ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دوست دشمن کی پہچان!
فضائی جہاز رانی کے شعبے میں خبروں اور تجزئیات کی معروف ویب سائٹ ایویشنسٹ (Aviationist) نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مشقوں میں حصہ لینے کے لئے پاکستانی ایف سولہ طیاروں کا پہلا پڑاؤ‘ پرتگال میں امریکی اڈے پر تھا‘ جہاں جہازوں میں تیل بھرنے کے علاؤہ مہمان پائلٹوں کی تواضع کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے محکمۂ دفاع نے ابھی تک پاکستان کے ساتھ جنگی مشقوں کے بارے سرکاری بیان جاری نہیں کیا تاہم رواں برس کے آغاز پر اسرائیل ائرفورس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا تھا کہ دوہزار سولہ میں جنگی مشقوں کے علاؤہ سفارتکاری کے نئے امکانات سے بھی فائدہ اُٹھائے گا۔
تصور کیجئے کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں لیکن اِن دونوں مسلمان ممالک کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مشقوں کے ذریعے قریب لانے کی حکمت عملی کے کتنے ضمنی پہلو ہیں! کیا پاکستان اور اسرائیل ایک دوسرے کی طرف دوستی (سفارتی تعلقات) کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور اِس سلسلے میں فیصلہ بھی ہو چکا ہے جس کا پہلا ہدف اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا ہے اور دانستہ یا غیردانستہ طور پر پاکستان کی ذہین قیادت ایسا کر چکی ہے!
یادش بخیر ’ویکی لیکس‘ کے ذریعے امریکہ کی خفیہ سفارتی خط و کتابت ظاہر ہوئی تھی جس کے ایک مکتوب میں پاکستان فوج اور اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان براہ راست ملاقاتوں کا ذکر موجود تھا۔ جن پر خاموشی اختیار کرنے والوں کا موجودہ طرزعمل (جنگی مشقیں) اِن روابط پر تصدیق کی مہر ثبت کر رہا ہے! اگر اسرائیل سے دوستانہ اور سفارتی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی کوئی پالیسی زیرغور یا اس سلسلے میں عالمی دباؤ ہے تو اِس بارے میں اب تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا ہم دوست و دشمن کی پہچان کرنے میں بھی دوسروں کی رہنمائی کے محتاج ہیں؟
پاکستان فضائیہ کے لڑاکا طیارے اور پائلٹ امریکہ میں ہونے والی ایسی ’جنگی مشقوں‘ کے سفر (عزم) پر ہیں‘ جس میں اُن کا فرضی مقابلہ اسرائیل سے ہونے جا رہا ہے۔ ’ریڈ فلیگ (سرخ جھنڈا)‘ کہلانے والی یہ سالانہ جنگی مشقیں معمول ہیں‘ جن کا مقصد امریکہ کے اتحادی ممالک کی دفاعی صلاحیت اور قابلیت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
رواں ماہ کے آخر میں امریکہ کے صحرائی علاقے ’نواڈا (Nevada) میں ہونے والی مشقوں میں چھ برس بعد گذشتہ برس اسرائیل فضائیہ نے حصہ لیا اور وہ اِس مرتبہ بھی فضاء سے فضاء میں ہونے والی اِن جنگی مشقوں کی میزبانی اور نگرانی کرے گی۔ طریقۂ کار یہ ہوگا کہ پاکستان اور اسرائیل کے جنگی جہازوں کو دو الگ الگ ٹیمیں تصور کرنے کے بعد ایک دوسرے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اِن مشقوں میں اصل گولہ بارود کی جگہ ایسے ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں جن سے طیاروں کو نشانہ بنانے کی صورت وہ تباہ نہیں ہوتے۔ کچھ مشقیں جہازوں کی بجائے مشینوں پر بھی کی جاتی ہیں جن میں فرضی طور پر اُڑان بھری جاتی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق رواں برس (دوہزارسولہ)کے دوران ’چار ایسی جنگی مشقیں‘ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جن میں سے پہلی جنوری و فروری میں ہوئی۔ دوسری فروری مارچ اور تیسری ولائی جبکہ اِس سلسلے کی آخری جنگی مشق پندرہ سے چھبیس اگست ہونے جا رہی ہے۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ماضی میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں ہوئیں جن میں ترکی نے کلیدی کردار ادا کیا تاہم درپردہ سفارتکاری میں پاکستان اور اسرائیل کو ایک دوسرے کے قریب کرنے میں امریکہ پہلی مرتبہ ظاہری طور پر فعال کردار ادا کر رہا ہے اور اس سے یقیناًکچھ نہ کچھ پاکستان کی فضائی حدود کا دفاع کرنے والوں کی صلاحیت میں اضافے کی صورت ثمر ملے گا لیکن زیادہ فائدہ اسرائیل کا ہے جس نے رواں ماہ نہ صرف سعودی عرب سے سفارتی تعلقات کے قیام میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ ماحول میں جنگی مشقوں کے انعقاد پر اسرائیلوں کی نظر میں اُن کی قیادت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل ایک ذمہ دار ملک ہے جو اگرچہ تباہ کن اور مہلکجدید ترین ہتھیاروں کی ایجادات میں اپنا ثانی نہیں رکھتا لیکن اُس کے عزائم خطرناک نہیں۔
دوسری بات امریکہ اِس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے جوہری پروگرام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔
تیسری بات جمہوری اسلامی ایران کو اسرائیل مخالفت اور اُسے ’ناجائز غاصب اُور مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھنے والی شیطانی قوت‘ قرار دینے میں تنہا کرنا ہے‘ تاکہ اگر انقلاب اسلامی ایران کو سرنگوں نہیں کیا جاسکتا تو کم سے کم اُس کے پیغام اور مقصد کے ایک جز سے مسلم دنیا کو لاتعلق تو بنایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت امریکہ اُور اسرائیل ایک تیر سے تین شکار کرنے جا رہے ہیں‘ جس کے لئے ایک طرف پاکستان کو دفاعی امداد کی بحالی کا یقین دلایا جارہا ہے اور دوسری طرف کانگریس کے اراکین پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ امریکہ کی بھارت دوستی‘ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اُور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
قوم کی نظر میں پاکستان کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی تحفظ کے نام پر کسی بھی ایسے ’دلفریب تعلق‘ کی رتی بھر گنجائش نہیں‘ جس کا دامن مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
A group of Israeli air force pilots is supposed to participate in a three-week training exercise in the United States, which will reportedly also include Pakistani pilots.
The Red Flag exercise which will feature the F-16 fighter plane is set to begin in about two weeks in Nevada.United Arab Emirates would also participate in the exercise.
No comments:
Post a Comment