ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید اُور خوف!
اَیوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد میں ’کانگو‘ سے ممکنہ متاثرہ ’چار‘ مریضوں میں سے ایک کی ہلاکت جبکہ تین کا علاج معالجہ جاری ہے اور ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ’کانگو وائرس‘ سے ممکنہ متاثرہ تین مشتبہ افراد کے خون کے نمونے ’نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ (اسلام آباد) کو پہلے ہی ارسال ہو چکے ہیں‘ جہاں سے نتائج آنے کے بعد تکنیکی طور پر اُن کے کانگو سے متاثر ہونے کی تصدیق یا نفی ہو سکے گی۔ ڈاکٹروں کے مطابق اگر بخار کی شدت عمومی ادویات سے کم نہ ہو اور جسم پر سرخ رنگ کے دھبے کم یا زیادہ تعداد میں ظاہر ہونے لگیں تو ایسے مریضوں کو ’مشتبہ‘ قرار دے کر اُن کے خون کے نمونے مرکزی قومی تجزیہ گاہ کو ارسال کر دیئے جاتے ہیں‘ جہاں سے نتائج آنے میں دن اور بسااوقات ہفتوں وقت بھی لگ جاتا ہے! علاؤہ ازیں کانگو ہی کی ایک شکل ڈینگی سے متاثرہ 35زیرعلاج مریضوں کے لئے ایبٹ آباد کے مرکزی ہسپتال میں خصوصی انتظامات الگ سے کئے گئے ہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر ایک بحث کو سمیٹ لیا جائے تو بہتر ہوگا کہ ہر ضلع کی سطح پر جدید سہولیات والی خون کی تجزیہ گاہیں ہونی چاہیءں کانگو یا دیگر جرثوموں والی بیماریوں کے لئے الگ علاج گاہیں نہیں تو خصوصی وارڈز (عمارتیں) تعمیر ہونی چاہیءں‘ تاکہ دوران علاج بیماریوں کے ممکنہ پھیلنے کا امکان نہ رہے۔
خیبرپختونخوا کے کم وبیش سبھی اضلاع میں ’کانگو‘ کے حوالے سے کسی نہ کسی درجے کا خوف و ہراس ضرور پایا جاتا ہے حالانکہ نہ تو یہ بیماری لاعلاج ہے اور نہ ہی اِس سے متاثرہ مریض پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیں۔ پورے ملک کی بات کی جائے تو سال 1979ء سے لیکر 2016ء تک کانگو سے متاثرہ 279 مریض ہلاک ہو چکے ہیں چونکہ یہ مرض جانوروں سے انسانوں میں باآسانی منتقل ہو سکتا ہے اِس لئے عیدالاضحی کے موقع پر عوام الناس اِس خوف کا شکار ہیں کہ اگر وہ قربانی کے لئے جانور لائیں گے تو اُس سے انہیں کانگو لاحق ہوسکتا ہے حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے بالخصوص دیہی علاقوں کی نوے فیصد سے زائد آبادی کا وجود ہی ختم ہو چکا ہوتا جہاں مال مویشیوں سے سارا سال براہ راست تعلق رکھا جاتا ہے اُور جانور کسی گھرانے کے افراد جیسا ہی بودوباش کا حصّہ ہوتے ہیں۔ درحقیقت عید الاضحی کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے خوف پھیلایا گیا تو زرعی موضوعات پر لکھنے اُور بولنے والے صحافیوں کی کمی کے باعث غلط اطلاعات پھیلتی چلی گئیں حالانکہ چند حفاظتی تدابیر کے ذریعے ’کانگو‘ یا جانوروں سے اِنسانوں میں منتقل ہونے والی دیگر کئی ایک بیماریوں سے باآسانی محفوظ رہنا ممکن ہے۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین ویٹ ڈاکٹرز (سلوتری یا بیطاری) اِس سلسلے میں مشورہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی منڈی جانے والوں کو گہرے رنگوں کی بجائے ہلکے رنگ والے کپڑے پہننے چاہیں تاکہ اُن کے بدن پر چپکے ہوئے کیڑے مکوڑے اگر اُن کے کپڑوں پر لگ جائیں تو فوری نشاندہی ہو سکے۔ یاد رکھیں کہ کانگو وائرس (جرثومہ) جانوروں سے انسان میں کئی طریقوں سے منتقل ہو سکتا ہے۔ منتقلی کا پہلا ذریعہ چچری (Tick) کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ چچری کو عام زبان میں لیک یا قراد یا جُوں کہا جاتا ہے جو ’2 پروں‘ والے حشرات الارض کے گروہ کا حصّہ ہے اُور یہ خون چوسنے کے عمل میں خاص جرثومہ (وائرس) انسان یا جانور میں منتقل کردیتا ہے جس کی اگر بروقت تشخیص و مناسب علاج نہ کیا جائے تو اِس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔ کریمین ہیمریجک کانگو فیور (Crimean Congo Hemorrhagic Fever) نامی بخار کی چار قسمیں ہیں۔ ڈینگی‘ ایبولا‘ لیسا اور ریفٹ ویلی۔ اگر کوئی شخص کانگو سے متاثر ہو جائے تو اُس کے جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ تیز بخار ہوتا ہے اور سرخ دھبوں سے خون رسنے لگتا ہے۔ یہی خون رسنے کی وجہ سے متاثرہ شخص کی موت واقع ہو سکتی ہے لیکن صرف گائے بھیڑ بکری‘ بکرے‘ بھینس یا اونٹ کے جسم بالخصوص کان کے پچھلے حصے پر چپکے ہوئی چچریاں ہی نہیں بلکہ کانگو سے متاثرہ مریض بھی اِس جرثومے (وائرس) کو دیگر صحت مند انسانوں یا جانوروں میں منتقل کرسکتا ہے۔
قربانی کے لئے جانور خریدنے منڈی یا بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر جانے والوں کو ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے کے علاؤہ احتیاطی تدبیر کے طور پر ربڑ کے دستانے اور منہ پر ماسک پہن سکتے ہیں۔ اِن تین احتیاطی تدابیر کے بعد کانگو وائرس سے متاثر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کر دیا گیا ہے پھر بھی حفظ ماتقدم کے طور پر والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو مال مویشیوں کی منڈیوں میں ہمراہ نہ لے جائیں۔ کسی اَن دیکھے جرثومے (بیماری) کے خوف سے قربانی کی گہماگہمی اور اہتمام قطعی طور پر متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ احتیاط شرط ہے لیکن جس انداز میں کانگو وائرس کے بارے خوف عام ہے‘ حقیقت میں یہ بیماری اتنے بڑی پیمانے پر عام نہیں ہوئی کہ پریشانی میں اِس سال قربانی ہی قربان کر دی جائے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment