Friday, May 6, 2016

May2016: Violence against women in Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
درندگی کی انتہاء!
تصور کیجئے کہ ’عمائدین علاقہ پر مشتمل جرگہ بناء صفائی فرد جرم عائد کرتا ہے اُور مجرم قرار دی گئی لڑکی کو ’’سزائے موت‘‘ سناتا ہے۔ پھر اُسے گھسیٹ کر سب کے سامنے اِتنا پیٹا جاتا ہے کہ وہ مر جائے۔ ایک اطلاع کے مطابق ڈوپٹے سے پھندا بنا کر اُس کو سانسیں منقطع ہونے تک مارپیٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نجانے کتنی ہی ہچکیاں اور چیخیں اُٹھی ہوں گی‘ لیکن ان کی گونج مقامی پولیس کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی! ایک ہجوم جس میں شامل ہر ایک کی آنکھوں میں اس قدر خون اُترا تھا کہ اُنہیں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اپنی بیٹیاں یاد نہیں آئیں۔ پھر اُس لڑکی کی لاش کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے اور اُس بدقسمت لڑکی کا جرم صرف یہ ہوتا ہے کہ اُس کی ایک سہیلی اپنی پسند کی شادی کرنے کے لئے ’’بغاوت‘‘ پر اُتر آئی تھی! کسی کے ’جرم کی سزا‘ کسی اُور کو دے دی جاتی ہے! پھر جب جلی ہوئی لاش گاؤں سے ایبٹ آباد شہر کے وسطی ہسپتال منتقل ہوتی ہے تو ذرائع ابلاغ کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پولیس پر دباؤ بڑھتا ہے جو ’’غیرت کے نام پر ہونے والے اِس قتل‘‘ میں ملوث 14 افراد کو گرفتار کرتی ہے‘ اُن پر انسداد دہشت گردی کی دفعات میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور عمومی تفتیش کی بجائے ’کاونٹر ٹریرازم ڈیپارٹمنٹ‘ عدالت سے مزید پوچھ گچھ کے لئے ریمانڈ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ کہانی اٹھائیس اپریل سے شروع ہوتی ہے اور پانچ مئی کے روز سامنے آنے والی تفصیلات ’ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی اُو) ایبٹ آباد خرم رشید صحافیوں کے سامنے کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ضلع ایبٹ آباد کے مکول گاؤں میں عنبرین نامی لڑکی کے قتل کا معمہ پولیس نے حل کر لیاہے۔ پولیس نے لڑکی کے قتل میں ملوث چودہ ملزمان کو بھی گرفتار کیا ہے جس میں لڑکی کی والدہ شمیم بی بی اور ویلج کونسل ناظم پرویز نامی کردار شامل ہیں۔ ناظم پرویز نے پندرہ افراد پر مشتمل جرگہ منعقد کیا جس نے لڑکی کو پہلے دوپٹہ گلے میں ڈال کر پھندا لگایا اور بعدازاں اُسے گاڑی کی نشست کے ساتھ باندھ کر گاڑی کو آگ لگا دی۔ سیٹ پر چونکہ ریکسین اور چمڑا کی گدی بنی ہوتی ہے جو جلد بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بدل گئی۔ ڈی پی او کے بقول اٹھائیس اپریل کو مکول میں پندرہ افراد پر مشتمل جرگہ صدیق نامی ڈرائیورکے گھر منعقد ہوا‘ جس میں صدیق نامی شخص کو چند روز قبل گاؤں سے ایک لڑکی کے فرار میں مدد کرنے کا الزام تھا‘ جرگہ کا سربراہ (ماسٹر مائنڈ) علاقہ کے ناظم پرویز نے (ملزمہ) لڑکی عنبرین کو قتل کرنے اور بعدازاں صدیق نامی شخص کی گاڑی میں زندہ جلانے کا فیصلہ سنایا اور قتل کے جملہ ثبوت مٹانے کے لئے ساتھ کھڑی دیگر دو گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیا۔ اِس قتل کے سولہ میں سے چودہ ملزمان گرفتار جبکہ دو کی گرفتاری ابھی باقی ہے۔‘‘

جس ملک میں قانون کی حکمرانی کمزور اور انصاف تک بذریعہ عدالت رسائی صبرآزما‘ مہنگا اور ناقابل یقین حد تک دشوار و پیچیدہ عمل ہو‘ وہاں اِس قسم کے واقعات رونما (متبادل فیصلے) ہونے پر افسوس و حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ ضلع ایبٹ آباد کے ایک دور اُفتادہ دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی بیس سالہ عنبرین قتل ہوئی‘ زندہ جلائی گئی اور اُس کی راکھ کے سوا کچھ نہیں بچا‘ جسے ’فرانزک تجزیئے‘کے لئے بھیج دیا گیا ہے لیکن وارداتیں‘ تفتیش اور روائتی مذمت کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک خواتین کو معاشرے کا کمزور ترین اور کم ترین سمجھا جاتا رہے گا۔ پاکستان میں ہر سال خواتین پر تشدد کے ہزاروں جبکہ قتل کے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں! حکومت کی توجہ دلانے کے لئے ’عورت فاؤنڈیشن‘ سمیت کئی غیرسرکاری تنظیمیں باقاعدگی سے ایسے جرائم متعلق سالانہ رپورٹیں مرتب کرتی ہیں لیکن سب کا سب رائیگاں محسوس ہورہا ہے! عنبرین کا قتل بھی آئندہ کسی واردات تک خبروں (شہ سرخیوں) اور ذرائع ابلاغ پر ہونے والی بحث کا حصہ رہے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے بھی اِس خبر کو خوب اچھال رہے ہیں کیونکہ اِس سے پاکستان میں انسانی حقوق اور ایک عام عورت کی معاشرتی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے! جب تک خبر نشر ہوتی رہے گی اِس بارے معاشرے میں ہر سطح پر بحث بھی جاری رہے گی لیکن ’غیرت کے نام پر‘ کوئی ایک بھی ’قتل‘ اُس وقت تک ’آخری‘ ثابت نہیں ہوگا جب تک بااثر افراد کو نشان عبرت نہیں بنا دیا جاتا۔ تہذیب و تمدن‘ علم اُور فکروشعور کی منزلیں طے کرنے کا دعویٰ کرنے والے معاشرے کی ہرسطح پر‘ ہر معمول میں اگر عورت انصاف کی طلبگار ہے تو اسلامی و نظریاتی مملکت خداداد ہونے کے ’ عملی وقار کا تقاضا‘ یہ ہے کہ صنف نازک کے حقوق اُور اسلامی تعلیمات کے مطابق اُس کے جائز مقام کا ادراک و اَدائیگی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
http://dailyaaj.com.pk/epaper/epaper/1462463311_201605059045.jpg

No comments:

Post a Comment