ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بچوں کا اغوأ: داخلی و خارجی خطرات!
قانون نافذ کرنے والے بھی ’بچوں کے اَغوأ یا گمشدگی‘ کے حوالے سے پائے جانے والے عمومی خوف و ہراس (صورتحال) سے یکساں فکرمند ہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار نے ’ذرائع ابلاغ کے نمائندوں‘ سے ورچوئل بات چیت کی نشست کا اہتمام کیا‘ جس میں بچوں کی حفاظت سے متعلق چند احتیاطی تدابیر کا تبادلہ بھی کیا گیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر اِس بات کا تعین (سوچ بچار) کر لیا جائے کہ بچے یا بچوں کو کن کن جگہوں پر زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ان کی حفاظت کے لئے انتظامات طے کرنا آسانی سے ممکن ہو سکتا ہے۔
پہلے مرحلے پر ’’ داخلی (گھر کے اندر) خطرات‘‘ ہیں۔ اگر بچے یا بچوں کو کسی بھی دورانیئے کے لئے گھر پر اکیلا چھوڑا جاتا ہے‘ تو یہ وہ بنیادی اِقدامات ہیں جو آپ کو ضرور کرنے چاہیءں۔ بچوں کو آپ کی غیر موجودگی میں دروازے اندر سے بند کرنے کی تربیت و تاکید ہونی چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر کے داخلی دروازے کو ایسے تالے لگا کر محفوظ کیا جائے‘ جو کسی ہنگامی (ایمرجنسی) صورتحال میں چابی کے ذریعے باہر سے کھولا جا سکے۔ اگر بچے گھر میں اکیلے ہوں تو اُنہیں داخلی دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے‘ یہ تاکید آپ کے گھر موجود ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ایک جیسی ہونی چاہئے۔ تربیت کے لئے دروازہ کھولنے کے وقت بچوں کو ہمراہ رکھیں۔ بچوں کو واضح طور پر بتایا جائے کہ وہ کس کس کے لئے دروازہ کھول سکتے ہیں اور کس کے لئے نہیں۔ اس بات کا فیصلہ صرف آپ کر سکتے ہیں کہ آپ کو کن لوگوں کی اپنے بچوں کے پاس موجودگی پر اعتبار ہے۔
والدین اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹیوٹر‘ ملازمین‘ دور کے رشتے داروں وغیرہ کے گھر اچھی طرح معلوم ہوں۔ اس کے علاؤہ ان تمام افراد سے رابطہ فہرستیں اور تفصیلات اکٹھی ہونی چاہیءں جو بچوں کی موجودگی میں باقاعدگی سے گھر آتے ہیں۔ بچے کے دوستوں کو جاننا بھی ضروری ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کے والدین سے رابطہ کیا جا سکے۔ اس بات کے قواعد بنائیں کہ گھر میں والدین کی اجازت کے بغیر کون کون نہیں آ سکتا یا آسکتا ہے۔ جن ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہو‘ اُن کی تفصیلات بھی الگ سے اکٹھی رکھیں کیونکہ وہ گھر کے بھیدی ہوتے ہیں۔ مالی وسائل رکھنے والے والدین گھروں کو ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کے ذریعے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک تالے بھی مارکیٹ میں عام دستیاب ہیں‘ جو غلط پاس ورڈ ڈالنے پر آپ کو الرٹ بھیج دیں گے یا الارم بجا دیں گے۔ یہاں پڑوسی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس لئے انہیں گھر پر نظر رکھنے کا کہنا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
بچوں کو گھر سے باہر (بیرونی) خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے معاشرے میں اگر لامحدود قرار دیئے جائیں تو غلط نہیں ہوگا۔ سبزہ زاروں (پارکس)‘ شاپنگ مالز‘ بازار (مارکیٹ) اور تعلیمی اداروں میں جو ایک بات مشترک ہے‘ وہ یہ ہے کہ اِن مقامات پر ’اجنبی ہجوم‘ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہر لمحے بچے پر نظر رکھنا ممکن نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر تاک میں رہنے کی وجہ سے واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو سکول لانے لیجانے والی پبلک ٹرانسپورٹ بھی ایک مستقل خطرہ ہے جب تک ہر ضلعی حکومت اپنی اپنی حدود میں خصوصی رجسٹریشن کے ذریعے ’سکول ٹرانسپورٹ سروس‘ سے وابستہ ہونے والے ڈرائیوروں کو اجازت نامے (لائسینس) اور گاڑیوں کی شناخت الگ رنگ یا الگ رنگ کی نمبرپلیٹ سے نہیں کرتی۔ سکول یا دیگر تدریسی اداروں کو آمدروفت زیادہ محفوظ بنانے میں منتخب بلدیاتی نمائندے اور ضلعی حکومتیں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
والدین یا سرپرست بچوں کی حفاظت سے متعلق خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے‘ جنہیں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کرنا چاہئے اور اگر کسی کے پاس کوئی تجویز ہے تو متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔ بچے کی حفاظت پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی ’اجتماعی (مربوط) عمل‘ ہی سے ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment