Sunday, June 12, 2016

Jun2016: Resources for few!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِستحقاق: احساس محرومی اُور دُکھ!
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شریں مزاری کی تسلی و تشفی نہیں ہو رہی جبکہ اُن کی ذات کو نشانہ بنانے والے توہین آمیز جملوں کو نہ صرف قومی اسمبلی کی کاروائی (ریکارڈ) سے نکال دیا گیا ہے بلکہ اِنتہائی اَہم وفاقی بجٹ اِجلاس میں سپیکر کے نام لکھے خواجہ آصف نے تحریری بیان میں ’غیرمشروط‘ معافی مانگتے ہوئے طویل سیاسی سفر کا حوالہ بھی دیا ہے اور جاتے جاتے یہ بھی کہا ہے کہ ’’تقریر کے دوران لقمہ دینے والوں کو جواب دیا‘ تو یہ غلطی میں شمار نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اِس عمومی منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا استحقاق صرف اراکین اسمبلیوں ہی کے مجروح ہوتے ہیں؟ کیا تعلیم و صحت اُور بنیادی سہولیات بشمول ’’پینے کے پانی‘‘ سے محروم لوگوں کے مسائل کی وجہ بننے والے سرکاری اِداروں کی ناقص کارکردگی توجہ نہیں چاہتی؟

ایبٹ آباد کی یونین کونسل میرپور میں ’آفیسرز کالونی‘ کے علاقے کی وجۂ شہرت سرکاری ملازمین کی ایک رہائشی بستی ہے جس میں مکانات کی تعداد کم وبیش 50 اُور اگر رہائشیوں بشمول ڈرائیورز‘ گھریلو ملازمین و سیکورٹی گارڈز کو بھی شمار کر لیا جائے تو اِس چاردیواری کے اندر رہنے والوں کی کل تعداد کسی بھی طرح 500 افراد سے زیادہ نہیں جن کے لئے پانی کی فراہمی کے لئے ساڑھے چھ سو فٹ گہرے کنویں پر ’’10ہارس پاور‘‘ کی ٹیوب ویل مشین نصب ہے‘ اور اگر اِس مشین سے پانی کے اخراج کی صلاحیت پر بھروسہ کیا جائے تو یہ یومیہ 5سے 6ہزار افراد کی ضروریات (آبنوشی) کے لئے کافی ہے لیکن کیا عجب کہ جون کے اختتام کے قریب ’پانی کی ایسی مصنوعی قلت‘ پیدا کر دی گئی ہو‘ جس کا حل کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑیں۔ موجودہ کنویں میں پانی کی سطح اِس حد تک کم ہو گئی ہے کہ چند گھنٹے چلنے کے بعد مشین کو پانی ہی میسر نہیں ہوتا کہ وہ دے سکے! یہی سبب ہے کہ پچاس گھروں کی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں تھیں تو ایک وفد کی صورت اعلیٰ عہدوں پر فائز مذکورہ کالونی کے رہائشی سرکاری ملازمین متعلقہ ’سی اینڈ ڈبلیو‘ اور ’کمشنر‘ کے دفتر جا پہنچے تاکہ 1: ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کی نگرانی چلنے والے اِس ٹیوب ویل پر نصب موٹر کی طاقت ’دس ہارس پاور‘ سے بڑھائی جائے لیکن اگر زیرزمین پانی کی سطح کم ہونے کا مسئلہ ہے تو ایک عدد نیا ٹیوب ویل کھودا جائے‘ نیا ترسیلی نظام بنایا جائے‘ جس پر لاگت کا تخمینہ کم سے کم بیس سے پچیس لاکھ روپے ہوگا۔ 2: مذکورہ ٹیوب ویل سے سرکاری ملازمین کے بغیر جو مقامی افراد پانی حاصل کر رہے ہیں اُن کے کنکشن کاٹ دیئے جائیں کیونکہ وہ اِس بات کا استحقاق ہی نہیں رکھتے کہ سرکاری ٹیوب ویل سے پانی حاصل کریں! چونکہ بات سرکاری ملازمین کے مفاد کی ہو رہی تھی تو بناء تحقیق حکمنامے کے ذریعے آفیسرز کالونی کی چاردیواری سے متصل انگلیوں پر شمار ہونے والے چند مقامی افراد کو پینے کے پانی کی فراہمی کا سلسلہ منقطع کردیا گیا۔ اگر ’کمشنر ایبٹ آباد‘ انصاف کے تقاضے پورے کرتے‘ اگر متعلقہ تھانے کے نگران پانی کا تقاضا کرنے والوں سے بل ادا کرنے کی رسیدیں اور اُن سے تحریری شکایت درج کرانے کا مطالبہ کرنے کے علاؤہ معاملے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے تشریف لے جاتے تو اُنہیں درج ذیل حقائق سے آگہی ہوتی۔ 1: آفیسرز کالونی سے ملحقہ ’مقامی (لوکل) آبادی‘ میں پینے کے صاف پانی کی قلت اِس بستی کے آباد ہونے سے موجود ہے لیکن پورے علاقے بشمول کالونی کو پانی کی فراہمی کی بجائے حکومتی وسائل ایک کالونی کے اندر چند درجن گھروں پر خرچ کر دیئے گئے جبکہ یہی پیسہ اور یہی ایک ٹیوب ویل پورے علاقے کی ضروریات کے لئے بھی کافی ہو سکتا تھا۔

2: مالی وسائل رکھنے والوں نے جن مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں میں کنویں کھود رکھے ہیں‘ ان کے لئے ’بورنگ‘ سے حاصل ہونے والا پانی انسانی استعمال کے لئے مناسب نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ 200فٹ گہرائی سے حاصل کیا جانے والا پانی ’’بدذائقہ اُور بو‘‘ جیسا مزاج رکھتا ہے۔

3: آفیسرز کالونی سے ملحقہ ایک درجن میں سے صرف دو گلیوں کی کل آبادی بشمول کالونی کی چاردیواری میں اندر رہنے والوں کا شمار کسی بھی طرح ایک ہزار افراد سے کم ہے جبکہ ٹیوب ویل اگر اپنی ایک تہائی استعداد کے مطابق 2 ہزار افراد کی یومیہ ضروریات کی کفالت کر سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹے یا سات دن میں کسی ایک دن پانی اُن لوگوں کو بھی دیا جائے تو سرکاری کالونی کی چاردیواری کے اردگرد پیاسے ہیں اور اپنی ضروریات کے لئے پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں!؟ کیا سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات اُن عوام کے پیسے سے نہیں مل رہیں‘ جن پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا؟

4: سرکاری ٹیوب ویل کے استعمال پر خرچ ہونے والی بجلی اُور ٹیوب ویل کی دیکھ بھال (آن آف) کرنے کے لئے دو نگران بھی چوبیس گھنٹے مقرر ہیں‘ جسے کالونی کے اندر ہی وسیع و عریض رہائش اور سہولیات دی گئیں ہیں لیکن وہ کسی بھی مکین سے پانی کا بل وصول کرنے کا اختیار یا ذمہ داری نہیں رکھتے۔ سالہا سال سے بناء پانی کا بل اَدا کئے پانی استعمال کرنے والے اعلیٰ و اَدنی سرکاری ملازمین نے اِس بات کو اپنا ’استحقاق‘ سمجھ لیا ہے کہ وہ بناء قیمت ادا کئے جتنا چاہے پانی استعمال کریں چاہے وہ کھیتی باڑی کے لئے ہو‘ باغ باغیچوں کو تروتازہ رکھنے کے لئے ہو‘ گاڑیاں اور پالتو جانوروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہو یا پھر گھربار کی جملہ ضروریات اور صفائی ستھرائی کے لئے جس قدر چاہیں پانی استعمال کریں لیکن اِس پانی کی ایک بوند بھی چاردیواری کے باہر کسی کو نہیں ملنی چاہئے۔ مذکورہ کالونی میں ایسے سرکاری ملازمین بھی اپنے سیاسی اثرورسوخ سے رہائش پذیر ہیں جنہیں گھر خالی کرنے کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں لیکن کوئی اُن کی طرف نہیں دیکھ سکتا! (جس کی لاٹھی اُس کی بھینس)

5: استحقاق سے محروم ’آفیسرز کالونی‘ سے ملحقہ آبادی کے رہنے والوں کے لئے یہ منظر انوکھا (سرپرائز) نہیں کہ سرکاری نمبر پلیٹ والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں بڑے بڑے ڈرموں (برتنوں) کے ذریعے چشموں سے پانی لایا جاتا ہے کیونکہ سرکاری آفیسر وہ پانی پینے کے لئے استعمال میں نہیں لاتے جو مذکورہ ٹیوب ویل سے ایک بالائی پانی کے ٹینک میں ذخیرہ کرکے ہمہ وقت فراہم کیا جاتا ہے اور گذشتہ دو دہائیوں سے زائد تعمیر ہونے والے اِس پانی کی ٹینکی کی صفائی کب سے نہیں ہوئی‘ کوئی نہیں جانتا کیونکہ کائی (فنگس) ملے محلول کی بوند بوند کو ترسنے والوں کے لئے یہی پانی کسی نعمت سے کم نہیں اور (الاماشاء اللہ) یہ نعمت (متروکہ) بھی چھین لی گئی ہے!

6: کمشنر ’صاحب بہادر‘ کو تحقیقات کی صورت یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی کہ جو پانی اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کے پالتو جانوروں کو پینے کے لئے نہیں دیا جاتا اُسی پر گزر بسر کرنے والے چند گھرانے ماہ رمضان المبارک میں کس عذاب سے گزر رہے ہیں اور کیا ملحقہ لوکل آبادی کے جن گھروں کو سرکاری پانی میسر تھا‘ اُن کے گھروں میں گاڑیاں‘ باغ باغیچے‘ کھیت یا پالتو جانور ہیں جن کی ضروریات پر اچانک اتنا بے تحاشہ پانی خرچ (ضائع) ہونے لگا ہے کہ قلت ہی پیدا ہو گئی ہے!

7: خاکم بدہن کہانی کا ’حیران کن‘ پہلو یہ بھی ہے کہ ماہ جون کے اِختتام سے قبل سرکاری اِداروں کے نگرانوں کو فکر کھا جاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے حصّے کا ’باقی ماندہ‘ بجٹ یہاں وہاں خرچ کریں! اور اِس سے زیادہ منطقی بات اُور کیا ہوسکتی ہے کہ پینے کے پانی کی قلت دور کر دی جائے۔ اگر کمشنر صاحب زحمت کرتے اُور ’پانی کی مصنوعی قلت‘ کے اسباب و وجوہات کی تہہ میں جاتے تو دیگر اسباب کے ساتھ یہ بات بھی عیاں ہو جاتی کہ کس طرح چند فیصلہ سازوں کو اپنا مالی مفاد عزیز ہے اور وہ سرکاری وسائل پر اپنے صوابدیدی و غیرصوابدیدی اختیارات کا استعمال کتنی ’بے رحمی‘ سے بلاتھکان کر رہے ہیں!‘‘
Water shortage in Officers' colony and role of govt officials & departments

No comments:

Post a Comment