ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خاموش عالمی تحریک!
سمارٹ فونز کے ذریعے سماجی رابطہ کاری میں حالیہ اِضافہ ’واٹس ایپ (What's App)‘ کا ہے‘ جہاں ’اِنٹرنیٹ‘ کی بنیاد پر مرتب ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ نے نہ صرف کسی ایک بلکہ بیک وقت دوسو چھپن (256) افراد کے گروپ میں بات چیت یا تبادلۂ خیال کے وسیلے نے ’ایک جہان‘ کو بامعنی و بامقصد مصروفیت سے کچھ اِس طرح روشناس کرایا ہے‘ کہ حال اَحوال یا محض گپ شپ ہی نہیں بلکہ ’واٹس ایپ‘ کی دنیا میں معلومات‘ واقعات اور تازہ ترین خبروں کا فوری تبادلہ یا اُن پر اظہار خیال ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے معمولات کا حصّہ (محبوب مشغلہ یا ضرورت) بن گیا ہے۔
پاکستان کے قریب سبھی نجی ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے اپنے ’واٹس ایپ‘ نمبر مشتہر کر رکھے ہیں‘ جن کے ذریعے ’سٹیزن جرنلزم‘ کو عملی پیش کیا جاتا ہے جو مورننگ شوز سے رات گئے تک خبروں میں ناظرین کی حصّہ داری ہوتی ہے اور وہ اپنے گردوپیش کے مسائل بارے ویڈیوز یا تصاویر ارسال کر سکتے ہیں جنہیں ہر روز خبروں کو مزیدار بنانے کے لئے ضروری تدوین (کانٹ چھانٹ) کر کے نشر کیا جاتا ہے جیسا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانور کے ساتھ ’دس سکینڈ‘ دورانیئے کی ویڈیو یا تصویر (سلیفی) ارسال کرنے کی دعوت کا گرمجوشی سے جواب دیا جا رہا ہے! لیکن ’واٹس ایپ‘ کی مقبولیت اُور اِستعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کا فائدہ اُٹھانے والے ’نیوز چینلز‘ نے خود کو تفریح کی حد تک محدود کر رکھا ہے حالانکہ یہی میڈیم (اسلوب) زیادہ تعمیری و مثبت مقاصد کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے بامقصد اِستفادے کا مطالبہ ’ایک منظم تحریک‘ کی صورت ہونا چاہئے اور ’آن لائن‘ محض وقت گزارنے والوں کی سرگرمیوں کو ذات کے گرد دائرے کی قید سے آزاد کر کے مفاد عامہ کے لئے استعمال کرنے کی عمومی ترغیب دی جا سکتی ہے‘ جو تعلیمی ادارے تدریس کے مراحل میں ’ایک منٹ کی ویڈیو سازی‘ کو ہم نصابی سرگرمیوں کا حصّہ بنائے ہوئے ہیں‘ اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنی کوششیں ’واٹس ایپ‘ جیسے وسائل کے ذریعے عوام و خواص کے لئے پیش (عام) کریں تاکہ نہ صرف ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے دیگر تدریسی اِداروں کا رجحان (نکتۂ نظر) تبدیل ہو‘ بلکہ فوٹوگرافی اُور ویڈیوگرافی کے ذریعے تعلیم کی جانب توجہ مبذول ہو سکے۔ جس کے فوائد میں یہ نتیجہ بھی شامل ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں (افسرشاہی) پر دباؤ بڑھے گا‘ جو سردست اکتفا کئے سمجھ بیٹھے ہیں کہ قانون سازی کرلینے اُور سرکاری اداروں کا بوجھ قومی خزانے پر بڑھا کر اُن کے حصّے کے جملہ فرائض و ذمہ داریاں اَدا ہو گئیں ہیں۔
پاکستان میں سماجی رابطہ کاری کی سب سے مقبول ویب سائٹ ’فیس بک‘ نے اُنیس فروری دو ہزار چودہ کے روز 19 ارب ڈالر سے زائد میں ’واٹس ایپ‘ نامی سمارٹ فونز کے ذریعے تبادلۂ خیال کے ایک اچھوتے تصور کو خریدا‘ جو توقعات سے زیادہ تیزی کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ہو رہا تھا۔ ’واٹس ایپ‘ نے اپنے قیام (2009ء) سے 2014ء کے سفر میں ثابت کیا کہ بڑے اِداروں کی موجودگی میں نت نئے تصورات بھی کامیابی کی ضمانت بن سکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں مدمقابل چھوٹے اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا اُور بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں۔ یہی کچھ ’واٹس ایپ‘ کے ساتھ بھی ہوا‘ جو کاروباری سوچ کا مقابلہ نہ کرسکا۔ بہرحال یہ الگ بحث ہے‘ سردست ’واٹس ایپ‘ کا تعارف مقصود ہے جس کے استفادہ کرنے والوں کا شمار رواں سال (دوہزار سولہ) کے ماۂ فروری تک ’ایک ارب‘ سے زیادہ تھا‘ جو اِس ’’حلقۂ اَرباب ذوق‘‘ کا حصّہ بن چکے ہیں!
’واٹس اَیپ‘ پر زیرگردش کسی مغربی ملک کی ’ویڈیو‘ پاکستان میں بھی دیکھنے والے ملے جلے ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اِس ویڈیو میں ایک ایسے شخص کو دکھایا گیا ہے جو سڑک کے بیچوں بیچ ایک گاڑی کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہے اور اُس کے اِردگرد سے تیزرفتار ٹریفک گزر رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مذکورہ گاڑی کے ڈرائیور نے ’زیبرا کراسنگ‘ کا اِحترام نہ کرتے ہوئے ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر گاڑی ’زیبرا کراسنگ‘ کے عین وسط میں روک لی جس سے بیس یا تیس سیکنڈ تک پیدل سڑک عبور (کراس) کرنے والوں کو مشکلات پیش آئیں۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر وہ شخص گاڑی کے سامنے اُس وقت تک کھڑا رہا جب تک ڈرائیور نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے گاڑی کو واپس پیچھے نہیں کیا اور یہ عمل کئی منٹوں میں مکمل ہوا۔
لب سڑک ’ٹریفک قواعد‘ کا احترام اور اِس بارے عوامی شعور کی عکاسی کرنے والے اِس ایک ویڈیو نے پوری دنیا کو ایک شعوری پیغام دیا ہے کہ قوانین یا قواعد سے مطلوبہ نتائج اُس وقت تک حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتے جب تک معاشرے کا ہر فرد اُس کے اطلاق کے لئے اپنا اپنا کردار اَدا نہیں کرتا۔ کیا ہم دوسروں کی بجائے قوانین اور قواعد کے اطلاق کا عمل اپنی ذات سے شروع کرنا پسند فرمائیں گے؟ کیا ہمیں قانون و قواعد کا احترام اپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے اُن دوسروں کو اِس کی تلقین کرنی چاہئے؟ کیا ہمیں عمومی اور معمولی سمجھی جانے والی قانون شکنی سے دوسروں کو روکنے کے لئے اُس ’خاموش تحریک‘ کا حصّہ بننا چاہئے‘ جو دنیا کو زیادہ مہذب اُور پرامن دیکھنا چاہتی ہے؟ ’’شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا: اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔۔۔ اُس کی وہ جانے اُسے پاس وفا تھا‘ کہ نہ تھا: تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment