Tuesday, September 6, 2016

Sept2016: Peshawar Metro & Security


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خطرات‘ اندیشے اُور ضرورت!

پشاور کے لئے ’تیزرفتار‘ مسافر بس سروس (ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم) فراہم کرنے کا وعدہ پورا ہونے کے قریب لیکن اِس کی راہ میں حائل ایک ایسی رکاوٹ فیصلہ سازوں کے لئے مشکل بنی کھڑی دکھائی دیتی ہے‘ جس کا تعلق ’اَمن و امان‘ کی صورتحال سے بتایا جاتا ہے اور اِس اِمکان کے بارے غور‘ زیرغور ہے کہ کس طرح پشاور کی حدود میں کم سے کم ’10مقامات‘ پر قائم پولیس اور فوج کی جانچ پڑتال (سیکورٹی چیک پوسٹس) کی موجودگی میں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ تیزرفتاری سے چلائی جائے! جو اِس پوری مشق کا حاصل اُور مرکزی خیال ہے! 

فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ ’’اگر ’ریپیڈ بس سروس‘ کے ذریعے چیک پوسٹس بناء جانچ پڑتال عبور کی جاتی ہیں تو اِس سے پشاور کی سیکورٹی پر سمجھوتہ ہوگا‘ جو زیادہ بڑے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے!‘‘
تیزرفتار بس سروس پر عملی کام کے آغاز سے قبل ’ڈیزائن (ترتیب و تشکیل)‘ کے حوالے سے مشاورتی عمل میں ’150صفحات‘ کی رپورٹ مرتب کی گئی ہے‘ جس میں سیکورٹی کے حوالے سے ’لاحق خطرات‘ کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیکورٹی سے متعلق خطرات اُور اندیشے اُس ضرورت پر حاوی ہو جائیں گے‘ جس نے پشاور میں سفر کو ڈراونے خواب جیسا بنا رکھا ہے۔ 

سیکورٹی مسئلے سے نمٹنے کے لئے کئی مرحلہ وار تجربات کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ پہلے مرحلے میں صرف تعلیمی اداروں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کو سفری سہولیات فراہم کی جائیں‘ جن کے پاس قومی شناختی کارڈ یا تعلیمی اداروں کی تصدیق شدہ اسناد حسب روٹ فراہم کی گئیں ہوں اور ایسے تمام مسافر ’اِی ٹیگ‘ کے خودکار الیکٹرانک نظام کا استعمال کرتے ہوئے بس میں سوار ہو سکیں۔ بس اسٹیشنوں پر دستی سامان اور جامہ تلاشی کے لئے بھی الیکٹرانک آلات نصب کئے جاسکتے ہیں جن سے سیکورٹی اداروں کا کام آسان ہو سکتا ہے اور بجائے یہ سمجھنا کہ ’تیزرفتار بس سروس‘ سے پشاور کی سیکورٹی کے لئے خطرات پیدا ہوں گے درحقیقت اِس بس سروس کے ذریعے موجود خطرات میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے کیونکہ بسوں میں سفر کرنے والوں کو نہ صرف سوار ہوتے وقت بلکہ ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک پہنچنے کے دوران بھی نظر میں رکھنا ممکن ہوگا جو اپنی جگہ ایک اہم ’ڈیٹا‘ ہے۔ 


تیزرفتار بس سروس کی بجائے ’اِنٹرسٹی ریل گاڑی‘ متعارف کرانے میں کیا امر مانع ہے جبکہ ریل کی پٹڑی پہلے ہی سے موجود ہے‘ جس سے اگر (وفاق اور صوبے کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے) استفادہ نہ بھی کیا جائے تو ’رنگ روڈ‘ کو مکمل کرکے ’سٹی سرکلر ریلوے اتھارٹی‘ کے ذریعے آمدروفت کا ایک ایسا ذریعہ متعارف کرایا جا سکتا ہے جو صرف پشاور ہی نہیں بلکہ قریبی دیگر اضلاع کو بھی مرکزی شہر سے ملانے اور خیبرپختونخوا میں ایک ایسے بین الاضلاعی ’ٹرانسپورٹ نیٹ ورک‘ کی داغ بیل ڈال سکتا ہے جو زیادہ ماحول دوست اور قابل بھروسہ و تیزرفتار ہوسکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ہمسایہ ممالک چین اور بھارت کی مثالیں موجود ہیں جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود ’تہران میٹرو‘ کے نام سے ایک ایسا زیرزمین نظام قائم کر رکھا ہے‘ جس سے یومیہ 30لاکھ مسافر استفادہ کرتے ہیں۔

 170کلومیٹر پر پھیلے نیٹ ورک کو سال 2028ء تک 430کلومیٹر تک پھیلا دیا جائے گا‘ جس کی تکمیل کے بعد اِس کی 9 ریل پیٹڑیاں ہوں گی۔ سردست یہ سروس صبح پانچ سے رات گیارہ بجے تک فعال رہتی ہے۔ تصور کیجئے کہ تہران کی ضلعی حکومت نے اپنے وسائل اور ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے کیا کچھ حاصل نہیں کیا؟ 

تصور کیجئے کہ جب ہر مسافر پاکستانی پندرہ روپے کے مساوی کرایہ ادا کر رہا ہو اور اوسطاً تیس لاکھ مسافروں سے ہونے والی کم وبیش پانچ کروڑ یومیہ آمدنی کتنے دیگر مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے! تہران میٹرو کی ایک اُور خاص بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ اِس کے آخری ڈبے خواتین کے لئے مخصوص رکھے گئے تھے جبکہ خواتین مردوں والے ڈبوں میں بھی سفر کر رہی ہیں اور اگر چاہتیں تو اُن کے لئے ٹرین کے آخر میں الگ سے بوگیاں موجود تھیں۔ 

ہمارے فیصلہ سازوں نے اپنی معذوری تسلیم کرتے ہوئے اگر فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ ’ٹیکنالوجی‘ درآمد کی جائے گی اور اپنے وسائل و تحقیق سے ترقی نہیں کی جائے گی تو کم سے کم ایسی توسیع و تعمیر تو بہرحال ممکن ہے‘ جو زیادہ ماحول دوست اُور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ پائیدار ثابت ہو۔ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ’بس سروس‘ کے قیام کو ملتوی کرنے کی بجائے ’’فساد کی جڑ‘‘ پر وار کیوں نہیں کیا جاتا‘ جس کی تاریکی ہر خوبی پر سایہ کئے ہوئے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment