ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: اغیار و عیار اداروں کا مستقبل؟
پاکستان میں (ری پبلک آف) ترکی کے نام سے منسوب تعلیمی اِداروں کی شاخیں مختلف شہروں میں فعال ہیں جن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ارسال کردہ ’اِی میل پیغام‘ کے ذریعے درس و تدریس کے شعبے میں کامیابیوں اور کارکردگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کیونکہ ترک حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر رابطوں میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’ترک سکولوں کو بند کیا جائے‘‘ اگرچہ وجہ تو بیان نہیں کی گئی لیکن سب جانتے ہیں کہ اپنے سیاسی تسلط و مؤقف کو برقرار رکھنے کے لئے ترکی کے موجودہ حکمران کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں اور وہ اِن سکولوں کے تصور اور قیام کے ذمہ دار (جلاوطن) فتح اللہ گولن نامی رہنما کو اپنا ’دشمن‘ تصور کرتے ہیں!
کیا ترکی کی موجودہ حکومت کے مطالبے پر پاکستان کو یہ تعلیمی ادارے بند کردینا چاہئیں جن میں ہزاروں پاکستانی طلباء و طالبات زیر تعلیم اور سینکڑوں کی تعداد میں افراد کو روزگار وابستہ ہے؟ پندرہ جولائی کو ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے ناکام ہونے والی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے آئندہ کسی ایسی بغاوت کے امکانات کو روکنے کے بہت سے اقدام شروع کر رکھے ہیں‘ جن میں فوج‘ عدلیہ‘ انتظامیہ کے افراد کی گرفتاری اور برطرفی کے علاؤہ بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کی بندش‘ جامعات‘ کالجوں‘ طبی مراکز‘ مزدور و طلباء تنظیموں میں مختلف عہدوں پر فائز افراد کو بے رحمی سے برطرف کرنے کے جاری سلسلے میں حزب اختلاف کی اُس جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ جس کی سربراہی پچھتہر سالہ فتح اللہ گولن کے ہاتھ ہے اُور وہ عرصۂ دراز سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گولن نے دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جو اُن کی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ کراچی‘ جیسے مرکزی شہروں کے علاؤہ نسبتاً چھوٹے شہروں میں موجود اٹھائیس سکولوں کی شاخیں (نیٹ ورک) سے وابستہ ملازمین کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ جبکہ پرائمری سے ’اے لیول‘ تک زیرتعلیم طلباء و طالبات کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اِن تعلیمی کو بند کردینا چاہئے‘ جن سے ہزاروں کی تعداد میں ’ترک‘ نہیں بلکہ پاکستانی فائدہ اُٹھا رہے ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ترک صدر جناب رجب طیب اژدگان کے درمیان ’ذاتی دوستانہ‘ تعلقات ہیں اور اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ نواز حکومت اژدگان حکومت کے دباؤ کو نظر انداز نہ کریں لیکن ترک سکولوں کے خلاف کسی بھی قسم کے انتہائی اقدام سے پہلے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور ضروری ہے کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے اور اگر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ عمل کس پاکستانی قانون یا قواعد کے تحت کیا جائے گا؟
ترکی میں انسانی حقوق‘ ذرائع ابلاغ کی آزادی حتیٰ کہ آزادئ اظہار کا معیار دنیا سے مختلف ہے۔ تین ماہ کے لئے نافذ ایمرجنسی (ہنگامی حالت) کے تحت ترک صدر پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی رائے کے بغیر صدارتی حکم کے تحت حکومت کر سکتے ہیں۔ اس دوران کسی بھی شخص کو صرف گرفتار ہی نہیں بلکہ اُس کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط بھی کی جا سکتی ہے مگر ایمرجنسی تو ترکی میں ہے‘ پاکستان میں اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کا ترک حکومت کے ساتھ اس قسم کا کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہے کہ اگر ترکی میں ایمرجنسی لگے گی تو پاکستان پر بھی اس کا یکساں اطلاق ہوگا! پاک ترک اسکولز کا مؤقف ہے کہ ’’انہوں نے پاکستان کے اندر کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے کسی بھی پاکستانی یا بین الاقوامی قانون کی خلاف وزری کی ہے۔‘‘ حکومت پاکستان نے 1995ء سے ترک اسکولز کو کام کرنے اجازت دی تھی جس کی آڑ میں کوئی ایسی نظریاتی فورس بھی تیار نہیں کی جا رہی جو ترکی کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے گی اور نہ ہی یہ سکول کوئی غیر منظور شدہ یا اپنا تیار کردہ نصاب پڑھاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترک سکولز پاکستان اور ترکی کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے اور ایک دوسرے کو زیادہ قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور ایسے سکولوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے بلکہ سعودی عرب‘ ایران اور دیگر مسلم ممالک کو بھی مدعو کیا جائے کہ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کو نظم و ضبط اور جدید طرزتعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے سرمایہ کاری کریں۔ عجب ہے کہ حکومت نظام تعلیم کو عصری تقاضوں کے مطابق نئی دنیاؤں سے آشنا بھی نہیں کرنا چاہتی اُور اُن مواقعوں کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے عوام کو عالمی معیار کی تعلیم تعلیم کا موقع میسر ہے۔
ترک سکول ’’اُو‘‘ اُور ’’اَے لیول‘‘ کے علاؤہ وفاقی تعلیمی (فیڈرل) بورڈ اسلام آباد کے نصاب کے مطابق تعلیم دے رہے ہیں اور اِن سکولز کے سالانہ امتحانات بھی وفاقی تعلیمی بورڈ ہی لیتا ہے۔ جو نصاب پاک ترک سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے وہ بہت سارے دیگر مقامی تعلیمی اداروں میں بھی رائج ہے تو پھر پابندی عائد کرنے کا منطقی و اخلاقی اور قانونی جواز کیا ہے؟
اُمید ہے پاکستان حکومت ترکی کی داخلی سیاست اور جھمیلوں کو پاکستان کے اندر لانے سے گریز کرے گی اور اگر پابندی عائد ہونا ہی ہے تو پھر امریکہ اور برطانیہ کے ناموں سے قائم (اغیار) اداروں پر بھی ہونی چاہئے جن کی تاریخ و ثقافت اور اخلاقی قدریں‘ روایات یا تہذیب کے ہم سے رشتے نہیں لیکن وہ عیار ہیں اور بھاری فیسوں کے عوض ہماری نسلوں کو تعلیم کے نام پر اپنی زبان و ثقافت کا گرویدا بنارہی ہیں!
یقیناًاگر پابندی عائد کی گئی تو طلباء و طالبات کے والدین عدالتوں سے رجوع کریں گے‘ خود سکول کی انتظامیہ بھی قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتی ہے تو اِس سے پیدا مضحکہ خیز صورتحال جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے گا کیونکہ مذہب کی بنیاد پر الگ تشخص کے لئے آزادی کا حصول (قیام پاکستان) منزل نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کے لئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے جس کا خواب اور تعبیر کے لئے قربانیاں دی گئیں۔ پاکستان علم کی طاقتور فصیلوں کے ساتھ اسلام کے مضبوط مرکز (قلعہ) کی صورت پوری امت کا قائد ہو لیکن ہمیں اپنے حقیقی دوست و دشمن کی پہچان اور اُن کے بارے اپنے روئیوں پر نظرثانی سے ابتدأ کرنا ہوگی۔
یقیناًاگر پابندی عائد کی گئی تو طلباء و طالبات کے والدین عدالتوں سے رجوع کریں گے‘ خود سکول کی انتظامیہ بھی قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتی ہے تو اِس سے پیدا مضحکہ خیز صورتحال جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے گا کیونکہ مذہب کی بنیاد پر الگ تشخص کے لئے آزادی کا حصول (قیام پاکستان) منزل نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کے لئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے جس کا خواب اور تعبیر کے لئے قربانیاں دی گئیں۔ پاکستان علم کی طاقتور فصیلوں کے ساتھ اسلام کے مضبوط مرکز (قلعہ) کی صورت پوری امت کا قائد ہو لیکن ہمیں اپنے حقیقی دوست و دشمن کی پہچان اور اُن کے بارے اپنے روئیوں پر نظرثانی سے ابتدأ کرنا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
![]() |
Pak Turk Schools under pressure for political and personal reasons but these or other such schools must be kept away from politics and self interests of the rulers of both the countries. |
No comments:
Post a Comment