ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غیرسیاسی پولیس۔۔۔؟!
غیرسیاسی پولیس۔۔۔؟!
خیبرپختونخوا کے محکمۂ پولیس میں اعلیٰ سطح پر ’سیاسی مداخلت‘ ختم کرنے کے
مثبت اثرات تین سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی سردار
سورن سنگھ کے قتل کا معمہ محض چند گھنٹوں اُور ضلع ایبٹ آباد کے ایک دُور
افتادہ گاؤں مکول میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ جیسی گھناؤنی واردات کا سراغ
بھی چند ہی روز میں لگا کر ’اِنسداد دہشت گردی‘ کی دفعات عائد کردی گئیں
ہیں تو کیا یہ تبدیلی نہیں کہ پولیس اس قدر چوکنا اُور مستعد ہو گئی ہے؟
سردار سورن سنگھ رکن صوبائی اسمبلی تھے‘ جن کے قتل کی مذمت تحریک انصاف کے
سربراہ سے لیکر حکمراں سیاسی جماعت کے ہر کارکن نے کی۔ وہ ایک ’ہائی
پروفائل کیس‘ تھا اُور ہمارے ہاں پولیس کا ماضی ایسی متعدد مثالوں سے مزین
ہے‘ جہاں خواص کے خلاف ہونے والی وارداتیں تو چٹکی بجاتے تھانے ہی کی سطح
پر حل کر لی گئیں لیکن جہاں کہیں عام آدمی جرم کا شکار ہوا‘ تو وہاں پولیس
سے رجوع کرنا گویا ستم بالائے ستم ٹھہرا۔ شہری و دیہی علاقوں میں پولیس کی
گشت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی
یقیناً’اَعدادوشمار‘ کی بنیاد پر اپنے محکمے کی کارکردگی پر مطمئن ہوں گے
لیکن ہر جرم رپورٹ نہیں ہوتا اُور یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے غوروخوض
ضروری ہے۔ ناصر درانی اُنہیں اُس ’عمومی تاثر‘ کو بھی زائل کرنے کے لئے
اقدامات کرنے چاہیءں‘ تاکہ پولیس اور تھانے کی ساکھ بہتر ہو۔
خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری کا نوٹس عالمی سطح پر بھی لیا گیا ہے اور بالخصوص اٹھائیس اپریل کو منظرعام پر آنے والے گلیات کے تھانہ ڈونگا گلی کے گاؤں مکول پائیں میں لڑکی کے قتل کی تحقیقات جس پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھائی جا رہی ہے‘ اُس پر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی معروف غیرسرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے بھی قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کی سطح پر پنچائیت اور جرگے کی مذمت و عملی اقدامات کی ضرورت کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اِس قسم کے واقعات رونما ہونے کے بعد پولیس پر کڑی تنقید کی جاتی تھی۔ احتجاجی مظاہرین اِس بات کا بھی مطالبہ کرتے تھے کہ پولیس جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن پولیس کلچر میں تبدیلی اپنوں اور غیروں کی نظر میں آنے سے توقعات کم نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کے لئے عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز پولیس کی کارکردگی سے سوفیصد مطمئن نہیں لیکن بہتری محسوس کرتے ہوئے انہوں نے خواتین کے خلاف ایسے درجنوں جرائم کا ذکر کیا ہے جو ہنوز تفتیشی مراحل سے گزر رہے ہیں یا سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہورہے کیونکہ پولیس عوام دوست نہیں!‘‘ جائز سوال ہے کہ پولیس کا رعب و دبدبہ کہاں ہے؟ عمومی تاثر یہی ہے کہ جرائم کا ارتکاب اس لئے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ تھانہ کچہری کی نزاکتیں‘ باریکیاں اور مراحل کی آسانی مالی وسائل سے مشروط ہے۔
معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے پولیس کے محکمے کا ’’مکمل غیرسیاسی‘‘ ہونا اگرچہ فوری ممکن نہیں لیکن ضروری ہے۔ قانون کی نظر ہر خاص وعام کو ایک نظر سے دیکھے‘ اگرچہ ایسا بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا لیکن بہرکیف و بہرحال ضروری ہے۔ اگر ہم ضلع پشاور کے تھانہ جات ہی کی بات کریں تو آبادی کے تناسب سے افرادی قوت اور تکنیکی و فنی وسائل کی کمی کارکردگی کو متاثر کرنے جیسے دیگر کئی اسباب کا حصہ ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو ذہنی و جسمانی سکون اور آرام تو بہت دور کی بات اُنہیں پیشہ وارانہ استعداد بڑھانے کے لئے تربیت کے مواقع بھی خاطرخواہ نہیں ملتے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کے بیرون ملک تربیتی دورے اور اُن کے علم ودانش میں اضافے کے کچھ نہ کچھ ثمرات تو روزمرہ معمولات کی گرداب میں پھنسے ہوئے اہلکاروں کو بھی منتقل ہونا چاہئے۔ اِنسپکٹر جنرل سے توقع ہے کہ وہ پہلی فرصت میں تھانہ جات کی سطح پر پائے جانے والے تحفظات‘ شکایات اُور ضروریات بارے باقی ماندہ کام مکمل کرنے کی رفتار میں اضافہ کریں گے۔ تھوڑے کہے کو بہت سمجھتے ہوئے اُنہیں دیکھنا ہوگا کہ خود اُنہی کے ’آس پاس‘ ایسے ’فرمان تابع‘ اہلکار بھی ہیں جو اُن کے اصلاحات و تبدیلی کے ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پولیس فورس میں احتساب کا عمل جس زور و شور سے شروع کیا گیا‘ اُس بارے سست روی کا تاثر بھی ’سزا وجزأ‘ کے دائمی و اختیاری طرز عمل کا متقاضی ہے۔ پولیس سربراہ اگر معلوم کرنا چاہیں تو ایسے کئی اہلکار ملیں گے جو ایک ہی تھانے میں سالہا سال سے تعینات ہیں۔
دہشت گردی و بھتہ خوری جیسے منظم جرائم کے سہولت کاروں کی تلاش قطعی مشکل نہیں اگر ہر تھانے کو ایسے افراد کی فہرستیں مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے جو ایک سے زیادہ مقدمات میں ملوث ہیں اور تھانے سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں جن کی آمدن کے ذرائع مشکوک و معلوم ہیں۔ ماضی میں سیاسی و انتظامی اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے بارے میں پولیس کے اپنے خفیہ تفتیشی شعبے کی مرتب کردہ رپورٹیں سردخانے کی نذر میں پڑی ہوئی ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کہیں ’ادھر اُدھر‘ ہی نہ ہوجائیں۔ ناصر درانی سے زیادہ سنہرا (منفرد) موقع شاید ہی کسی پولیس سربراہ کو ملا ہو‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اصلاح و تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کی رفتار مزید کتنی بڑھا پاتے ہیں!؟
خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری کا نوٹس عالمی سطح پر بھی لیا گیا ہے اور بالخصوص اٹھائیس اپریل کو منظرعام پر آنے والے گلیات کے تھانہ ڈونگا گلی کے گاؤں مکول پائیں میں لڑکی کے قتل کی تحقیقات جس پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھائی جا رہی ہے‘ اُس پر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی معروف غیرسرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے بھی قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کی سطح پر پنچائیت اور جرگے کی مذمت و عملی اقدامات کی ضرورت کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اِس قسم کے واقعات رونما ہونے کے بعد پولیس پر کڑی تنقید کی جاتی تھی۔ احتجاجی مظاہرین اِس بات کا بھی مطالبہ کرتے تھے کہ پولیس جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن پولیس کلچر میں تبدیلی اپنوں اور غیروں کی نظر میں آنے سے توقعات کم نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کے لئے عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز پولیس کی کارکردگی سے سوفیصد مطمئن نہیں لیکن بہتری محسوس کرتے ہوئے انہوں نے خواتین کے خلاف ایسے درجنوں جرائم کا ذکر کیا ہے جو ہنوز تفتیشی مراحل سے گزر رہے ہیں یا سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہورہے کیونکہ پولیس عوام دوست نہیں!‘‘ جائز سوال ہے کہ پولیس کا رعب و دبدبہ کہاں ہے؟ عمومی تاثر یہی ہے کہ جرائم کا ارتکاب اس لئے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ تھانہ کچہری کی نزاکتیں‘ باریکیاں اور مراحل کی آسانی مالی وسائل سے مشروط ہے۔
معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے پولیس کے محکمے کا ’’مکمل غیرسیاسی‘‘ ہونا اگرچہ فوری ممکن نہیں لیکن ضروری ہے۔ قانون کی نظر ہر خاص وعام کو ایک نظر سے دیکھے‘ اگرچہ ایسا بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا لیکن بہرکیف و بہرحال ضروری ہے۔ اگر ہم ضلع پشاور کے تھانہ جات ہی کی بات کریں تو آبادی کے تناسب سے افرادی قوت اور تکنیکی و فنی وسائل کی کمی کارکردگی کو متاثر کرنے جیسے دیگر کئی اسباب کا حصہ ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو ذہنی و جسمانی سکون اور آرام تو بہت دور کی بات اُنہیں پیشہ وارانہ استعداد بڑھانے کے لئے تربیت کے مواقع بھی خاطرخواہ نہیں ملتے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کے بیرون ملک تربیتی دورے اور اُن کے علم ودانش میں اضافے کے کچھ نہ کچھ ثمرات تو روزمرہ معمولات کی گرداب میں پھنسے ہوئے اہلکاروں کو بھی منتقل ہونا چاہئے۔ اِنسپکٹر جنرل سے توقع ہے کہ وہ پہلی فرصت میں تھانہ جات کی سطح پر پائے جانے والے تحفظات‘ شکایات اُور ضروریات بارے باقی ماندہ کام مکمل کرنے کی رفتار میں اضافہ کریں گے۔ تھوڑے کہے کو بہت سمجھتے ہوئے اُنہیں دیکھنا ہوگا کہ خود اُنہی کے ’آس پاس‘ ایسے ’فرمان تابع‘ اہلکار بھی ہیں جو اُن کے اصلاحات و تبدیلی کے ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پولیس فورس میں احتساب کا عمل جس زور و شور سے شروع کیا گیا‘ اُس بارے سست روی کا تاثر بھی ’سزا وجزأ‘ کے دائمی و اختیاری طرز عمل کا متقاضی ہے۔ پولیس سربراہ اگر معلوم کرنا چاہیں تو ایسے کئی اہلکار ملیں گے جو ایک ہی تھانے میں سالہا سال سے تعینات ہیں۔
دہشت گردی و بھتہ خوری جیسے منظم جرائم کے سہولت کاروں کی تلاش قطعی مشکل نہیں اگر ہر تھانے کو ایسے افراد کی فہرستیں مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے جو ایک سے زیادہ مقدمات میں ملوث ہیں اور تھانے سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں جن کی آمدن کے ذرائع مشکوک و معلوم ہیں۔ ماضی میں سیاسی و انتظامی اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے بارے میں پولیس کے اپنے خفیہ تفتیشی شعبے کی مرتب کردہ رپورٹیں سردخانے کی نذر میں پڑی ہوئی ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کہیں ’ادھر اُدھر‘ ہی نہ ہوجائیں۔ ناصر درانی سے زیادہ سنہرا (منفرد) موقع شاید ہی کسی پولیس سربراہ کو ملا ہو‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اصلاح و تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کی رفتار مزید کتنی بڑھا پاتے ہیں!؟
![]() |
http://dailyaaj.com.pk/epaper/epaper/1462634497_201605072524.jpg |
No comments:
Post a Comment