Thursday, September 1, 2016

Sept2016: Agriculture & Economy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ترقیاتی اِمکانات!
سوچ مرکوز اُور زرعی شعبے کی خاطرخواہ محرومی کا تذکرہ ہر وقت زیرنظر اور پیش نظر رہے تو ’آہ کی تاثیر اور فغاں کی توقیر‘ بھی رائیگاں دکھائی دے گی۔ پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ اُس کے ہاں زراعت میں چھپے آمدنی کے امکانات (ریونیو پوٹینشلز) کیا کچھ ہیں جن کی بنیاد پر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) مزید قرض دے سکتا ہے! دستاویز میں دی جانے والی تجاویز میں ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستان کے زرعی سیکٹر میں ٹیکس اصلاحات کی سفارش کر دی ہے۔ اگرچہ ہمارے حکمران یہ بات ماننے کو تیار نہیں لیکن ایک عالمی ادارے نے کہا ہے ’’اقتصادی شعبے میں اصلاحات کے نتیجے میں آنے والی حالیہ بہتر پیشرفت کے باوجود پاکستان کا ٹیکس ریونیو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کم (مایوس کن) رہا ہے۔‘‘ 

ریونیو پوٹینشل سے استفادہ کے لئے ’’ٹیکس بیس‘‘ وسیع کرنے‘ انتظامی مشینری بہتر بنانے اور ٹیکس پالیسی کو منطقی بنانے کی بھی تجاویز دی گئی ہیں۔ عجب ہے کہ وہ بات جو ساری دنیا کو علم ہے وہ ہمیں ہی معلوم نہیں۔ پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے اگر نکالا جا سکتا ہے تو اُس کی واحد صورت زرعی پیداوار اور آمدنی کے وسائل پر حسب حال ٹیکس عائد کرنا ہے۔ وہ تمام طبقات جو شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے یا پھر اُنہیں ٹیکس میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔ جیسا کہ زرعی شعبے میں چھوٹے کاشتکاروں اور کسانوں کی بجائے بڑے زمیندار ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں!

سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر ’آئی ایم ایف‘ کو کیوں ’ڈکٹیٹ‘ کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے کس کس شعبے میں اصلاحات لانی چاہیءں۔ آخر یہ کام ہمارے اپنے ماہرین کیوں نہیں کر سکتے یا کیوں نہیں کرنا چاہتے!؟ اگر اصلاحات کی راہ خود سے اختیار کر لی جائے تو ایسی شرمناک صورت حال کا کبھی بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘ جس میں غیر ہمارے لئے ترقی کی راہیں متعین کر رہے ہوں۔ 

کیا یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے حکمرانوں کی توجہ بیرون ملک لیکن بیرون ملک رہنے والی توجہ ہمارے ملک پر جمی ہوئی ہے‘ جو دراصل چاہتے یہ ہیں کہ قومی ترقی کے ساتھ قرضوں کا حجم بھی مسلسل بڑھتا رہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے وسائل بڑھانے کے لئے نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور جاری ٹیکسوں میں اضافے کو وتیرہ بنایا ہوا ہے‘ جس کا بوجھ صرف اور صرف عام آدمی (ہم عوام) پر پڑ رہا ہے! خوشی یا غم کا کوئی موقع ہو گہری سوچ میں ڈوبی پاکستان کی 80فیصد سے زائد آبادی کی مشکلات اُور بڑھ جاتی ہی! ایک ایسا ملک کہ جہاں آمدن پہلے ہی عدم توازن کا شکار ہو‘ جہاں ٹیکس میں اضافے سے خاطرخواہ مفید نتائج برآمد نہ ہو رہے ہوں۔ 

ٹیکسوں کی تعداد اور مقدار کا سارا بوجھ کم آمدن یا متوسط آمدنی والے طبقات کو منتقل کردیا جاتا ہے جو ہر ایک یونٹ بجلی اور موبائل کے دس روپے ریچارج پر بھی ٹیکس ادا کر رہے ہیں! یہ صورتحال کسی طور مثبت نہیں کہی جا سکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے ٹیکسوں میں اضافے کا رجحان کم کیا جائے اور ٹیکس چوروں سے ٹیکسوں کی وصولی کے طریقۂ کار کو زیادہ مؤثر و فعال بنایا جائے۔ منطقی سی بات ہے کہ اگر پہلے سے موجود ٹیکسوں کی وصولی بہتر ہو گی تو نئے ٹیکسوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی‘ زرعی شعبے سے وابستہ طبقات کے خلاف گھیرا تنگ کرنا لازم ہے جو ٹیکسوں کی ادائیگی میں تساہل کا شکار ہیں۔آئی ایم ایف نے زرعی ٹیکس اصلاحات کی سفارش کی ہے‘ اسے مداخلت (ڈکٹیشن) نہ سمجھا جائے بلکہ صائب مشورہ سمجھتے ہوئے ’زرعی ٹیکس‘ کا بلاتاخیر نفاذ کرنے کے ساتھ ازرائے کرم ٹیکسوں میں اضافے سے گریز کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment