ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمامتہذیب کا سفر
’گندھارا تہذیب‘ پر پشتو زبان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب صحافی خالد خان خویشگی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے خیبرپختونخوا اُور ملحقہ خیبرایجنسی کے قبائلی علاقے سمیت خطے کی تاریخ‘ رہن سہن‘ رسم و رواج‘ بول چال اُور تعمیر و ترقی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے ’غار سے گندھارا تہذیب کے مرکز‘ بننے تک کا سفر خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ خالد خان ’ریڈیو فری یورپ‘ المعروف ’مشال ریڈیو‘ سے وابستہ ہیں اُور انہوں نے دیگر تاریخ دانوں کی طرح ماضی کے حقائق اُور واقعات کی ’صحافیانہ اصولوں (غیرجانبداری کی کسوٹی)‘ پر کڑی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُنہیں اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ خالد خان نے اپنی رائے شامل کرنے کی بجائے حقائق کا حقائق سے منطقی موازنہ اور اُن کی رونما ہونے کی ترتیب کا لحاظ رکھا جس سے کتاب نہ صرف تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے لائق مطالعہ بن گئی بلکہ اِس سے مزید تحقیق کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ تاریخ کو ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی یہ کاوش ہرلحاظ سے کامیاب اُور پشتو زبان میں تحریر ہونے والے تاریخ و ادب میں خوبصورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
’گندھارا تہذیب‘ پر پشتو زبان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب صحافی خالد خان خویشگی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے خیبرپختونخوا اُور ملحقہ خیبرایجنسی کے قبائلی علاقے سمیت خطے کی تاریخ‘ رہن سہن‘ رسم و رواج‘ بول چال اُور تعمیر و ترقی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے ’غار سے گندھارا تہذیب کے مرکز‘ بننے تک کا سفر خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ خالد خان ’ریڈیو فری یورپ‘ المعروف ’مشال ریڈیو‘ سے وابستہ ہیں اُور انہوں نے دیگر تاریخ دانوں کی طرح ماضی کے حقائق اُور واقعات کی ’صحافیانہ اصولوں (غیرجانبداری کی کسوٹی)‘ پر کڑی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُنہیں اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ خالد خان نے اپنی رائے شامل کرنے کی بجائے حقائق کا حقائق سے منطقی موازنہ اور اُن کی رونما ہونے کی ترتیب کا لحاظ رکھا جس سے کتاب نہ صرف تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے لائق مطالعہ بن گئی بلکہ اِس سے مزید تحقیق کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ تاریخ کو ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی یہ کاوش ہرلحاظ سے کامیاب اُور پشتو زبان میں تحریر ہونے والے تاریخ و ادب میں خوبصورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
صحافت کا کلی انحصار دوسروں سے بات چیت (انٹرویوز) پر ہوتا ہے اور اپنی اِسی مہارت کا بخوبی استعمال کرتے ’گندھارا‘ تصنیف کے مرکزی خیال اُور موضوع پر تحقیق کے لئے خیبرپختونخوا کے مختلف لوگوں سے بات چیت کو یکجا کیا گیا ہے۔ ’تاریخ دانی‘ کرتے ہوئے اپنی رائے اور تجزیئے کو موضوع پر حاوی نہ ہونے دینے کی یہ عمدہ مثال ہے جسے شعبۂ صحافت کے نصاب میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ صحافت نہ صرف حقائق کے بیان اور اُن کی روشنی میں نامساعد حالات و خطرات سے نمٹنے یا پیشگی تیاری کی تحریک پیدا کرتی ہے بلکہ اِس کے ذریعے تاریخ کے اُن حقائق کا بیان بھی اگر ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل میں یہی سچائی کھوجنے کا مستقل اصول قرار پائے۔ ’گندھارا‘ اکیس ابواب پر مشتمل ہے جس میں تین ہزار سال پرانی اُن غاروں سے شروع ہونے والے ’تہذیب کے سفر‘ کا پیچھا کیا گیا ہے جس کے نشانات و آثار آج بھی مردان‘ تخت بھائی اور سوات کے علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اٹک قلعہ سے لیکر درہ خیبر (خیبرایجنسی) تک پھیلے خطے کی خاک چھانتے ہوئے کتاب میں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ تصاویر کے ذریعے بھی بہت کچھ سمجھانے اور شناخت کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں بالخصوص ’گندھارا تہذیب‘ کے اُن پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے جن کا تذکرہ اِس حوالے سے تحریر کی گئیں دیگر کتابوں میں یا تو نہیں ملتا‘ یا پھر سرسری طور پر اُن کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف خالد خان کو کتاب لکھنے کا ’بنیادی خیال‘ ہی خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی اُس حالیہ اور جدید ترین تحقیق و کھدائی سے ملنے والے نتائج سے آیا‘ جو مردان کے گاؤں ’سانگاؤ‘ میں کی گئی۔ اگرچہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ مردان اور باجوڑ کے علاقوں میں آج سے کم وبیش تین ہزار سال پہلے لوگ غاروں میں رہا کرتے تھے لیکن ’آثار قدیمہ‘ سے لوگوں کے رہن سہن اور اقدار و روایات تک پہنچنے کی ہر کوشش دلچسپ اور نئے حقائق سامنے لاتی ہے۔ گندھارا تہذیب صرف رہن سہن یا بودوباش ہی نہیں بلکہ اس کے علمی و ادبی پہلو بھی ہیں۔
غاروں میں رہنے والے اگر غوروتفکر سے عاری ہوتے اور اگر وہ آج سے زیادہ اپنی اعمال کی اصلاح کرنے کا ذوق و شوق نہ رکھتے تو شہروں تک ترقی کا سفر ممکن ہی نہ ہوتا کیونکہ انسانی تاریخ ’حادثاتی‘ نہیں کہ جس میں سب کچھ خودبخود رونما ہوا ہو بلکہ انسان نے دنیا کو سجانے اور سنوارنے کے لئے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں اور علم ودانش کا استعمال کیا ہے‘ جس پر یقین نہ کرنے والوں کو ’گندھارا‘ نامی پشتو زبان کی اِس کتاب کا کم سے کم ایک مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ خالد خان خویشگی اپنی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے جڑی الگ الگ صحافیانہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر دو سو صفحات پر مشتمل اپنی کتاب کو اُردو‘ اور انگریزی پڑھنے والوں کے لئے پیش کریں گے‘ جن کا ’گندھارا تہذیب‘ کے بارے مطالعہ اب تک ایک خاص زوایئے پر مرکوز رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’تاریخ و آثار قدیمہ‘ کے وسیع و عریض خزانے پوشیدہ ہیں جیسا کہ رحمان ڈھیری میں کی گئی کھدائی سے ملنے والے ’وادئ گومل‘ کے آثار سے پتہ چلا ہے کہ یہ مقام پورے جنوب ایشیاء میں ایسا ’پہلا شہر‘ ہے جسے باقاعدہ منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا۔
المیہ ہے کہ علوم‘ وسائل اور تعمیراتی شعبوں میں آلات و ہنرمند افرادی قوت ہونے کے باوجود بھی ہمارے شہر اور دیہات بے ہنگم انداز میں کچھ اس طرح پھیل رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں مسائل میں الجھ گیا ہے لیکن اگر گندھارا تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو کہیں اُور کی نہیں بلکہ خود ہماری تاریخ گواہ ہے کہ انسانی معاشرے کو کس عمدگی و خوبصورتی سے ترتیب دیا جاتا تھا۔ اگرچہ ’گندھارا‘ میں جو تاریخ اُور واقعات بیان کئے گئے ہیں اُن میں کچھ بھی نیا نہیں اور اُن سب کا ذکر کہیں نہ کہیں دیگر کتب میں بھی ملتا ہے لیکن ’پشتو زبان‘ میں اِس موضوع پر پہلی اور صحافیانہ اصولوں پر مرتب ہونے والی اِس پہلی کتاب کو ضرور پذیرائی ملنی چاہئے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت یا جامعہ پشاور اُور بالخصوص ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ جیسے ادارے اِس پشتو کتاب کو زیادہ بڑے پیمانے پر عام کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔
خالد خان نے صحافت کے ساتھ جس دوسرے کھٹن کام کا بیڑا اُٹھایا ہے اگر وہ اُس کے اگلے مرحلے میں تحقیق کے لئے متعلقہ ماہرین کو رضامند کر لیتے ہیں اور خیبرایجنسی (دوسری سے پانچویں صدی میں خوشاہان حکومت کا حصّہ رہے اِس علاقے) میں پھیلے گندھارا تہذیب کے آثار معلوم کرنے کے لئے کھدائی کی جاتی ہے تو ’گندھارا‘ کو ’نئی جان (جہت) مل جائے گی لیکن قبائلی سرزمین پر ’امن و امان کی بہتری شرط ہے۔‘
گندھارا تہذیب کے موضوع پر لکھا ہوا ہر لفظ ’پشاور شناسی کا ذوق‘ رکھنے والوں کے لئے بھی خاص دلچسپی کا منبہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے سولہ دروازوں میں آباد رہن سہن کا شمار جنوب ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہروں میں ہوتا ہے۔ کاش کہ پشاور کی چاردیواری کے اندر اُور اطراف میں پھیلے اُن آثار قدیمہ کی اہمیت کا خاطرخواہ احساس کر لیا جاتا‘ کاش یہاں کے قدیمی باغات اُور اُن سے جڑے تہذیبی و ترقی کے ایک طویل سفر کو سمجھا جاتا تو زبانوں یا تہذیبوں کے درمیان اجنبیت کا احساس نہ ہوتا اور انسانی ترقی کے لئے اقتصادی و سماجی مسائل سے نمٹنے والوں کو اِسقدر مشکلات درپیش نہ ہوتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment