ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گلیات: ناپائیدار ترقی!
گلیات: ناپائیدار ترقی!
لگتا ہے جیسے وقت ہی ٹھہر گیا ہو۔ زیربحث موضوع ’’سطحی منصوبہ بندی اُور
رازدارانہ عملی اقدامات کے سبب پیدا ہونے والی ’لاتعداد مستقل مشکلات‘ ہیں‘
جن سے متعلق چند پہلو ’اکیس مئی‘ کے روز شائع ہونے والے کالم میں بطور
’ابتدائیہ‘ پیش کرنے کا بنیادی مقصد اِس بات پر زور دینا ہے کہ پشاور میں
حکومت کی ’ناک کے نیچے‘ بیٹھ کر کاغذوں پر کارکردگی دکھانے والوں سے بازپرس
کی جائے کہ وہ حکمرانوں کے ’کان پیچھے‘ کیا گل کھلا رہے ہیں کیونکہ جہاں
کہیں سیاحوں یا مقامی آبادی کو مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ متعلقہ حکومتی
اداروں (سیکرٹری یا دیگر انتظامی نگرانوں) کو نہیں بلکہ براہ راست ’تحریک
انصاف‘ کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی پر انگلیاں اُٹھاتے
ہیں‘ یوں گلیات کی خوبصورتی‘ جنگلات کے تحفظ‘ سیاحوں کے لئے سہولیات‘
شاہراؤں کی توسیع و مرمت اور بہتری و اصلاح پر اب تک اربوں روپے خرچ کرنے
کے باوجود بھی اگر صوبائی حکومت کے حصے میں لعن طعن آ رہی ہے تو وزیراعلیٰ
خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت
صوبائی کابینہ کے لئے یہ مرحلہ سنجیدہ سوچ بچار کے ساتھ آستینوں میں
جھانکنے کا ہے!
سیاحتی سیزن شروع ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ گلیات کے رہنے والے مقامی افراد نے احتجاج کی دھمکی دی ہے جن کا مطالبہ ہے کہ ’’1904ء میں برطانوی راج کے دوران مقرر کی گئی جنگلات کی حدود پر نظرثانی کی جائے اور جن مقامی افراد کے پاس محکمۂ مال سے تصدیق شدہ جائیداد کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اُنہیں حسب رقبہ اراضی فراہم کی جائے کیونکہ اگر ایسا ذاتی ملکیت پر مشتمل اراضی کا رقبہ ’اندھا دھند اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے‘ جنگلات کی حدود سے دھکیل کر باہر کردیا جاتا ہے تو جس شخص کے پاس ملکیت کے کاغذات ہے وہ اپنا رقبہ جنگلات کی حدود کے باہر سے پورا کرنے کی کوشش کرے گا اور اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اراضی کی ملکیت کے تنازعات زیادہ شدت سے سراُٹھانے لگیں۔ گلیات کا علاقہ جو نسبتاً پرامن اور محفوظ ترین تصور ہوتا ہے‘ اگر مقامی افراد کے آپسی جھگڑوں سے یہاں کا سکون غارت ہوتا ہے تو اِس کا لامحالہ منفی اثر ’سیاحت‘ پر بھی پڑے گا۔‘‘
ضلع ایبٹ آباد کی یونین کونسل نتھیاگلی کے تحصیل کونسلر سردار راحیل جنگلات کی حدود بندی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مقامی افراد کے تحفظات و غیض و غضب کی قیادت کر رہے ہیں۔ اِس پینتالیس سالہ بلدیاتی نمائندے کا تعلق سیاسی و نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے ہے لیکن انہوں نے آزاد حیثیت میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر تحریک انصاف جیسی مضبوط قوت کے مقابلے اپنی سماجی حیثیت و مقبولیت کا لوہا منوایا۔ منطق اُور دلائل کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے مالک سردار راحیل کا مؤقف ہے کہ ’’ 1904ء میں کئے گئے سروے پر اکتفا کرنے کی بجائے حکومت ایک نیا سروے کرے جس میں محکمہ مال (ریونیو) کے حکام بھی شریک ہوں تاکہ جہاں کہیں جنگلات کی حدود متنازعہ ہے اُسے مقامی افراد کے پاس ملکیتی دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں حل کیا جاسکے کیونکہ اگر گلیات کے کسی بھی گاؤں سے اہل علاقہ کو بیدخل کیا جاتا ہے تو اِس سے بڑی ناانصافی کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ضلع اَیبٹ آباد کے بالائی علاقوں (گلیات یا گیلیز) میں تجاوزات کے خلاف کاروائی اُور جنگلات کی حدود کے تعین سے پیدا ہونے والی صورتحال سے جنت نظیر وادیوں کے رہائشی (مقامی آبادی) اگر مشکلات سے دوچار ہے تو اِس مسئلے کا حل افہام و تفہیم سے ممکن ہے۔‘‘ یاد رہے کہ برطانوی راج کے دوران سال 1904ء میں جنگلات کے مذکورہ سروے کے دوران صرف حدود کا تعین ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ مقامی افراد کے حقوق کا تحفظ بھی کیا گیا تھا جس میں جنگلات سے ایندھن کے حصول اور بطور چارہ گاہ استعمال کی اجازت دی گئی تھی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے کم و بیش چالیس ہزار ایکڑ پر پھیلے وسیع و عریض جنگلات کی حدود کا تعین کرتے ہوئے مقامی افراد سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے کہ وہ موسم گرما کے دوران جنگلات میں اپنی رہائش قائم کر لیا کریں جیسا کہ مقامی روایات کے مطابق ایک عرصے سے یہ رسم جاری رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے جی پی ایس (خلأ سے حاصل کردہ تصاویر اور جی پی ایس کے کورآڈینیٹس) کے ذریعے حدود کا تعین کیا جارہا ہے اور یہ طریقۂ کار مقامی افراد کی سمجھ بوجھ سے بالاتر طریقہ ہے جو متقاضی ہیں کہ اراضی کے رقبے کو مروجہ قواعد یعنی جریب‘ کنال و مرلے کے حساب سے پیمائش ہونا چاہئے۔‘‘ بلاشک و شبہ مقامی افراد جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اِن کی حفاظت بارے اُن کے نظریات کہیں زیادہ ’ماہرانہ‘ اُور معنی و مفہوم کے لحاظ سے ’گہرے بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ جنہوں نے غیرقانونی جنگلات کاٹے وہ ماضی و حال میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور ایسے افراد کا حسب حال احتساب نہیں ہوسکا یقیناًجنگل کسی ایک قوم یا ادارے کا نہیں ہوتا بلکہ وہ سب کا ہوتا ہے بالخصوص ایسے قبائل جن کا گزر بسر ہی نہیں بلکہ پوری معیشت و معاشرت کا انحصار جنگلات پر رہا ہو‘ اگر اُن کے سروں سے درختوں کا سایہ چھن جائے تو بے سروسامانی کی حالت میں وہ کہاں جائیں گے!؟ نتھیاگلی کے مرکزی بازار اُور ملحقہ علاقوں میں کم وبیش تین سال قبل تجاوزات کے خلاف آپریشن (کاروائی) سے یہاں تعمیروترقی اور توسیع کے نام پر آج بھی دھول اُڑتی دکھائی دیتی ہے۔ مقامی افراد نے (اپنی مدد آپ کے تحت) بڑی حد تک حالات کو سنبھال لیا ہے اور اُمید ہے کہ اِس سال موسم گرما میں سیاحوں کی آمدورفت سے ’روائتی گہماگہمی‘ دیکھنے میں آئے گی۔
سردار راحیل چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی رو کے مطابق فیصلے اور حکمت عملیاں تشکیل دیتے وقت منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کی منصوبہ بندی (پلاننگ) کیا یہ نہیں تھی کہ پورے گلیات کو ترقی دی جائے گی لیکن باڑیاں سے نتھیاگلی تک شاہراہ کی توسیع تک ترقی کا عمل محدود دکھائی دیتا ہے کیا گلیات صرف ایک سڑک کا نام ہے؟ حسب اعلانات گلیات میں جدید سہولیات سے آراستہ 6 رہائشی علاقے (ٹاؤنز) بنائیں جائیں گے؟ گلیات کی ترقی کے لئے 4 ارب مختص کئے گئے‘ جس میں سے کتنے خرچ ہوئے اور کیا کچھ باقی ہے اِس بارے عام آدمی کی طرح عوام کے منتخب نمائندوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں! آخر کیا وجہ ہے کہ فیصلہ سازی‘ پالیسی سازی اُور اِقدامات کے عملی اطلاق سے قبل یا بعدازاں عام آدمی (ہم عوام) یا متعلقہ علاقوں کے نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا؟
سیاحتی سیزن شروع ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ گلیات کے رہنے والے مقامی افراد نے احتجاج کی دھمکی دی ہے جن کا مطالبہ ہے کہ ’’1904ء میں برطانوی راج کے دوران مقرر کی گئی جنگلات کی حدود پر نظرثانی کی جائے اور جن مقامی افراد کے پاس محکمۂ مال سے تصدیق شدہ جائیداد کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اُنہیں حسب رقبہ اراضی فراہم کی جائے کیونکہ اگر ایسا ذاتی ملکیت پر مشتمل اراضی کا رقبہ ’اندھا دھند اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے‘ جنگلات کی حدود سے دھکیل کر باہر کردیا جاتا ہے تو جس شخص کے پاس ملکیت کے کاغذات ہے وہ اپنا رقبہ جنگلات کی حدود کے باہر سے پورا کرنے کی کوشش کرے گا اور اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اراضی کی ملکیت کے تنازعات زیادہ شدت سے سراُٹھانے لگیں۔ گلیات کا علاقہ جو نسبتاً پرامن اور محفوظ ترین تصور ہوتا ہے‘ اگر مقامی افراد کے آپسی جھگڑوں سے یہاں کا سکون غارت ہوتا ہے تو اِس کا لامحالہ منفی اثر ’سیاحت‘ پر بھی پڑے گا۔‘‘
ضلع ایبٹ آباد کی یونین کونسل نتھیاگلی کے تحصیل کونسلر سردار راحیل جنگلات کی حدود بندی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مقامی افراد کے تحفظات و غیض و غضب کی قیادت کر رہے ہیں۔ اِس پینتالیس سالہ بلدیاتی نمائندے کا تعلق سیاسی و نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے ہے لیکن انہوں نے آزاد حیثیت میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر تحریک انصاف جیسی مضبوط قوت کے مقابلے اپنی سماجی حیثیت و مقبولیت کا لوہا منوایا۔ منطق اُور دلائل کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے مالک سردار راحیل کا مؤقف ہے کہ ’’ 1904ء میں کئے گئے سروے پر اکتفا کرنے کی بجائے حکومت ایک نیا سروے کرے جس میں محکمہ مال (ریونیو) کے حکام بھی شریک ہوں تاکہ جہاں کہیں جنگلات کی حدود متنازعہ ہے اُسے مقامی افراد کے پاس ملکیتی دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں حل کیا جاسکے کیونکہ اگر گلیات کے کسی بھی گاؤں سے اہل علاقہ کو بیدخل کیا جاتا ہے تو اِس سے بڑی ناانصافی کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ضلع اَیبٹ آباد کے بالائی علاقوں (گلیات یا گیلیز) میں تجاوزات کے خلاف کاروائی اُور جنگلات کی حدود کے تعین سے پیدا ہونے والی صورتحال سے جنت نظیر وادیوں کے رہائشی (مقامی آبادی) اگر مشکلات سے دوچار ہے تو اِس مسئلے کا حل افہام و تفہیم سے ممکن ہے۔‘‘ یاد رہے کہ برطانوی راج کے دوران سال 1904ء میں جنگلات کے مذکورہ سروے کے دوران صرف حدود کا تعین ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ مقامی افراد کے حقوق کا تحفظ بھی کیا گیا تھا جس میں جنگلات سے ایندھن کے حصول اور بطور چارہ گاہ استعمال کی اجازت دی گئی تھی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے کم و بیش چالیس ہزار ایکڑ پر پھیلے وسیع و عریض جنگلات کی حدود کا تعین کرتے ہوئے مقامی افراد سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے کہ وہ موسم گرما کے دوران جنگلات میں اپنی رہائش قائم کر لیا کریں جیسا کہ مقامی روایات کے مطابق ایک عرصے سے یہ رسم جاری رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے جی پی ایس (خلأ سے حاصل کردہ تصاویر اور جی پی ایس کے کورآڈینیٹس) کے ذریعے حدود کا تعین کیا جارہا ہے اور یہ طریقۂ کار مقامی افراد کی سمجھ بوجھ سے بالاتر طریقہ ہے جو متقاضی ہیں کہ اراضی کے رقبے کو مروجہ قواعد یعنی جریب‘ کنال و مرلے کے حساب سے پیمائش ہونا چاہئے۔‘‘ بلاشک و شبہ مقامی افراد جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اِن کی حفاظت بارے اُن کے نظریات کہیں زیادہ ’ماہرانہ‘ اُور معنی و مفہوم کے لحاظ سے ’گہرے بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ جنہوں نے غیرقانونی جنگلات کاٹے وہ ماضی و حال میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور ایسے افراد کا حسب حال احتساب نہیں ہوسکا یقیناًجنگل کسی ایک قوم یا ادارے کا نہیں ہوتا بلکہ وہ سب کا ہوتا ہے بالخصوص ایسے قبائل جن کا گزر بسر ہی نہیں بلکہ پوری معیشت و معاشرت کا انحصار جنگلات پر رہا ہو‘ اگر اُن کے سروں سے درختوں کا سایہ چھن جائے تو بے سروسامانی کی حالت میں وہ کہاں جائیں گے!؟ نتھیاگلی کے مرکزی بازار اُور ملحقہ علاقوں میں کم وبیش تین سال قبل تجاوزات کے خلاف آپریشن (کاروائی) سے یہاں تعمیروترقی اور توسیع کے نام پر آج بھی دھول اُڑتی دکھائی دیتی ہے۔ مقامی افراد نے (اپنی مدد آپ کے تحت) بڑی حد تک حالات کو سنبھال لیا ہے اور اُمید ہے کہ اِس سال موسم گرما میں سیاحوں کی آمدورفت سے ’روائتی گہماگہمی‘ دیکھنے میں آئے گی۔
سردار راحیل چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی رو کے مطابق فیصلے اور حکمت عملیاں تشکیل دیتے وقت منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کی منصوبہ بندی (پلاننگ) کیا یہ نہیں تھی کہ پورے گلیات کو ترقی دی جائے گی لیکن باڑیاں سے نتھیاگلی تک شاہراہ کی توسیع تک ترقی کا عمل محدود دکھائی دیتا ہے کیا گلیات صرف ایک سڑک کا نام ہے؟ حسب اعلانات گلیات میں جدید سہولیات سے آراستہ 6 رہائشی علاقے (ٹاؤنز) بنائیں جائیں گے؟ گلیات کی ترقی کے لئے 4 ارب مختص کئے گئے‘ جس میں سے کتنے خرچ ہوئے اور کیا کچھ باقی ہے اِس بارے عام آدمی کی طرح عوام کے منتخب نمائندوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں! آخر کیا وجہ ہے کہ فیصلہ سازی‘ پالیسی سازی اُور اِقدامات کے عملی اطلاق سے قبل یا بعدازاں عام آدمی (ہم عوام) یا متعلقہ علاقوں کے نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا؟
![]() |
The local communities have reservations about efforts to protect forest & development in Galliyat |
No comments:
Post a Comment