ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
دیانت و صداقت: دوغلے معیار!
وفاقی کابینہ نے بیرون ملک سرمایہ کاری کے انکشافات (پانامہ دستاویزات) کے بارے تحقیقات کے حوالے سے ’’پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2016ء‘‘ کی منظوری دی ہے‘ جو ’’انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ء‘‘ کا متبادل ہوگا اُور اِس کے تحت تحقیقاتی کمیشن کتنا بااختیار ہو گا‘ یا کس قدر تحقیقات کے حوالے سے بااختیار ہوگا اُور جسے چاہے طلب کر سکے گا اِس بارے میں زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان میں قوانین کی روح کے مطابق اگر بلاامتیاز عمل درآمد ہوتا تو کسی نئے قانون کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے پانامہ پیپرز (انکشافات) کے معاملے پر وفاقی کابینہ میں منظور ’انکوائری کمیشن ایکٹ مسترد کرتے ہوئے ’’ بااختیار اعلیٰ عدالتی کمیشن‘‘ کے قیام کے لئے ’پرائیویٹ ممبر‘ بل سینٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ بل کا عنوان ’’دی پانامہ پیپرز انکوائری بل2016ء رکھا گیا ہے۔اپوزیشن کے اس بل پر پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (قائداعظم)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے ارکان نے دستخط کئے ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردی‘ لاقانونیت اور توانائی جیسے بحرانوں کا سامنا ہے مگر بدعنوانی (کرپشن) کے ناسور کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ توانائی بحران اور کرپشن پاکستان پیپلزپارٹی کی 2013ء کے عام انتخابات میں بدترین شکست کا سبب بنی۔ اچھی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کے قائدین کرپشن کے خاتمے کا پرچم بلند کررہے ہیں۔ پاکستان میں پانامہ پیپرز کے بعد پیدا ہونے والی گرمجوشی ’ہلکی آنچ‘ کے باعث خاطرخواہ نتائج سے محروم ہے‘ سینکڑوں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے باوجود نہ تو گرفتاریاں ہوئیں اور نہ ہی قوم کے سامنے حقائق آ سکے! تیرہ مئی کو چیف جسٹس سپرئم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے پانامہ لیکس پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے وفاقی وزارت قانون کے پانچ اپریل کو بھجوائے گئے مراسلہ کا جواب دیتے ہوئے حکومتی ٹرمز آف ریفرنس پر کمیشن کی تشکیل سے معذرت کر لی اور باور کرایا کہ حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق تحقیقات میں کئی سال لگ جائیں گے۔ جب تک فریقین کے مابین ٹی او آرز طے (متفقہ) نہیں ہو جاتے‘ اس وقت تک جوڈیشل کمیشن قائم نہیں کیا جا سکتا! جوابی مراسلہ میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لئے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ باقاعدہ قانون سازی کرکے تحقیقات کے متقاضی انفرادی ناموں‘ خاندانوں اور گروپوں کی فہرست مہیا کر دی جائے تو سپرئم کورٹ جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر غور کر سکتی ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے بھیجی گئی ٹی او آرز میں تحقیقات کے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن نے مل کر ٹی او آر طے کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی لیکن بے سود معاملہ اب تک لٹکا ہوا ہے۔ الزام تراشی سے بھی معاملہ آگے بڑھ کر دشنام طرازی تک پہنچ گیا۔ اس دوران مزید آف شور کمپنیوں‘ قرضوں کی معافی اور کرپشن کے کیسز سامنے آئے۔ جن میں کم و بیش تمام حکومتی اتحادی اور مخالف پارٹیوں کی کئی سرکردہ شخصیات کے ساتھ سرمایہ کاروں اور بیوروکریٹس کے نام بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کے بیرون ممالک کھربوں ڈالر کے اثاثے موجود ہیں۔ پانامہ لیکس کے سامنے آنے پر یہ دولت پاکستان لائے جانے کی ایک امید ضرور بندھی ہے۔
تحریک انصاف پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے سڑکوں پر ہے۔ پیپلزپارٹی کبھی اس کے ساتھ اور کبھی الگ کھڑی نظر آتی ہے۔ کرپشن کا حساب ہوگا تو پیپلزپارٹی کے لوگ شاید دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ تعداد میں قابل احتساب قرار پائیں۔ تحریک انصاف میں بھی کئی اصحاب قابل احتساب ہیں‘کوئی بھی پارٹی کرپشن سے کلی طور پر مبرا نہیں ہے۔ اسی لئے غیرجانبدارانہ احتساب کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے۔ حزب اختلاف وزیراعظم کے احتساب پر مصر ہے تو مسلم لیگ (نواز) اور اس کے اتحادی وزیراعظم کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ ایسے ’ٹی او آرز‘ سامنے لے آئی کہ سپرئم کورٹ کو بھی کہنا پڑا کہ تحقیقات میں برسوں لگ جائیں گے۔ پارلیمنٹ کو قوم کی مجموعی دانش کا ادارہ سمجھا جاتا ہے مگر پارلیمٹیرین کی آج دانش بھی بکھری ہوئی اور بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت اپنی مرضی کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینا چاہتی ہے۔
اپوزیشن یہی کچھ سینٹ میں کررہی ہے۔ گویا حتمی طور پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے ’’پلان‘‘ میں کامیاب نہیں ہوں گی اس کا یقیناًفریقین کو ادراک ہے۔ شاید دونوں کا مفاد معاملے کو طول دینے اور عوام کے سامنے سرخرو ہونے میں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن انتہاؤں پر رہی تو احتساب کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ احتساب پر پارلیمنٹیرین کا رویہ غیرسنجیدہ اور جمہوریت اور قومی مفاد کے منافی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کو اپنے اپنے روئیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ مزید ہڑتالوں اور احتجاج سے عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے پارلیمانی ذرائع اور سنجیدگی سے بیرون ملک پڑی پاکستانیوں کی ناجائز دولت پاکستان لانے کی عملی کوششیں کی جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment