ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شکست و ریخت!
تحریک طالبان پاکستان نے اگست 2016ء میں بنائے گئے اپنے نئے ’ٹوئٹر اکاونٹ (@umarmediattp016)‘ سے پیغام رسانی شروع کر دی ہے۔ 9 ستمبر کی صبح نماز فجر اور یقیناًوظائف سے فارغ ہونے کے بعد umar.media.ttp@gmail.comسے اِی میل پیغام (فرمان) جاری ہوتا ہے۔ آسان اور جامع الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے انگریزی زبان میں دہشت گرد وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کوئی کہہ رہا ہے کہ ’’تحریک طالبان کے خصوصی دستے‘ نے پشاور اُور کراچی میں پولیس پر ’کامیابی سے حملے‘ کئے ہیں!‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر عسکریت پسند شہروں اور دیہی علاقوں میں بھیس بدل کر روپوش ہیں اور گوریلا حملوں کے ذریعے دنیا کی 13ویں بڑی‘ منظم اُور پیشہ ور فوج کو مستقل چیلنج کئے ہوئے ہیں‘ تو آخر کیا وجہ ہے کہ اُن کا زمینی مقابلہ تو ممکن نہیں لیکن اُن کی فنڈنگ‘ افرادی قوت اور اُن کے سہولت کار ’نیٹ ورکس‘ کو ختم نہیں کیا جا سکتا؟
انٹرنیٹ وسائل کا آزادانہ اور بناء خوف و خطر استعمال کرنے والوں کی ’آن لائن سرگرمیاں‘ نہ روکنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف پورا ملک اور اُس کے لامحدود وسائل ہونے کے باوجود ’اب تک‘ اُن ’اکاونٹس‘ اُور ’کیمونیکشن ونگ (رابطہ کار افرادی قوت)‘ کی صلاحیت (دیدہ دلیری) پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا جو زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟
ہمارے خفیہ ادارے بشمول جدید آلات اور ماہرین سے لیس ’سائبر ونگ‘ آخر کب اپنی موجودگی کا ثبوت دیں گے؟ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں تک اگر اُن کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا اُور ہمارے سیکورٹی اداروں کے ’سائبر ونگز‘ نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں تو کم سے کم اُن ’اِی میل‘ ٹوئٹر اُور ’فیس بک‘ اکاونٹس کو بلاک (block) تو کیا جاسکتا ہے‘ جو پاکستان دشمن پراپگنڈا یا دہشت گردوں کے ’کارناموں‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں؟
پہلی ذمہ داری: سیکورٹی حکام یہ کہہ کر اپنے فرائض سے ’گلوخلاصی‘ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کی سرزمین اور مواصلاتی سہولیات (انٹرنیٹ) کا استعمال ہو رہا ہے۔ اگر طورخم سرحد پر گیٹ کی تعمیر سے آمدورفت کو کنٹرول (باقاعدہ و باضابطہ) بنایا جاسکتا ہے تو ’آن لائن ٹریفک‘ کی ’باریک بیں نظر اور مؤثر نگرانی‘ انٹرنیٹ کی واجبی سی معلومات رکھنے والے بھی کرسکتے ہیں۔
دوسری ذمہ داری: ہر خاص و عام ہوشیار رہے کہ وہ اپنے گھروں میں لگائے ہوئے ’ہاٹ سپاٹس (وائی فائی انٹرنیٹ)‘ کسی بھی صورت نہ تو ’بناء پاس ورڈز‘ رہنے دیں اور نہ ہی اہل خانہ کے علاؤہ کسی بھی دوسرے شخص سے ایسی معلولات کا تبادلہ کریں جو ’حساس‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر گھر میں مہمان آئیں اور وائی فائی پاس ورڈ مانگیں تو یقین کرلیں کے اُن کی رخصتی کے فوراً بعد یا پہلی فرصت میں ’وائی فائی پاس ورڈ‘ تبدیل کردیا جائے۔ وائی فائی پاس ورڈ کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے چھ ہدایات ذہن نشین کر لیں۔ 1: اپنی ڈیوائیس ’ڈبلیو پی اے انسکپرشن (WPA2)‘ پر سیٹ کریں۔ 2: پاس ورڈ کسی بھی صورت 10ہندسوں سے کم نہ ہو۔ 3: پاس ورڈ میں الفاظ ہندسے اور خصوصی کریکٹرز کو شامل کریں۔ 4: سٹینڈرڈ ’ایس ایس آئی ڈی SSID‘ کا استعمال نہ کریں۔ 5: اپنی ذاتی معلومات SSID پر نہ رکھیں۔ 6: وائی فائی ڈیوائس کی لہریں (ایکسیس) کم سے کم یعنی اپنے گھر تک محدود رکھنے کے لئے اینٹینا ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے جو جدید آلات میں باآسانی ممکن ہے۔ کھلے عام ’وائی فائی ہاٹ سپاٹ‘ رکھنے کی وجہ سے انٹرنیٹ صارفین نہ صرف جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ نادانستہ طور پر ایک ایسے مستقل خطرے سے بھی دوچار ہیں‘ جس کی سنگینی کا انہیں ادراک نہیں۔ عموماً ہوٹلوں‘ کیفے اور دیگر پبلک مقامات پر ’اوپن وائی فائی‘ رکھا جاتا ہے‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال انٹرنیٹ کو دیکھتے ہوئے اِس سہولت پر اُس وقت تک پابندی عائد ہونی چاہئے جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔ جعلی یا بناء شناخت موبائل فون کنکشنز آج بھی موجود ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مالی فائدے کے لئے پورے ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
موجودہ ہنگامی حالات کا تقاضا ہے کہ ’پری پیڈ‘ اضافی خدمات کی بجائے پاکستان میں صرف اور صرف ’پوسٹ پیڈ موبائل کنکشنز‘ دیئے جائیں‘ تاکہ بلنگ کے ذریعے صارف کی رہائش کے مقام کا تعین ہوسکے۔
افغانستان یا دیگر ممالک کے موبائل فون کنکشنز کی ’رومنگ (Roaming)‘ معاہدے بھی اُس وقت تک معطل رکھے جائیں‘ جب تک سیکورٹی حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے۔
پاکستان حالت جنگ سے گزر رہا ہے‘ جس میں عسکریت پسندوں کے مواصلاتی رابطے نہ صرف دہشت گردی کی منظم و مربوط کاروائیوں کو ممکن بنا رہے ہیں بلکہ اِنہی کے ذریعے وہ جس کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت وہ ہمارے سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا بیان ہیں۔ کیا ہم نے دل سے شکست تسلیم کر لی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment