ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمامبلدیاتی نظام: روحانی حیات!
خیبرپختونخوا حکومت نے جس گرمجوشی اور بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ ’تین سطحی بلدیاتی نظام‘ متعارف کرایا تھا‘ اُس سے وابستہ منتخب نمائندوں اور عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ نظام کو ناکام بنانے والے عناصر‘ سوچ اور ہتھکنڈوں کا یکساں شاطرانہ انداز سے مقابلہ کیا جائے۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین مثال پشاور کی ضلعی حکومت کی دی جاسکتی ہے جس کے منظور کردہ بجٹ کو ’ضلعی انتظامیہ‘ نے ’غیرقانونی (غیرحقیقی)‘ قرار دینے کے علاؤہ مسترد بھی کر دیا ہے۔ صوبائی محکمۂ خزانہ نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بجٹ کی تیاری کے مراحل اور اِس کی تکمیل و منظوری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں فنانس ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خزانہ) کی جانب سے سیکرٹری بلدیات و دیہی ترقی (لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ) کو تحریر کردہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’’ضلعی ناظم نے بجٹ کی تیاری میں قواعد کی خلاف ورزی کی۔‘‘ مکتوب میں اِس بات کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ ’لوکل گورنمنٹ کمیشن‘ سے رجوع کرتے ہوئے ضلعی ناظم کے خلاف کاروائی کی جائے۔ یاد رہے کہ ضلع کونسل پشاور میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین پہلے ہی ’پشاور ہائی کورٹ‘ سے رجوع کر چکے ہیں جن کا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں بجٹ کی تیاری اور اس کا پیش کرنا درحقیقت قواعد کی خلاف ورزی ہے تاہم اِس سلسلے میں ابھی ’پشاور ہائی کورٹ‘ کا کوئی فیصلہ نہیں آیا۔
خیبرپختونخوا حکومت نے جس گرمجوشی اور بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ ’تین سطحی بلدیاتی نظام‘ متعارف کرایا تھا‘ اُس سے وابستہ منتخب نمائندوں اور عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ نظام کو ناکام بنانے والے عناصر‘ سوچ اور ہتھکنڈوں کا یکساں شاطرانہ انداز سے مقابلہ کیا جائے۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین مثال پشاور کی ضلعی حکومت کی دی جاسکتی ہے جس کے منظور کردہ بجٹ کو ’ضلعی انتظامیہ‘ نے ’غیرقانونی (غیرحقیقی)‘ قرار دینے کے علاؤہ مسترد بھی کر دیا ہے۔ صوبائی محکمۂ خزانہ نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بجٹ کی تیاری کے مراحل اور اِس کی تکمیل و منظوری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں فنانس ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خزانہ) کی جانب سے سیکرٹری بلدیات و دیہی ترقی (لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ) کو تحریر کردہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’’ضلعی ناظم نے بجٹ کی تیاری میں قواعد کی خلاف ورزی کی۔‘‘ مکتوب میں اِس بات کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ ’لوکل گورنمنٹ کمیشن‘ سے رجوع کرتے ہوئے ضلعی ناظم کے خلاف کاروائی کی جائے۔ یاد رہے کہ ضلع کونسل پشاور میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین پہلے ہی ’پشاور ہائی کورٹ‘ سے رجوع کر چکے ہیں جن کا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں بجٹ کی تیاری اور اس کا پیش کرنا درحقیقت قواعد کی خلاف ورزی ہے تاہم اِس سلسلے میں ابھی ’پشاور ہائی کورٹ‘ کا کوئی فیصلہ نہیں آیا۔
بلدیاتی نظام میں کسی بھی ضلع کا ڈپٹی کمشنر وہاں کے بلدیاتی نظام کے مالی امور کا نگران (پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر) ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ بجٹ رولز 2016ء کے مطابق بجٹ کی دستاویزات کی تیاری یا پیش کئے جانے سے قبل اُس سے مشاورت یا اتفاق ضروری ہوتا ہے۔ اِسی طرح ’رولز آف بزنس 2015ء‘ کے تحت ڈپٹی کمشنر صوبائی اسمبلی اور دیگر محکموں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اُور انہی قواعد کو جواز بنا کر ضلعی حکومت کے تیارکردہ و منظور شدہ بجٹ کو غیرقانونی قرار دیا جا رہا ہے!
قوانین اُور قواعد کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کیا ضلع ناظم پشاور اپنے گھر یا کسی ذاتی کاروبار سے ہونے والی آمدنی و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) پیش کرنے جیسے جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ اگر بات پشاور اُور اجتماعی بہبود بطور ترجیح سے متعلق ہے تو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بجٹ کس طرح اور کس نے بنایا ہے بلکہ زور تو اِس بات پر ہونا چاہئے کہ کیا اِس کی تیاری میں پشاور کے مفادات کو پیش نظر رکھا گیا ہے یا نہیں۔ اگر ہم قواعد کی پٹڑی پر ہی چلتے رہے تو ماضی کی طرح تعمیروترقی کے نام پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
صوبائی حکومت کو چاہئے کہ بلدیاتی نظام کی سرپرستی کرے اور افسرشاہی کے خدشات ختم کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے کیونکہ اگر پشاور میں ترقی کا عمل بلدیاتی نظام آنے کے بعد بھی شروع نہ ہوسکا تو خسارہ صوبائی حکومت کا ہوگا جس سے وابستہ توقعات پہلے ہی پوری نہیں ہو رہیں اور رہی سہی کسر بلدیاتی نظام کو مفلوج بنا کر پوری کرنے کی سازش کی جا رہی ہے! بلدیاتی نظام کی ظاہری باطنی اور روحانی حیات کے علاؤہ دیکھ بھال بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب تک یہ نظام پوری طرح اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اُس وقت تک اِسے ہر قسم کی ’آفات وبلیات‘ سے محفوظ رکھنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment