ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
فہم کے دائرے!
شعوری زندگی کی بنیاد ’شک کے ریگزار‘ پر استوار نہیں کی جاسکتی بلکہ اِس کے لئے ’یقین کا گلزار‘ چاہئے ہوتا ہے‘ جہاں ہرطرف حسن اخلاق اور خوش گمانی کے پھول کھلے ہوں۔ ماہر تعمیر‘ ماہر فلکیات‘ ماہر حیاتیات (بائیولوجی)‘ ماہر ادویات (کیمسٹ)‘ ماہر ریاضی دان‘ ماہر فلسفہ (منطق شناس)‘ طبیعیات (مادہ اور توانائی کے خواص سے متعلق علوم)‘ ماہر سائنسدان‘ ماہرِ علم الکلام (قرآن و سنت)‘ مرجع تقلید (آیت اللہ العظمیٰ) خواجہ نصیر الدین طوسی (محمد بن محمد بن الحسن‘ پیدائش:18فروری 1201ء: طوس ایران۔ وفات:26جون 1274ء الکاظمیہ۔ عراق) کئی علوم کے موجد بھی تھے جنہوں نے خلأ کے مطالعہ سے دنیا کو روشناس کرایا اُور ایسی پہلی رصدگاہ (Observatory) قائم کی‘ جہاں ’اَجرام فلکی‘ کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ جناب طوسی علم الاخلاق اور علم الاعرفان میں بھی کامل تھے۔
فہم کے دائرے!
شعوری زندگی کی بنیاد ’شک کے ریگزار‘ پر استوار نہیں کی جاسکتی بلکہ اِس کے لئے ’یقین کا گلزار‘ چاہئے ہوتا ہے‘ جہاں ہرطرف حسن اخلاق اور خوش گمانی کے پھول کھلے ہوں۔ ماہر تعمیر‘ ماہر فلکیات‘ ماہر حیاتیات (بائیولوجی)‘ ماہر ادویات (کیمسٹ)‘ ماہر ریاضی دان‘ ماہر فلسفہ (منطق شناس)‘ طبیعیات (مادہ اور توانائی کے خواص سے متعلق علوم)‘ ماہر سائنسدان‘ ماہرِ علم الکلام (قرآن و سنت)‘ مرجع تقلید (آیت اللہ العظمیٰ) خواجہ نصیر الدین طوسی (محمد بن محمد بن الحسن‘ پیدائش:18فروری 1201ء: طوس ایران۔ وفات:26جون 1274ء الکاظمیہ۔ عراق) کئی علوم کے موجد بھی تھے جنہوں نے خلأ کے مطالعہ سے دنیا کو روشناس کرایا اُور ایسی پہلی رصدگاہ (Observatory) قائم کی‘ جہاں ’اَجرام فلکی‘ کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ جناب طوسی علم الاخلاق اور علم الاعرفان میں بھی کامل تھے۔
فارسی زبان میں ’علم الاخلاق‘ کے نام سے اُن کی کتاب موجود ہے جس کے ایک باب کا خلاصہ ہے کہ ’’جس طرح ایک انسان میں کچھ خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں‘ اسی طرح اقوام کا بھی قومی مزاج ہوتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ’’ علم الاخلاق‘‘ اُس علم کا نام ہے جس میں اُن طریقوں پر بحث ہوتی ہے کہ کس طرح انفرادی و اجتماعی حیثیت میں خوبیوں کو پروان چڑھایا جائے۔ دیگر شعبوں میں تحقیق کے علاؤہ جناب طوسی نے اقوام کی خصوصیات بھی زیربحث لائیں۔مثال کے طور پر انہوں نے عربوں‘ ترکوں‘ رومیوں وغیرہ کے علاؤہ برصغیر کی رہنے والی اقوام کی عادات کے حوالے بھی نتیجۂ خیال پیش کیا۔ اُنہوں نے اجتماعی و قومی ذہانت کی بھی تعریف کی لیکن اِس مرحلۂ فکر پر اُن کی ایک تحقیق کا بیان مقصود ہے جس میں اقوام میں پائی جانے والی اجتماعی کمزوریوں کا ذکر کیا گیا اور برصغیر پاک و ہند (موجودہ بھارت و پاکستان) کے بارے میں اُنہوں نے جن چند خامیوں کا ذکر کیا اُس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اِس خطے کے رہنے والوں کی اکثریت کے مزاج میں ’’ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی خاص عادت پائی جاتی ہے۔‘‘
جناب طوسی نے جس طرح اقوام عالم کا اخلاقی منظرنامہ پیش کیا‘ اُسی طرح مختصر کہانی نویسی کے ماہر‘ روس کے اَدیب انتن چیخوف (پیدائش 29جنوری 1860ء روس۔ وفات 15جنوری 1904ء جرمنی) کے ڈراموں اور اِستعاروں سے بھرپور مختصر افسانے بھی لائق توجہ ہیں‘ جنہوں نے کہا تھا ’’زندگی کی مشکلات کا سامنا ہر شخص کو کسی نہ کسی مرحلے پر کرنا پڑتا ہے چاہے وہ کتنا ہی عقلمند یا بیوقوف ہو اور یہ مشکلات تو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہوتی ہیں جو ہمیں اپنا آپ منوانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔‘‘
چیخوف سے یہ بھی تو منقول ہے کہ ’’اگر کسی ڈرامے کے آغاز (ایکٹ اوّل) میں دیوار پر ایک بندوق لٹکی ہوئی ہے تو اسے پردہ گرنے تک چل جانا چاہئے یا پھر اسے سرے سے وہاں ہونا ہی نہیں چاہئے اور اگر ہر بندوق کا اُدھر موجود ہونا ضروری ہے تو پھر بامعنی ہونا بھی لازم ہے‘ حادثاتی طور پر کچھ شامل نہیں ہوتا اور فالتو اجزأ جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ زندگی پر اتنا ضبط ہو کہ آپ کی مرضی کے بغیر کچھ بھی غیرضروری شامل نہ ہو سکے لیکن سوال یہ ہے کہ جناب طوسی یا چیخوف کو کیوں پڑھا یا اُن کے کہے کو کیوں سمجھا جائے؟ اُن کے بتائے ہوئے اخلاقی اسباق کو کیوں مشعل راہ بنایا جائے؟
اگر ایسا کیا جائے تو یقیناًہمارے فہم کا دائرہ وسیع ہوگا‘ مطالعے کے لطف کے ساتھ عمل کے لئے تحریک یعنی بیداری حاصل ہوگی۔ یہ تحاریک ہمیں ہر قسم کے رشتے جوڑنے پر اُبھارتی ہیں۔ کیوں کہ جب ہم فہم کی مسلسل کوشش کے ذریعے نقاط ملاتے ہیں تو ’’ہم معانی‘‘ اور ’’حسن‘‘ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ کوشش ہی زندگی کی کہانی کو اس کی شکل دیتی ہے اور اس کے مواد کو ایک سلسلے میں پروتی ہے۔ تشکیل اور معنی کی تشکیل کا کام ہمیں اندر سے مالا مال کر دیتا ہے۔ کیوں کہ منطقی دلائل ہمیں زندگی کی اُن جہتوں پر غور وفکر کی جانب واپس لے جاتے ہیں جو پہلی نظر میں ہماری توجہ حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سوال سے نبرد آزما ہونے میں ہی ہم بھرپور زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ سوال کرنے‘ کسی سوچ کی تحریک کا حصہ بننے اور عملی زندگی سنوارنے کے لئے شعوری کوششیں کامیابی کی راہیں متعین کرتی ہیں لیکن سفر (مطالعہ) شرط (ضروری) ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment