ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
ناقابل فراموش: 2 مئی کی یادیں!
ناقابل فراموش: 2 مئی کی یادیں!
خبررساں ادارے ’کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) سے بات چیت کرتے ہوئے
امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ ’’مئی دو ہزار گیارہ میں اسامہ بن
لادن کو انجام تک پہنچانے میں کامیابی کے ظاہری اِمکانات اگرچہ محدود تھے
اور کسی دوسرے ملک میں اچانک فوجی کاروائی کی ناکامی سے شرمندگی بھی اپنی
جگہ دباؤ رکھتی تھی لیکن اِس کے باوجود دنیا کے انتہائی مطلوب شخص تک رسائی
کی اجازت دی گئی جو بطور صدر میرے لئے ایک مشکل فیصلہ تھا۔‘‘ گیارہ ستمبر
2001ء (نائن الیون) کے روز امریکہ پر ہوئے دہشت گرد حملے کا بدلہ چکانے کے
لئے امریکہ کے صدر نے ہر خطرہ مول لیا۔ جسے یاد کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر
سنجیدگی زیادہ گہری ہوتی دیکھی جا سکتی تھی۔ رواں ہفتے (30 اپریل)کو ’سی
این این‘ پر نشر ہونے والی بات چیت میں اُنہوں نے ’اسامہ بن لادن‘ کے خلاف
کاروائی کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ’’بالآخر ہم نے وہ حاصل کرلیا‘ جو چاہتے
تھے۔‘‘
اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کرچکا اُور ’نائن الیون‘ نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اقتصادیات‘ باہم تجارت اور سیاست کی بجائے اقوام نے عسکری اتحاد تشکیل دے کر ایک دوسرے کے ساتھ ’جینے اور مرنے‘ کی قسمیں کھائیں۔ نائن الیون کا جرم ثابت کرنے کی بجائے امریکہ نے دنیا کے ہر اُس مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جہاں اُس کے بقول منصوبہ بندی یا عملی جامہ پہنانے کے لئے غوروخوض یا وسائل مہیا کئے گئے تھے لیکن جس طرح سال دو ہزار ایک میں امریکہ کی سرزمین پر ہوئے ’نائن الیون دہشت گرد حملے‘ پراسرار تھے بالکل اسی طرح ’2مئی 2011ء‘ کی اَلصبح چاند کی روشنی میں اَیبٹ آباد کے علاقے ’ٹھنڈا چوا‘ میں ہوئی اُس فوجی (جوابی) کاروائی کے بارے بھی مقامی افراد کی یا پاکستان میں عمومی طورپر پائی جانے والی معلومات نہایت ہی کم ہیں۔ ہر کوئی زیادہ کچھ جاننے کا خواہشمند آج بھی ہے۔ پانچ سال یعنی ایک ہزار آٹھ سو ستائیس دن‘ چھبیس لاکھ تیس ہزار‘ آٹھ سو سے زیادہ منٹ گزرنے کے باوجود بھی ہم امریکہ کے صدر ہی کے بیان سے حقائق کھوج نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا پانچ سال بعد کہنا ہے کہ ’’آپریشن میں حصہ لینے والے 23 فوجی بخیریت واپس لوٹیں گے یا نہیں‘ اِس بارے وثوق سے کچھ نہ جاننے کے باوجود کاروائی (آپریشن) کی اجازت دی گئی!‘‘
گذشتہ پانچ برس میں امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق دو مئی دو ہزار گیارہ رات ایک بجے ’نیپچون سپیئر(Neptune Spear)‘ نامی آپریشن میں ’اُسامہ بن لادن‘ کو قتل کیا گیا۔ اُس رات سے متعلق ایبٹ آباد کے ’ٹھنڈا چوا‘ نامی علاقے کے رہائشیوں کی یادیں بس اتنی ہی ہیں کہ وہ سوئے ہوئے تھے کہ اچانک درویوار لرز اُٹھے۔ متعدد دھماکے اور گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ ایک ہیلی کاپٹر میں لگی آگ سے پھیلی روشنی میں کتے کے بھونکنے کی آواز سے وادی گونج رہی تھی پھر آن کی آن ایک ہیلی کاپٹر اُڑا اُور فضاؤں میں کھو گیا جس کے بعد پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیر لیا۔ سخت پوچھ گچھ ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔ یہ علاقہ عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں آنے والے ہر شخص کو آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ’اُسامہ بن لادن یا اُس کے اہل خانہ کے زیراستعمال رہی رہائشگاہ‘ کے آس پاس سفید کپڑوں میں یہاں وہاں خفیہ اداروں کے اہلکار منڈلاتے رہتے ہیں‘ جو کسی ’سیاح‘ چاہے وہ صحافی ہی کیوں نہ ہو‘ اُسے بناء پوچھ گچھ جانے نہیں دیتے۔ حالیہ دنوں میں ایک غیرملکی ٹیلی ویژن چینل کی ٹیم کو اُس مقام سے باقاعدہ حراست میں لیکر کر ’ایبٹ آباد سے نکال باہر‘ کیا گیا‘ جو ملبے کی صورت بکھری اُن باقی ماندہ بھاری بھرکم نشانیوں (شہ تیروں) تلے دبی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے!
اسامہ بن لادن سے منسوب عمارت کا اب نام و نشان نہیں۔ وہاں فرش کا ایک ٹکڑا ہے۔ ٹیوب ویل سے جڑا پانی کا ایک نلکا جس کی ٹوٹی نہیں اور وہ ہر وقت بہتا رہتا ہے۔ خود رو گھاس اور فرش کے باقی ماندہ حصے پر بچے شام کو کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہیں۔ شمعریز نامی ایک بوڑھا شخص جو ہمسائے ہی کے ایک دو کمرے کے مکان میں رہتا ہے نے بناء کسی مالک اِس قطعہ اراضی کے ایک کونے میں لہسن و دیگر سبزیاں کاشت کر رکھی ہیں‘ جن کی دیکھ بھال میں اُس کی عمر کے باقی ماندہ دن کٹ رہے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گردکے گھر کا دروازہ اور ملبے کی ایک ایک اینٹ تک یوں لوٹ لی جائے گی یا اُس سے یوں تصرف ہوگا! پاکستان کے سیکورٹی اداروں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کسی جادو کے زور سے اِس انتہائی پراسرار قطعہ اراضی کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دیں‘ جس کی حفاظت ایک دردسر بنی ہوئی ہے۔ ایک تجویز تھی کہ اِس مقام پر سبزہ زار بنا دیا جائے لیکن کنٹونمنٹ بورڈ (ایبٹ آباد چھاؤنی) کی حدود میں ’تفریحی پارک کی سیر کے بہانے‘ بھلا عوام و خواص کو آنے سے کیسے روکا جائے گا اور شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ مذکورہ چھ سے سات کینال پر پھیلے رقبے کی قسمت کا فیصلہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں ہوسکا ہے۔ سوالات بہت ہیں کہ بن لادن کے اہل خانہ اِس مقام (ایبٹ آباد چھاؤنی کے دل) تک کیسے پہنچے اور کس طرح پاک فوج کی ایک حساس ترین تربیت گاہ کے قرب میں دنیا کا انتہائی مطلوب شخص یا اُس کے اہل خانہ سالہا سال تک روپوش و گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے؟! مذہبی رجحانات یا خیالات رکھنے والے حلقے بن لادن کی دامے درہمے سخنے اسلام کی خدمت اور جہادی زندگی میں عملی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے شرعی طریقے سے تجہیزوتدفین کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مغموم‘ دکھی اور جذبات پر مبنی خیالات کا اظہار کرنے والے حد درجہ احتیاط کے باوجود بھی اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ ’ٹھنڈا چوا‘ کے ایسے ہی ایک باسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’’دہشت گردی کے لئے اکسانا بھی تو اِس کے محرکات اور وجوہات کا حصہ سمجھا جانا چاہئے۔ مسلمان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے اگر عیسائی و یہودی ممالک چند اتحادی مسلم ممالک کے ساتھ اکھٹے ہو بھی جاتے ہیں‘ تو بھی ’اخلاقی طور پر‘ ایبٹ آباد میں جو کچھ بھی کیا گیا‘ وہ ایک مجرمانہ فعل ہی شمار ہوگا۔ اسامہ بن لادن سے روحانی و نظریاتی نسبت رکھنے والوں کی کمی نہیں‘ کچھ لوگ اُسے ظالم تو بہت سے مظلوم بھی سمجھتے ہیں جن کے دل آج بھی مغموم لیکن انصاف کی منتظر آنکھوں میں چھپے آنسو دنیا کو دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘
اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کرچکا اُور ’نائن الیون‘ نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اقتصادیات‘ باہم تجارت اور سیاست کی بجائے اقوام نے عسکری اتحاد تشکیل دے کر ایک دوسرے کے ساتھ ’جینے اور مرنے‘ کی قسمیں کھائیں۔ نائن الیون کا جرم ثابت کرنے کی بجائے امریکہ نے دنیا کے ہر اُس مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جہاں اُس کے بقول منصوبہ بندی یا عملی جامہ پہنانے کے لئے غوروخوض یا وسائل مہیا کئے گئے تھے لیکن جس طرح سال دو ہزار ایک میں امریکہ کی سرزمین پر ہوئے ’نائن الیون دہشت گرد حملے‘ پراسرار تھے بالکل اسی طرح ’2مئی 2011ء‘ کی اَلصبح چاند کی روشنی میں اَیبٹ آباد کے علاقے ’ٹھنڈا چوا‘ میں ہوئی اُس فوجی (جوابی) کاروائی کے بارے بھی مقامی افراد کی یا پاکستان میں عمومی طورپر پائی جانے والی معلومات نہایت ہی کم ہیں۔ ہر کوئی زیادہ کچھ جاننے کا خواہشمند آج بھی ہے۔ پانچ سال یعنی ایک ہزار آٹھ سو ستائیس دن‘ چھبیس لاکھ تیس ہزار‘ آٹھ سو سے زیادہ منٹ گزرنے کے باوجود بھی ہم امریکہ کے صدر ہی کے بیان سے حقائق کھوج نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا پانچ سال بعد کہنا ہے کہ ’’آپریشن میں حصہ لینے والے 23 فوجی بخیریت واپس لوٹیں گے یا نہیں‘ اِس بارے وثوق سے کچھ نہ جاننے کے باوجود کاروائی (آپریشن) کی اجازت دی گئی!‘‘
گذشتہ پانچ برس میں امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق دو مئی دو ہزار گیارہ رات ایک بجے ’نیپچون سپیئر(Neptune Spear)‘ نامی آپریشن میں ’اُسامہ بن لادن‘ کو قتل کیا گیا۔ اُس رات سے متعلق ایبٹ آباد کے ’ٹھنڈا چوا‘ نامی علاقے کے رہائشیوں کی یادیں بس اتنی ہی ہیں کہ وہ سوئے ہوئے تھے کہ اچانک درویوار لرز اُٹھے۔ متعدد دھماکے اور گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ ایک ہیلی کاپٹر میں لگی آگ سے پھیلی روشنی میں کتے کے بھونکنے کی آواز سے وادی گونج رہی تھی پھر آن کی آن ایک ہیلی کاپٹر اُڑا اُور فضاؤں میں کھو گیا جس کے بعد پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیر لیا۔ سخت پوچھ گچھ ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔ یہ علاقہ عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں آنے والے ہر شخص کو آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ’اُسامہ بن لادن یا اُس کے اہل خانہ کے زیراستعمال رہی رہائشگاہ‘ کے آس پاس سفید کپڑوں میں یہاں وہاں خفیہ اداروں کے اہلکار منڈلاتے رہتے ہیں‘ جو کسی ’سیاح‘ چاہے وہ صحافی ہی کیوں نہ ہو‘ اُسے بناء پوچھ گچھ جانے نہیں دیتے۔ حالیہ دنوں میں ایک غیرملکی ٹیلی ویژن چینل کی ٹیم کو اُس مقام سے باقاعدہ حراست میں لیکر کر ’ایبٹ آباد سے نکال باہر‘ کیا گیا‘ جو ملبے کی صورت بکھری اُن باقی ماندہ بھاری بھرکم نشانیوں (شہ تیروں) تلے دبی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے!
اسامہ بن لادن سے منسوب عمارت کا اب نام و نشان نہیں۔ وہاں فرش کا ایک ٹکڑا ہے۔ ٹیوب ویل سے جڑا پانی کا ایک نلکا جس کی ٹوٹی نہیں اور وہ ہر وقت بہتا رہتا ہے۔ خود رو گھاس اور فرش کے باقی ماندہ حصے پر بچے شام کو کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہیں۔ شمعریز نامی ایک بوڑھا شخص جو ہمسائے ہی کے ایک دو کمرے کے مکان میں رہتا ہے نے بناء کسی مالک اِس قطعہ اراضی کے ایک کونے میں لہسن و دیگر سبزیاں کاشت کر رکھی ہیں‘ جن کی دیکھ بھال میں اُس کی عمر کے باقی ماندہ دن کٹ رہے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گردکے گھر کا دروازہ اور ملبے کی ایک ایک اینٹ تک یوں لوٹ لی جائے گی یا اُس سے یوں تصرف ہوگا! پاکستان کے سیکورٹی اداروں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کسی جادو کے زور سے اِس انتہائی پراسرار قطعہ اراضی کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دیں‘ جس کی حفاظت ایک دردسر بنی ہوئی ہے۔ ایک تجویز تھی کہ اِس مقام پر سبزہ زار بنا دیا جائے لیکن کنٹونمنٹ بورڈ (ایبٹ آباد چھاؤنی) کی حدود میں ’تفریحی پارک کی سیر کے بہانے‘ بھلا عوام و خواص کو آنے سے کیسے روکا جائے گا اور شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ مذکورہ چھ سے سات کینال پر پھیلے رقبے کی قسمت کا فیصلہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں ہوسکا ہے۔ سوالات بہت ہیں کہ بن لادن کے اہل خانہ اِس مقام (ایبٹ آباد چھاؤنی کے دل) تک کیسے پہنچے اور کس طرح پاک فوج کی ایک حساس ترین تربیت گاہ کے قرب میں دنیا کا انتہائی مطلوب شخص یا اُس کے اہل خانہ سالہا سال تک روپوش و گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے؟! مذہبی رجحانات یا خیالات رکھنے والے حلقے بن لادن کی دامے درہمے سخنے اسلام کی خدمت اور جہادی زندگی میں عملی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے شرعی طریقے سے تجہیزوتدفین کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مغموم‘ دکھی اور جذبات پر مبنی خیالات کا اظہار کرنے والے حد درجہ احتیاط کے باوجود بھی اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ ’ٹھنڈا چوا‘ کے ایسے ہی ایک باسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’’دہشت گردی کے لئے اکسانا بھی تو اِس کے محرکات اور وجوہات کا حصہ سمجھا جانا چاہئے۔ مسلمان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے اگر عیسائی و یہودی ممالک چند اتحادی مسلم ممالک کے ساتھ اکھٹے ہو بھی جاتے ہیں‘ تو بھی ’اخلاقی طور پر‘ ایبٹ آباد میں جو کچھ بھی کیا گیا‘ وہ ایک مجرمانہ فعل ہی شمار ہوگا۔ اسامہ بن لادن سے روحانی و نظریاتی نسبت رکھنے والوں کی کمی نہیں‘ کچھ لوگ اُسے ظالم تو بہت سے مظلوم بھی سمجھتے ہیں جن کے دل آج بھی مغموم لیکن انصاف کی منتظر آنکھوں میں چھپے آنسو دنیا کو دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘
![]() |
5th anniversary of Osama Bin Laden and feeling of his neighborhood in Abbottabad |
Ur articles r always impressive, i always read ur articles in Aaj
ReplyDeleteMay Allah bless u
Ur articles r always impressive, i always read ur articles in Aaj
ReplyDeleteMay Allah bless u