EDITED VERSION
ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نگہبانی کے تقاضے!
فریب نظر ہے کہ ’سائبر کرائمز بل‘ کے نام سے عجلت میں کی گئی قانون سازی ’اطمینان قلب‘ کے لئے تو کافی قرار دی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیکورٹی انتظامات کی طرح اِس نئی قانون سازی سے بھی منظم جرائم اور دہشت گردی پر یقین رکھنے والے حلقے خوفزدہ نہیں۔ دردسر ہے تو ’انٹرنیٹ‘ کے اُس عام صارف کا ہے جس کی اکثریت معلومات اور تفریح سے جڑے خطرات سے آگاہ (خاطرخواہ تعلیم یافتہ) نہیں۔ اِس منظرنامے میں ٹیکنالوجی کی طرف مائل عام صارف پریشان ضرور ہے‘ کیونکہ ’ورچوئل وسائل‘ کی اِخلاقیات اور آداب کی خلاف ورزی اگر ’واجب سزا‘ قرار دے دی گئی ہے تو ’خوف و دہشت کی علامت بننے والے منظم جرائم پیشہ عناصر‘ ٹیکنالوجی ہی کے ذریعے خود کو ’روپوش‘ کئے ہوئے ہیں‘ جنہیں دشوار گزار قبائلی علاقوں‘ غاروں یا افغانستان کے میدانی علاقوں میں تلاش کرنے سے زیادہ کھٹن ایسے عناصر کا ’آن لائن سراغ‘ لگانا اُور اُن کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جاری ’ضرب عضب‘ میں کامیابیوں کا شمار کرنے والوں کو اِنٹرنیٹ وسائل کا آزادانہ اور بناء خوف و خطر استعمال کرنے والوں کی ’آن لائن سرگرمیاں‘ پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جس کے بغیر بات (مقصدیت) ادھوری رہے گی۔ ایک طرف پورا ملک اور اُس کے لامحدود وسائل ہونے کے باوجود ’اب تک‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال ’اکاونٹس‘ اُور ’کیمونیکشن ونگ (رابطہ کار افرادی قوت)‘ کی صلاحیت (دیدہ دلیری) ختم نہیں کی جاسکی‘ جو قومی زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟ ہمارے خفیہ ادارے بشمول جدید آلات اور ماہرین سے لیس ’سائبر ونگ‘ آخر کب اپنی قابلیت کی بنیاد پر داد وصول کریں گے؟ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں تک اگر اُن کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا اُور ہمارے سیکورٹی اداروں کے ’سائبر ونگز‘ نے نفسیاتی طور پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں تو کم سے کم اُن تمام ’اِی میل‘ ٹوئٹر اُور ’فیس بک‘ اکاونٹس کو بلاک (block) تو ضرور کیا جاسکتا ہے‘ جن کے ذریعے پاکستان دشمنی یا دہشت گرد ’کارناموں‘ کو مشتہر کیا جاتا ہے؟ بیس نکاتی ’نیشنل ایکشن پلان‘ اِس سلسلے میں رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ ملک کی جغرافیائی اور سائبر سرحدوں کی نگہبانی کے الگ الگ تقاضے اور ذمہ داریاں ہیں‘ جنہیں شعوری توجہ کی ضرورت ہے۔
پہلی ذمہ داری: سیکورٹی حکام یہ کہہ کر اپنے فرائض سے ’گلوخلاصی‘ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کی سرزمین اور مواصلاتی سہولیات (انٹرنیٹ) کا استعمال ہو رہا ہے۔ اگر طورخم سرحد پر گیٹ کی تعمیر سے آمدورفت کو کنٹرول (باقاعدہ و باضابطہ) بنایا جاسکتا ہے تو انٹرنیٹ کے چینلز سے پاکستان درآمد و برآمد ہونے والی ٹریفک (ڈیٹا) پر نظر کیوں نہیں رکھی جا سکتی؟ ’آن لائن ٹریفک‘ کی ’باریک بیں نظر اور مؤثر نگرانی‘ انٹرنیٹ کی واجبی سی معلومات رکھنے والے بھی اگر کرسکتے ہیں‘ تو مقامی جامعات کے طلباء و طالبات کو تحقیقی پراجیکٹس دیئے جاسکتے ہیں یا فوری نتائج کے لئے ٹیکنالوجی درآمد بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ قومی سلامتی سے زیادہ کوئی دوسری شے قیمتی نہیں۔
دوسری ذمہ داری: ہر خاص و عام ہوشیار رہے کہ وہ اپنے گھروں میں لگائے ہوئے ’ہاٹ سپاٹس (وائی فائی انٹرنیٹ)‘ کسی بھی صورت نہ تو ’بناء پاس ورڈز‘ رہنے دیں اور نہ ہی اہل خانہ کے علاؤہ کسی بھی دوسرے شخص سے ایسی معلولات کا تبادلہ کریں جو ’حساس‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر گھر میں مہمان آئیں اور وائی فائی پاس ورڈ مانگیں تو یقین کرلیں کے اُن کی رخصتی کے فوراً بعد یا پہلی فرصت میں ’وائی فائی پاس ورڈ‘ تبدیل کردیا جائے۔ وائی فائی پاس ورڈ کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے چھ ہدایات ذہن نشین کر لیں۔ 1: اپنی ڈیوائیس ’ڈبلیو پی اے انسکپرشن (WPA2)‘ پر سیٹ کریں۔ 2: پاس ورڈ کسی بھی صورت 10ہندسوں سے کم نہ ہو۔ 3: پاس ورڈ میں الفاظ ہندسے اور خصوصی کریکٹرز کو شامل کریں۔ 4: سٹینڈرڈ ’ایس ایس آئی ڈی SSID‘ کا استعمال نہ کریں۔ 5: اپنی ذاتی معلومات SSID پر نہ رکھیں۔ 6: وائی فائی ڈیوائس کی لہریں (ایکسیس) کم سے کم یعنی اپنے گھر تک محدود رکھنے کے لئے اینٹینا ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے جو جدید آلات میں باآسانی ممکن ہے۔ کھلے عام ’وائی فائی ہاٹ سپاٹ‘ رکھنے کی وجہ سے انٹرنیٹ صارفین نہ صرف جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ نادانستہ طور پر ایک ایسے مستقل خطرے سے بھی دوچار ہیں‘ جس کی سنگینی کا انہیں ادراک نہیں۔ عموماً ہوٹلوں‘ کیفے اور دیگر پبلک مقامات پر ’اوپن وائی فائی‘ رکھا جاتا ہے‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال انٹرنیٹ کو دیکھتے ہوئے اِس سہولت پر اُس وقت تک پابندی عائد ہونی چاہئے جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔ جعلی یا بناء شناخت موبائل فون کنکشنز آج بھی موجود ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مالی فائدے کے لئے پورے ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ موجودہ ہنگامی حالات کا تقاضا ہے کہ ’پری پیڈ‘ اضافی خدمات کی بجائے پاکستان میں صرف اور صرف ’پوسٹ پیڈ موبائل کنکشنز‘ دیئے جائیں‘ تاکہ بلنگ کے ذریعے صارف کی رہائش کے مقام کا تعین ہوسکے۔ افغانستان یا دیگر ممالک کے موبائل فون کنکشنز کی ’رومنگ (Roaming)‘ معاہدے بھی اُس وقت تک معطل رکھے جائیں‘ جب تک سیکورٹی حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان حالت جنگ سے گزر رہا ہے‘ جس میں عسکریت پسندوں کے مواصلاتی رابطے نہ صرف دہشت گردی کی منظم و مربوط کاروائیوں کو ممکن بنا رہے ہیں بلکہ اِنہی کے ذریعے وہ جس کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت وہ ہمارے سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا بیان ہیں۔ کیا ہم نے دل سے شکست تسلیم کر لی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment