ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خط غربت؟
خط غربت؟
عالمی سطح پر غربت کے کا تعین کرنے کے لئے بنایا گیا پیمانہ ’کم سے کم
آمدنی‘ کی بنیاد پر یہ وضع کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کسی بھی شخص کی آمدنی
اگر ایک مقررہ حد سے کم ہے تو وہ ’’غریب‘‘ کہلائے گا۔ اکتوبر 2015ء میں
’عالمی بینک‘ نے یومیہ آمدنی کی کم سے کم حد 1.90 ڈالر کی تھی جو سال 2005ء
سے قبل ایک ڈالر بعدازاں 1.25 ڈالر یومیہ مقرر کی گئی۔ دنیا بھر کے ماہرین
اِقتصادیات کم یا زیادہ اختلاف کے ساتھ ’خط غربت‘کے پیمانے سے اتفاق کرتے
ہیں جو کسی فرد واحد کی ’قوت خرید‘ کی عکاسی تو کرتا ہے لیکن کیا یہ پیمانہ
پاکستان جیسے ملک میں غربت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے؟
خط غربت کے موجودہ عالمی پیمانے کو اگر پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو یہ ’’199 روپے 3 پیسے‘‘ بنتے ہیں یعنی ہر وہ پاکستانی ’’غریب‘‘ ہے جو یومیہ کم و بیش 200 روپے کما رہا ہے اور اِس حساب سے 6ہزار روپے سے کم آمدنی والا غریب کہلائے گا جو سراسر غلط اور پاکستانی معاشرے کے حساب سے بے بنیاد تصور ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کا قومی یا صوبائی بجٹ تشکیل دیتے وقت بھی غریبوں کا شمار اِسی ’خط غربت‘ پر کیا جاتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو اُس کے خاندان کی کفالت کے لحاظ سے شمار کیا جانا چاہئے۔ اگر ہم پاکستان میں کم سے کم مقررہ تنخواہ کہ جسے تین جون کو پیش کئے گئے بجٹ میں ایک ہزار روپے بڑھا کر چودہ ہزار کر دیا گیا ہے اور درحقیقت یہی ’خط غربت‘ ہے!
حکومت کی جانب سے مقرر کی جانے والی کم سے کم تنخواہ کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کی ادائیگی کے لئے حکومت (اپنے ہی حکم پر عمل درآمد) سختی سے نہیں کراتی۔ ایسے نجی اِداروں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں‘ جو وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے کم سے کم تنخواہ کے مطابق ماہانہ ادائیگیاں نہیں کرتے۔ بھلا حکومت ایسے دلاسے دیتی ہی کیوں ہے جبکہ مزدوروں بالخصوص دیہاڑی (یومیہ محنت مزدوری) کرنے والوں کو کم سے کم چودہ یا پندرہ ہزار روپے ماہانہ اُجرت نہیں دلا سکتی!؟
خط غربت میں کمی اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوگی جب تک اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوتے اُور اُس وقت تک طرزحکمرانی پر اُٹھنے والے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی جب تک کہ آمدن میں اضافہ نہ ہو۔ اقتصادی سروے رپورٹ 2015-16ء کے مطابق کپاس کی فصل خراب ہونے سے رواں مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کا مقررہ ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ حکومت اپنے بڑے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اقتصادی سروے اور بجٹ کی روشنی میں سامنے آنے والی صورتحال کسی طرح خوش کن اور اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی ترقی اور صنعت کا پہیہ بنیادی طور پر زرعی سیکٹر سے جڑا ہوا ہے جو بدقسمتی سے شروع دن سے حکومت کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار ہے۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ زراعت سے وابستہ روزگار کا تناسب 80فیصد سے زیادہ ہے لیکن اِس شعبے پر ’حکومتی نظرکرم‘ خاطرخواہ نہیں۔ بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ نے کھاد کی بوری کی قیمت کم کرنے کا اعلان کیا تو اُن کی اطلاع کے لئے عرض میں پاکستان میں کھاد کی جو بوری رعایت کے بعد 1400 روپے میں بطور خاص عنایت دی جارہی وہی بھارت میں 700 روپے فی بوری ہے اور اگر کرنسی کا فرق نکال دیا جائے تو بھارت میں کھاد کی ایک بوری 900 روپے جبکہ پاکستان میں اگر 1400 روپے ہوگی تو اِس میں کمال ہی کیا ہے؟ رواں مالی سال میں زرعی سیکٹر میں ترقی کی منفی 0.19فیصد شرح ہے جو گزشتہ پچیس برسوں میں پہلی بار سامنے آئی ہے۔ کپاس‘ چاول] مکئی اور گندم ہماری اہم نقد آور اجناس ہیں ان کی پیداوار میں کمی سے ملکی برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور اب تو یہ بات خود حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے۔ کیا ہم یہ بات بھی فراموش کر دیں کہ ’خط غربت‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی اکثریت اُن محنت کشوں کی ہے جو کسی نہ کسی ذریعے زراعت سے وابستہ ہیں۔
زرعی سیکٹر پوری طرح فعال ہونا چاہئے۔ کھاد‘ ٹریکٹر‘ پانی‘ تصدیق شدہ اچھے بیج اور دوسری مطلوبہ سہولیات ارزاں نرخوں پر مہیا کرنے کے ساتھ زرعی ماہرین کی رہنمائی فراہم ہونی چاہئے۔ معاشی اہداف کاحصول ممکن بنانے کے لئے بڑے زمینداروں کی آمدن اور چھوٹے کاشتکاروں کو سبسڈی دینا ہوگی۔ زرعی سیکٹر کے علاؤہ جنگلات‘ فشریز‘ لائیو سٹاک بجلی گیس اور تعمیرات کے شعبوں کا احوال بھی ناقابل بیان ہے۔ ہر شعبے میں ترقی اور نمو کی شرح مختلف ہے‘ کہیں کم کہیں زیادہ تاہم اس سے حکومت کی مجموعی کارکردگی پر کوئی اچھا اور مثبت تاثر نہیں اُبھرتا۔ اقتصادی فیصلہ سازوں کو ’خط غربت‘ کے عالمی معیار کا پاکستان پر اطلاق کرتے ہوئے زمینی حقائق اور اُن منفی محرکات پر غور کرنا چاہئے کہ بڑے زمیندار‘ صنعتکار اور تاجروں کی نمائندگی ہر منتخب ایوان میں موجود ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) جو کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 90فیصد سے زیادہ ہیں‘ اُن کی بات کہنے اور اُن کے مفادات کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں! کیا یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ملک کا صدر‘ وزیراعظم اور تمام ججوں کی ماہانہ تنخواہیں ٹیکس سے مستثنیٰ لیکن خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے اگر ایک عدد ماچس بھی خریدیں یا ایک یونٹ بجلی بھی خرچ کریں تو اُنہیں ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ محصولات کی وصولی کے طریقۂ کار (نظام) کو بدلنا ہوگا‘ جس میں زیادہ آمدنی والوں سے کم لیکن کم آمدنی والوں سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے!
خط غربت کے موجودہ عالمی پیمانے کو اگر پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو یہ ’’199 روپے 3 پیسے‘‘ بنتے ہیں یعنی ہر وہ پاکستانی ’’غریب‘‘ ہے جو یومیہ کم و بیش 200 روپے کما رہا ہے اور اِس حساب سے 6ہزار روپے سے کم آمدنی والا غریب کہلائے گا جو سراسر غلط اور پاکستانی معاشرے کے حساب سے بے بنیاد تصور ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کا قومی یا صوبائی بجٹ تشکیل دیتے وقت بھی غریبوں کا شمار اِسی ’خط غربت‘ پر کیا جاتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو اُس کے خاندان کی کفالت کے لحاظ سے شمار کیا جانا چاہئے۔ اگر ہم پاکستان میں کم سے کم مقررہ تنخواہ کہ جسے تین جون کو پیش کئے گئے بجٹ میں ایک ہزار روپے بڑھا کر چودہ ہزار کر دیا گیا ہے اور درحقیقت یہی ’خط غربت‘ ہے!
حکومت کی جانب سے مقرر کی جانے والی کم سے کم تنخواہ کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کی ادائیگی کے لئے حکومت (اپنے ہی حکم پر عمل درآمد) سختی سے نہیں کراتی۔ ایسے نجی اِداروں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں‘ جو وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے کم سے کم تنخواہ کے مطابق ماہانہ ادائیگیاں نہیں کرتے۔ بھلا حکومت ایسے دلاسے دیتی ہی کیوں ہے جبکہ مزدوروں بالخصوص دیہاڑی (یومیہ محنت مزدوری) کرنے والوں کو کم سے کم چودہ یا پندرہ ہزار روپے ماہانہ اُجرت نہیں دلا سکتی!؟
خط غربت میں کمی اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوگی جب تک اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوتے اُور اُس وقت تک طرزحکمرانی پر اُٹھنے والے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی جب تک کہ آمدن میں اضافہ نہ ہو۔ اقتصادی سروے رپورٹ 2015-16ء کے مطابق کپاس کی فصل خراب ہونے سے رواں مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کا مقررہ ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ حکومت اپنے بڑے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اقتصادی سروے اور بجٹ کی روشنی میں سامنے آنے والی صورتحال کسی طرح خوش کن اور اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی ترقی اور صنعت کا پہیہ بنیادی طور پر زرعی سیکٹر سے جڑا ہوا ہے جو بدقسمتی سے شروع دن سے حکومت کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار ہے۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ زراعت سے وابستہ روزگار کا تناسب 80فیصد سے زیادہ ہے لیکن اِس شعبے پر ’حکومتی نظرکرم‘ خاطرخواہ نہیں۔ بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ نے کھاد کی بوری کی قیمت کم کرنے کا اعلان کیا تو اُن کی اطلاع کے لئے عرض میں پاکستان میں کھاد کی جو بوری رعایت کے بعد 1400 روپے میں بطور خاص عنایت دی جارہی وہی بھارت میں 700 روپے فی بوری ہے اور اگر کرنسی کا فرق نکال دیا جائے تو بھارت میں کھاد کی ایک بوری 900 روپے جبکہ پاکستان میں اگر 1400 روپے ہوگی تو اِس میں کمال ہی کیا ہے؟ رواں مالی سال میں زرعی سیکٹر میں ترقی کی منفی 0.19فیصد شرح ہے جو گزشتہ پچیس برسوں میں پہلی بار سامنے آئی ہے۔ کپاس‘ چاول] مکئی اور گندم ہماری اہم نقد آور اجناس ہیں ان کی پیداوار میں کمی سے ملکی برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور اب تو یہ بات خود حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے۔ کیا ہم یہ بات بھی فراموش کر دیں کہ ’خط غربت‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی اکثریت اُن محنت کشوں کی ہے جو کسی نہ کسی ذریعے زراعت سے وابستہ ہیں۔
زرعی سیکٹر پوری طرح فعال ہونا چاہئے۔ کھاد‘ ٹریکٹر‘ پانی‘ تصدیق شدہ اچھے بیج اور دوسری مطلوبہ سہولیات ارزاں نرخوں پر مہیا کرنے کے ساتھ زرعی ماہرین کی رہنمائی فراہم ہونی چاہئے۔ معاشی اہداف کاحصول ممکن بنانے کے لئے بڑے زمینداروں کی آمدن اور چھوٹے کاشتکاروں کو سبسڈی دینا ہوگی۔ زرعی سیکٹر کے علاؤہ جنگلات‘ فشریز‘ لائیو سٹاک بجلی گیس اور تعمیرات کے شعبوں کا احوال بھی ناقابل بیان ہے۔ ہر شعبے میں ترقی اور نمو کی شرح مختلف ہے‘ کہیں کم کہیں زیادہ تاہم اس سے حکومت کی مجموعی کارکردگی پر کوئی اچھا اور مثبت تاثر نہیں اُبھرتا۔ اقتصادی فیصلہ سازوں کو ’خط غربت‘ کے عالمی معیار کا پاکستان پر اطلاق کرتے ہوئے زمینی حقائق اور اُن منفی محرکات پر غور کرنا چاہئے کہ بڑے زمیندار‘ صنعتکار اور تاجروں کی نمائندگی ہر منتخب ایوان میں موجود ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) جو کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 90فیصد سے زیادہ ہیں‘ اُن کی بات کہنے اور اُن کے مفادات کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں! کیا یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ملک کا صدر‘ وزیراعظم اور تمام ججوں کی ماہانہ تنخواہیں ٹیکس سے مستثنیٰ لیکن خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے اگر ایک عدد ماچس بھی خریدیں یا ایک یونٹ بجلی بھی خرچ کریں تو اُنہیں ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ محصولات کی وصولی کے طریقۂ کار (نظام) کو بدلنا ہوگا‘ جس میں زیادہ آمدنی والوں سے کم لیکن کم آمدنی والوں سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے!
![]() |
Poverty line need to be redefine |
No comments:
Post a Comment