف‘ کو دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی لیکن جس ایک نکتے پر کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا وہ مالی بدعنوانی تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج بھی عوامی اجتماعات میں یہ بات فخر اور سینہ ٹھوک کر بیان کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری دفاتر میں ماضی کے مقابلے بدعنوانی کم ہوئی ہے اور یقیناًایسا ہی تھا لیکن جیسے جیسے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے ماہ و سال کے سفر میں دوری ہو رہی ہے ویسے ویسے وہ سبھی عناصر سرگرم ہوتے جا رہے ہیں جن کی گھٹی میں بدعنوانی پڑی ہوئی تھی! تحریک انصاف کو کسی ایسی واردات کے لئے ذمہ دار قرار دینا مبنی برانصاف نہیں کیونکہ جب ’اے جی آفس‘ میں رشوت ستانی کے بارے شکایت کرنے والے سے کہا گیا کہ کیا وہ شواہد کے ساتھ وزیراعلیٰ کے روبرو پیش ہونے کے لئے تیار ہے تو یکایک غبارے سے ہوا نکل گئی! اور موصوف نے ایک لمبی ٹیلی فون کال کا اختتام متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف جاری کراچی آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب کوئی وکیل ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف پیش ہوتا تو اگلے روز یا تو وہ پراسرار طور پر ہلاک پایا جاتا یا پھر وہ خود ہی مقدمے سے دستبرداری کی درخواست دائر کردیتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی انصاف چاہتا ہے صرف اپنے لئے اور اِس کے لئے قربانی دینے کو تیار (آمادہ) بھی نہیں۔ ’ایک‘ یا ’دو‘ فیصد کمیشن (رشوت) اَدا کرنے والوں نے سرکاری ملازمین کے منہ کو خون لگا دیا ہے (پورے کے پورے نظام کو کرپٹ کردیا ہے اور اب اِس کی خرابی کے لئے خود کو نہیں بلکہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں!) عجب ہے کہ خود کی بجائے وہ دوسروں سے اپنے کئے کی شکایت کرتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں جو کوئی جو کچھ بوئے گا‘ اُسے وہی کچھ کاٹنا بھی پڑے گا۔ مالی بدعنوانی ہو یا رشوت ستانی‘ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ کس طرح ٹیکس چوری‘ کم قیمت اشیاء کو بیش قیمت ظاہر کرنے اور پھر سرکاری افسروں کے ساتھ مل کرداروں کے وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار رہا ہے یا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی صورت ایک ایسی متبادل سیاسی قوت ہاتھ آئی ہے جسے ’نجات دہندہ‘ کے روپ میں دیکھنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک ہم میں سے ہر ایک ’اصلاح کار‘ کا کردار اَدا نہیں کرتا اور اپنے مفادات کی قربانی نہیں دیتا اُس وقت تک ’’تبدیلی‘‘ نہیں آسکتی۔ کیا عمران خان کو اِس لئے ووٹ دیا گیا کہ وہ ایک جادوگر ہے اور جب چاہے چھڑی گھما کر سب کچھ تبدیل کر دے گا؟ کیا عمران خان کو محض ووٹ دینا ہی کافی تھا اور اب ووٹ دے کر حمایت کرنے والوں کی ذمہ داری ختم (یا کم) ہوگئی ہے؟ تعصب کی سیاست کرنے والوں سے قوم اظہار بیزاری نہیں کر رہی جس کے ثبوت ضمنی انتخابات میں ’این اے ون‘ سے لیکر ’پی کے آٹھ‘ کے درمیان اور خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پانامہ لیکس کے ظاہر ہونے والی ’آف شور سرمایہ کاری‘ یا دو فیصد رشوت طلب کرنے والے ’آن شور بدعنوان‘ یکساں ’ایکسپوز‘ ہوئے ہیں تو کون ہے جو اِس استحصالی منظرنامے کو تبدیل کرے اور اصلاح کا کام اپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے اپنی مصلحتوں یا اپنے مفادات کی قربانی دے؟
![]() |
Voting for revolutionary PTI is enough or to curb the corruption one has to react with actions |
No comments:
Post a Comment