ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
علاقائی سوچیں!
مزاحیہ شاعری کو سنجیدہ موضوعات سے متعارف کرانے والے منفرد لب و لہجہ اور معیار کے شاعر اَنور مسعود نے کہا تھا کہ ’’میرے نزدیک مزاحیہ شاعری وہ ہوتی ہے جسے اگر نچوڑ جائے تو اُس سے آنسو ٹپکیں! اُور میرا مزاح تو مکئی کی طرح ہے کہ جب جلنے لگتی ہے تو مسکرا اُٹھتی ہے! ’مزاح‘ درحقیقت (ایک نکتے کے اضافے سے) ’مزاج‘ ہوتا ہے۔‘‘ معلوم ہوا مزاح ہماری زندگی (مزاج) کا حصّہ ہے لیکن اِس کی موجودگی بسا اوقات محسوس نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ جیسا کہ ناشتے کی میز پر ایک بزرگ کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو کچن سے آئی مانوس آواز نے اُن سے پوچھا ’’بابا آپ کو انڈہ بنا دوں؟‘‘ جواب دیا نہیں بیٹا‘ مجھے انسان ہی رہنے دو!‘‘ اِس طرح کے مکالمے ہمارے اردگرد پھولوں کی طرح بکھرے رہتے ہیں‘ جنہیں چن کر گلدستے میں سجانے کا شوق اور ذوق ہر کسی کے ’مزاج‘ کا حصّہ نہیں ہوتا۔
انور مسعود کو یاد کرنے کی دوسری وجہ اُن کا اپنے معاشرتی روئیوں بشمول رہن سہن کے بارے میں صاف ستھرا اُور سچائی پر مبنی اعتراف ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ والدین و بچوں کی مادری زبانیں مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ والدین پنجابی لیکن بچوں کی مادری زبان اُردو ہوتی ہے اور یوں ایک ہی شخصیت کے اندر دو انسان جب پرورش پاتے ہیں تو کسی ایک زبان کا رنگ اور ثقافت غالب نہیں آتی بلکہ ایسے بچوں کی ساری زندگی اپنی شناخت قول و فعل سے ثابت کرنے ہی میں گزر جاتی ہے۔
35برس تک فارسی زبان کی تدریس کرنے والے انور مسعود کا شمار پاکستان کے چند ایک ایسے دانشوروں میں ہوتا ہے جو ہر بات مذاق میں اُڑا کر (کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے) خود کو ’ہیوی ویٹ‘ ثابت نہیں کرتے لیکن ہمارے ہاں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جو بظاہر ’ہیوی ویٹ‘ ہوتے ہوئے بھی اندر سے خالی ہیں۔ مادری زبان اور آبائی علاقہ کوئی بھی ہو لیکن زبان یا علاقے کی بنیاد پر تعصب نہیں ہونا چاہئے جس کی طرف اشارہ انور مسعود کے ایک شعر سے ملتا ہے کہ ’’ہاں مجھے اُردو‘ پنجابی سے بھی ہے بڑھ کر ہے عزیز۔۔۔ شکر ہے اَنورؔ میری سوچیں علاقائی نہیں!‘‘
اِس قدر تمہید کا مقصد توجہ اِس اَمر کی جانب مبذول کرانا ہے کہ ’فکری و علمی یا عملی ترقی کا عمل عملاً رُک جاتا ہے اگر سوچ کا دائرہ محدود کر دیا جائے۔ ایک خاص اخبار کی ہفتہ وار ادبی سرگرمیوں کے مجموعے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے محترم اُستاد گرامی نے بذریعہ فون کال جن اَمور کی طرف توجہ دلائی اُن میں بار بار ’اَٹک پار‘ سے شاعری اُور نثری ادب کے انتخاب کی پشاور سے ’متواتر اشاعت‘ ہے۔ سوفیصدی جائز گلہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے ادبی منظرنامے کا اِحاطہ کون کرے گا؟
فکروبحث کا یہ نازک مرحلہ اور ایک اہم ضرورت کی نشاندہی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے لیکن ذرا ٹھہریئے چونکہ کسی ایک دل میں دو محبتیں بیک وقت نہیں رہ سکتیں یعنی کہ وہ حق تعالیٰ سے بھی محبت رکھے اور بیک وقت شیطان اور شیطانی قوتوں کا بھی تابع فرمان ہو۔ اِسی طرح ادب سے ذوق رکھنے والوں کے دل بھی حسد‘ نفرت‘ بغض یا عداوت جیسے احساسات سے عاری ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیءں لیکن اگر ایسا نہیں تو اِس کا ذمہ دار کسی بھی طرح ’فرد واحد‘ کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہم جسے ادیب سمجھ رہے ہیں وہ بھروپیا ہو!؟ خیبرپختونخوا کے ادب و ادیبوں کو نظرانداز کرنے کی اصل ذمہ داری آزادی دینے والوں پر عائد ہوتی ہے‘ جنہیں تحریر و تقریر کے معیار‘ خیبرپختونخوا کے ادیبوں کی حق تلفی اُور اپنے وسائل کا ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کرنے کے رجحان کا بہت پہلے نوٹس لے لینا چاہئے تھا تاکہ قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی ادیب (قارئین) کی دل شکنی نہ ہوتی۔ اَدب کے ساتھ جس قدر بے اَدبی کا سلوک آج ہو رہا ہے‘ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو! خود کو ادیب‘ شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کمپیئر اُور نجانے کیا کچھ ثابت کرنے والے کالم نگاری میں اپنی بیوی‘ بہو‘ بیٹے اور خاطر مدارت کرنے والے دوستوں کا ذکر جس خلوص اور ’حسن اتفاق‘ سے متواتر کرتے ہیں‘ اُس سے اُن کی ذہنی حالت‘ زیرمطالعہ مواد اُور ترجیحات عیاں بہرحال ہیں تو پھر گلہ مند ہونے کی بجائے افسوس و تعزیت کے ساتھ ایسے مریضوں کے علاج معالجے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
جہاں تک کسی اِشاعتی ادارے کے کردار کی بات ہے تو اِصلاح کرنے کی لگن (گنجائش) تو بہرحال ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ کسی اخبار کے لئے حتی الوسع غیرجانبدار رہتے ہوئے ہر طبقے کے حقوق کا خیال (ترجمانی) اُسی احتیاط سے کرنی چاہئے‘ جس قدر بزنس (آمدن و حساب کتاب کے گوشوارے)‘ انکم ٹیکس اور ملازمین کے حقوق کی ادائیگی و ترتیب کرتے ہوئے اَپنا زیادہ سے زیادہ منافع برقرار رکھنے کے لئے باریکیوں (اِحتیاط) سے کام لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment