ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تبدیلی کے تقاضے!
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ماضی جو بھی رہا ہو لیکن حال میں اُن کے ہاں پائے جانے والے ’امانت و دیانت کے تصورات‘ جس قدر واضح (فکری طور پر بلند) ہیں‘ اُن کا موازنہ کسی بھی دوسرے تیسرے یا چوتھے سیاسی رہنما کی عملی زندگی (قول و فعل) سے کیا جائے تو جو ایک حقیقت عیاں ہو گی وہ یہ ہے کہ ۔۔۔ ’’جب تک پاکستان مالی و انتظامی بدعنوانیوں (علت‘ وجوہات‘ محرک اُور آلۂ کاروں) سے چھٹکارہ نہیں حاصل کرلیتا اُس وقت تک صرف معاشی و اقتصادی شعبوں ہی میں نہیں بلکہ دہشت گردی و لاقانونیت کے خلاف جدوجہد (فوجی و غیرفوج مہمات) میں کامیابی ممکن نہیں۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ پانامہ پیپرز کے ذریعے بیرون ملک سرمایہ کاری کے انکشافات کے بعد قوم (متوسط و غریب ہم عوام) کی نظریں عمران خان پر لگی ہوئی ہیں تو غلط نہیں ہوگا لیکن کیا عمران خان خود سے وابستہ توقعات پر پورا اُترے گا؟
خیبرپختونخوا میں حکومت کے قیام‘ بدعنوانوں کے بلاامتیاز احتساب‘ سرکاری محکموں کی کارکردگی مثالی بنانے اور بالخصوص طرزحکمرانی میں انقلابی تبدیلیوں کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے پر جس ’سست روی‘ سے کام جاری ہے‘ اُس کی وجہ سے قریب تھا کہ ’تحریک انصاف‘ کی ساکھ بارے عمومی تاثر اندرون و بیرون ملک تنقید کا باعث بنتا لیکن لگتا ہے کہ مقدر عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے جنہیں ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت ایک ایسا نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے! جس نے ’تحریک انصاف‘ میں نئی جان ڈال دی ہے!
پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی سطح پر ’داخلی اِصلاحات‘ کے عمل (مشکل دور) سے گزر رہی ہے۔ یہی حال پیپلزپارٹی کا بھی ہے اور یہ دونوں جماعتیں مل کر ایک ایسی گروہ کو للکار رہی ہیں جو اپنی طاقت کے مرکز (پنجاب) میں پاؤں جمائے ہوئے ہے اور چھوٹے صوبوں کی تشکیل کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کا ہنر جاتا ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں ’کرامات‘ کی توقع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر افتخار حسین شاہ سے وابستہ کر لی گئیں ہیں‘ جن کی پارٹی میں شمولیت سے داخلی محاذ پر ’سرد جنگ‘ اور ’سکوت‘ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ شاہ صاحب کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ اِن دنوں ’اصلاحاتی تجاویز (لائحہ عمل)‘ ترتیب دینے میں مصروف ہیں‘ جس کے بعد بڑے پیمانے پر نہ صرف صوبائی بلکہ تحریک کی مرکزی فیصلہ سازی پر مسلط اجارہ داری کو دھچکا لگے گا۔ مہم جوئی جاری رکھتے ہوئے ملک کی سیاسی تاریخ کے طویل ترین ’ایک سو چھبیس دن‘ کی احتجاج میں چھپے اسباق تلاش کرنا اپنی جگہ اہم ضرورت تھی جو پوری ہو رہی ہے لیکن ’تحریک انصاف‘ کو نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلے متبادل حکمراں دیکھنے کی خواہشمند طاقتیں اِس مرتبہ زیادہ منظم لیکن جذبات کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لے رہی ہیں!
سیاست میں جذبات کے اظہار لیکن اظہار کے لئے (موزوں) وقت کی اہمیت ہوتی ہے۔ اِس کھیل کا یا تو کوئی ایمپائر نہیں ہوتا یا پھر ایمپائر قانون کے اندھے ہونے کی وجہ سے ’جنگل کا بادشاہ‘ ہوتا ہے‘ جس پر کسی تھرڈ ایمپائر (ریاستی ادارے) کا قانونی‘ اخلاقی یا ریاستی دباؤ معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اُسے اِس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ تماشائی (عوام) اُس کے بارے میں کیا سوچیں گے!
آٹھ ستمبر کے روز قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کے بارے میں عمران خان کا یہ بیان کہ وہ اُنہیں ’اسپیکر‘ تسلیم نہیں کرتے تو کیا اِس سے برسرزمین حقائق تبدیل ہو جائیں گے؟ بیان دینے سے پہلے اگر سوچ لیا جاتا کہ سردار ایاز صادق بدستور اسپیکر رہیں گے تو ایسے الفاظ کس لئے بولے جاتے ہیں‘ جن کی روح نہیں ہوتی؟ طعنہ زنوں کی بات میں وزن ہے کہ ’’پارلیمانی نظام صرف اسمبلی کی رکنیت‘ تنخواہیں اور مراعات کا نام نہیں ہوتا‘‘ اگر اِس جملے کو مکمل کیا جائے تو قانون سازی کے منصب پر فائز ہونے اپنی جگہ اعزاز لیکن’’اِس میں نظریات کو دلائل کے ساتھ اسمبلی پلیٹ فارم پر مشتہر کرکے قوم کی جانب اُچھالا جاتا ہے اور اِس نظام میں سیاسی جماعت کے کارکنوں سے زیادہ ’ہم خیالوں‘ کی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘ اپنے مؤقف کا بیج ’بنجر زمین (ذرائع ابلاغ کے نام نہاد تجزیہ کاروں)‘ میں بونے کا فائدہ نہیں جب تک کہ کاشت کے وقت اور لوازمات کا خیال نہ رکھا جائے۔ اُمید ہے کہ اب تک عمران خان سیاست اُور کھیل کے درمیان اُس باریک فرق کی تہہ داریوں کو سمجھ نہیں تو بھانپ ضرور گئے ہوں گے جو سراب جیسا فریب رکھتی ہے۔
سردست قوم کے اعتماد اور توقعات کا مزید امتحان نہ لیا جائے کیونکہ یقینی امر ہے کہ ’پے در پے احتجاج‘ سے اُس ٹولے کو تو قطعی پریشان نہیں کیا جاسکتا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی کے ذریعے قومی وسائل و اختیارات کو ’زیرِ دست‘ کئے ہوئے ہے۔ ’کھیل میں سیاست‘ اُور ’سیاست میں کھیل‘ جیسی کیفیات کو سنجیدہ بنا کر پیش کرنے والی ’تحریک انصاف‘ کے لئے قومی منظرنامے میں جاری اِننگ (اپنی باری) کا یہ شاید ’آخری اُوور‘ (موقع) ہے! پاکستان زندہ باد ہے اور سیاست کا کھیل بھی جاری رہے گا‘ ٹیمیں کھلاڑی اُور کھیل کے اَصول بدلتے رہیں گے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment