Saturday, August 27, 2016

Aug2016: Inspiration motivation and possibilities for success

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آشنائے ناموس سخن!

جستجو اور تحقیق کا موضوع اگر ’انسان‘ کی ذات ہو تو اِس کا اصطلاحی تعارف ’’حیوانِ ناطق‘‘ کرنے والوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ’’یہ جانور منطقی قوت ادراک رکھتا ہے۔‘‘ منطقی فکر کی صلاحیت رکھتا ہے اور منطقی فکر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ معلوم سے غیرمعلوم (نامعلوم) کو معلوم بنا دیا ہے یعنی معلوم بات سے غیرمعلوم حقیقت کو دریافت کر لیتا ہے۔ چاہے بولے یا بہتر ہے کہ خاموش رہے امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قول بھی اِسی جانب اشارہ ہے کہ ’’اُس وقت کلام کرو‘ جب تمہارا بولنا‘ تمہاری خاموشی سے زیادہ بہتر ہو۔‘‘ 

مثال کے طور پر ہمیں کوئی بات معلوم ہے جیسا کہ ’دو جمع دو‘ برابر ہے ایکس جمع تین۔ اِس کا جواب ’ون (ایک)‘ دینے والوں نے ایک معلوم سے دوسرے نامعلوم کو معلوم (دریافت) کر لیا۔ یہ بات ذہن نشین رکھتے ہوئے انسان ہونے کے امتیازات بھی پیش نظر رہنے چاہیئں کہ پہلا تقاضا (امتیاز) یہ ہے کہ انسان کو ’ناموسِ سخن‘ سے آشنا ہونا چاہئے اور دوسرا لازمی امتیاز کہ اُس کا ہر چھوٹا بڑا عمل ’منطق‘ کی کسوٹی پر پھونک پھونک کر قدم رکھنے (سوچ سمجھ) سے ہٹنے نہ پائے لیکن ہمیں روزمرہ کے مشاہدے میں ’حیوان ناطق‘ ہونے کے امتیازات کو سمجھنے والوں کی اکثریت سے واسطہ پڑتا ہے جنہوں نے خود کو اتنا ہی پابند (صاحب امتیاز) بنا رکھا ہے کہ ہر کام میں اِحتیاط اُور سوچ سمجھ کر بولنے‘ خاموش رہنے یا عمل میں جلدبازی سے کام نہیں لیتے؟ نتیجۂ فکر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ تک لے جاتا ہے جنہوں ے کہا تھا ’’بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔۔۔آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘ (یعنی کمال اِنسانیت کے مرتبہ پر پہنچنا سہل نہیں)۔ 



زندگی کی مشکلات (دشواریوں) کو آسانیوں سے تبدیل کرنے کے ماہر‘ عبدالواحد میر العمروف ’واحد سراج‘ ایک ایسا ہی (ہمہ گیر) ’اِنسان‘ ہے‘ جس کی تجربہ گاہ میں شعوری تحریک کے سانچوں میں خاموشی کو زبان اور درس و تدریس کو (امتحانی ضرورت کے مطابق) نصاب کے تابع رکھتے ہوئے علم کی روح کو نصابی اسباق کی قید سے آزاد کردیا گیا ہے جہاں اُن کے زیرسایہ علم کی طلب رکھنے والے ذہن درختوں کی مانند سایہ اور ثمربار ہو رہے ہیں! یقیناًوہ نئی نسل جو لفظ کی حرمت‘ مطالب‘ معانی اُور حقیقت آشنا ہوگی تو وہی مستقبل میں فکری و شعوری انقلاب برپا کر سکے گی۔ واحد میر کو مختصر نویسی میں بھی ملکہ حاصل ہے جیسا کہ انہوں نے 20الفاظ کی کہانیاں لکھ کر ہم عصروں کو ’زیادہ سوچنے اور کم لکھنے‘ کی ترغیب دی ہے۔ ’’تمہارے چلے جانے سے میں بالکل مفلس ہو گیا ہوں‘ اب میرے پاس دولت اُور شہرت کے سوأ کچھ نہیں!‘‘ اُور اُکساتے ہیں کہ ’’بولتے رہو‘ چپ کیوں ہو گئے ہو؟ ایک سانپ کے لئے زہریلا نہ ہونا کوئی فخر کی بات تھوڑی ہے!‘‘ اُن کے ہاں (اَندھی) تقلید نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کا نصابی اسلوب ہو یا روائتی ہم نصابی سرگرمیاں‘ کوئی ایک فعل بھی سوچا سمجھا‘ ارتقاء پذیری اور بناء تبدیلی دکھائی نہیں دیتا۔ 

مشرقی اقدار‘ روایات اُور سوج بوجھ کو برتر مانتے ہوئے بہرصورت اُور بہرحال ترجیح اُن کی فکر اور جدوجہد کی راہیں متعین کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جاپان کی علمی‘ فنی‘ تکنیکی اور صنعتی شعبوں میں ترقی کا باریک بینی سے مطالعہ اُن کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ اپنے واضح اہداف کی وجہ سے وہ خوفزدہ نہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں محض زندہ رہنا ہی کافی (کمال) نہیں ہوتا بلکہ علم کے محافظوں اور اِس کی نسل در نسل منتقلی کے ذمہ داروں کو کم سے کم اِتنا صاحب بصیرت تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ ’زمانی حیات‘ (ذمہ داریوں) کو مستقبل کے تقاضوں کی روشنی میں دیکھ (پرکھ) سکیں۔ 

’ماڈرن ایج‘ نامی نجی سکولوں کے نیٹ ورک کی انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے واحد میر اُس ’پیغام اقبالؒ ‘ کی عمدہ تشریح بھی ہیں جس میں ’اَپنی ملت پر قیاس اَقوام مغرب سے نہ کر‘ بطورخاص تاکید کے ساتھ سمجھایا گیا ہے۔ واحد میر سے تعارف کے شرف سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس ہوا۔ وہ اُس پہلی نسل کا حصّہ ہیں جس نے ’الیکٹرانک (آن لائن) میسیجنگ‘ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے ہیں‘ لیکن اُنہیں اعصاب (فیصلوں) پر حاوی ہونے نہیں دیا۔ کم لکھنے اُور زیادہ سوچ کے داعی‘ نابیناؤں کے شہر میں خوابوں کا سوداگر ہے۔ وہ اَقوال زریں میں پوشیدہ اَسباق کو عملی زندگی (روزمرہ معمولات کی اصلاح و بیان) سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ثابت کر رہے ہیں کہ ’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی!‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment