Sunday, September 11, 2016

Sept2016: Global Warming & Warning ignored!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
موسمیاتی مزاج: تجاہل عارفانہ!


’موسمیاتی تبدیلی‘ سے متاثرہ دنیا کے پہلے دس ممالک کی صف میں شامل ہونا کسی بھی صورت ’’اعزاز‘‘ کی بات نہیں اور نہ ہی یہ اِس قدر معمولی یا عمومی پیشرفت ہے کہ اس پر فکرمندی کا اظہار نہ کیا جائے لیکن کیا ہمارے فیصلہ سازوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں جبکہ اُن کے ماتھے پر شکنیں اور لب و لہجے سے تشویش عیاں نہیں اور وہ معاملے کی سنگینی کا خاطرخواہ احساس و ادراک نہیں کر رہے! پوری قوم کی توجہ سیاسی مخالفت اور بیان بازی پر مرکوز کرنے والوں سے کوئی نہیں پوچھ رہا کہ جس کام کے لئے آپ جناب منتخب ہوئے‘ وزارتوں کے قلمدان‘ اختیارات اور مراعات حاصل کیں‘ آخر ان عہدوں سے جڑی ذمہ داریاں کس کی ذمہ داری ہیں!؟ ایوان بالا (سینیٹ) میں پیش کردہ ماحول سے متعلق ’عالمی رپورٹ‘ پورے پاکستان کی توجہات کا مرکز ہونی چاہئے جس میں برسرزمین حقائق کے بیان پر مبنی پیشنگوئی کی گئی ہے کہ ’’موجودہ صدی کے آخر تک ’عالمی درجہ حرارت‘ کم سے کم چار سینٹی گریڈ تک بڑھنے کا خدشہ ہے (اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو) اِس سے سیلاب‘ غیرمعمولی شدت کے طوفان‘ خشک سالی اور گرمی میں اضافہ ہو گا۔‘‘ توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے والے پاکستان جیسے ملک کے لئے ’موسمیاتی مزاج‘ میں اِس انتہاء کے ردوبدل کو معمولی یا معمول نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اگر موسمی درجۂ حرارت تبدیل ہونے کی وجہ سے ماہرین جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اُن کا ظہور ہو جاتا ہے تو (خدانخواستہ) پاکستان کا شمار ماحول سے متاثرہ ممالک کی فہرست کے ابتدائی تین ممالک میں ہونے لگے گا! کیا ہم اُس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب غلطیاں درست کرنے کا موقع (مہلت) بھی ہاتھ سے جاتا رہے؟


وزارت موسمیات کی جاری کردہ رپورٹ کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں‘ جو سردست موسمیاتی تبدیلیوں سے لاتعلق تجاہل عارفانہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہمارے ہاں خطیر سرمائے سے ماحول اُور سیاحت کی ترقی کے نام پر درخت کاٹے جاتے ہیں! اُور پھر اُنہی علاقوں میں نئے درخت لگانے پر اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں! گلیات (ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں) کی خوبصورتی کے لئے ’خاص منصوبہ (حکمت عملی)‘ فخریہ انداز میں پیش کی گئی ہے حالانکہ ’گلیات‘ کی اپنی خوبصورتی میں کسی ایسے اضافے کی قطعی کوئی ضرورت حاجت یا گنجائش نہیں تھی‘ جس پر ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کیا جاتا! ایبٹ آباد سے گلیات کے راستے خیبرپختونخوا کے آخری کونے تک جس قدر کشادہ اور ڈیزائن کی خوبیوں سے مزین تعمیراتی شاہکار (شاہراہیں) تخلیق کی گئیں ہیں‘ انہیں عملاً ممکن بنانے کے لئے درختوں کی کٹائی کے عینی شاہد بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں! یہ سب اِس لئے ہوا‘ کیونکہ سرمایہ دار ’فور بائی فور‘ موٹے ٹائروں والی ایسی گاڑیوں کے مالک ہیں جن میں سفر کا لطف ہی تب آتا ہے جب گاڑی پوری رفتار سے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر فراٹے بھرے! 

سیاحتی مقامات پر عام آدمی کے لئے سستے داموں قیام و طعام کی سہولیات معیار و مقدار کے لحاظ سے ناکافی تھیں اور آج بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی! 

سیاحت کی ترقی ایک ہدف لیکن اِسے حاصل کرنے کے لئے ایک سے زیادہ حکومتی ادارے وسائل کا ضیاع ہیں! افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ جس بے دردی سے ہمارے ہاں جنگلات کا صفایا کیا گیا اور اب بھی ہو رہا ہے‘ اُس بارے غوروخوض نہیں کیا جا رہا! آبی وسائل میں کمی اور دستیاب آبی وسائل کا غیرسائنسی یا بے دردی سے استعمال الگ سے توجہ طلب ہے۔ زراعت (آبپاشی) اُور شہری و دیہی علاقوں میں گھریلو و صنعتی ضروریات کے لئے پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ’نیشنل ایکشن پلان‘ جیسا ہنگامی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے‘ جس میں چاروں صوبوں اور ہر سرکاری ادارے کے لئے ایسی ’ٹائم لائن (کارکردگی کے اہداف مقرر اور)‘ مرتب کئے جائیں‘ جو ’’ماحول دوست‘‘ عملی اقدامات سے متعلق ہوں۔ قومی سطح پر ’ماحول دوستی‘ نصاب کا حصہ ہونی چاہئے جسے عام کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ سے استفادہ اور ماحولیاتی تبدیلی کے عوامل کم کرنے یا اُن سے نمٹنے کی تدابیر (پالیسی) وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ماحول کا خیال رکھنے کے لئے صنعتوں کی حد تک کچھ قانون یا قواعد موجود ہیں تو ان کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر فوری یا کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا کیونکہ اِن کے مالک بااثر ہیں اُور ہمارے ہاں جو جتنا بااثر ہوتا ہے وہ اُتنا ہی قانون شکنی کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے! کیا یہ بات ہر خاص و عام نے نوٹ نہیں کی کہ گذشتہ چند برس سے پاکستان میں موسم سرما کا دورانیہ کم اور موسم گرما کے مہینے شدت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں؟ برسات (مون سون) کی بارشیں مقررہ اُوقات پر یا تو نہیں ہوتیں یا پھر بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ 

گرمی کی شدت ہی ہے جس سے برفانی تودے (گلیشئرز) کے پگھلنے کا عمل تیز ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے بارش کے موسم میں سیلابوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماضی میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں برفانی اور مٹی کے تودے گرنے کے واقعات رونما نہیں ہوئے جس قدر رواں سال جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے دریاؤں کا پانی روکنے کے باعث سندھ اور پنجاب میں زرعی اراضی بنجر ہو رہی ہے۔ اِن ناموافق حالات میں حکومت کو جملہ خطرات سے بچنے کے لئے ٹھوس (جامع) ’’قومی ماحولیاتی پالیسی‘‘ تیار کرنا ہو گی‘ تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی دستک اُور اُن کی پوری شدت سے ٹکرانے کا انتظار کرنے کی بجائے ہنگامی حالات (ایمرجنسی) سے نمٹنے کی خاطرخواہ تیاری اور ماحول کا توازن بگاڑنے والی غلطیوں کا ازالہ کیا جاسکے اُور یہی واحد صورت ہے جس میں ماحول دشمن روئیوں اور اقدامات کی اصلاح کے ذریعے موسمیاتی منفی اثرات سے ممکنہ حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment