ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عیدالاضحی کے تقاضے!
تہوار کوئی بھی ہو‘ سب سے پہلا اندیشہ‘ مطالبہ اُور دھیان ’پشاور میں صفائی کی صورتحال‘ سے متعلق ذہن میں آتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صفائی کی ’’مثالی صورتحال‘‘ متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا عمومی بیان ہوتی تو حسب سابق اِس مرتبہ بھی ’عیدالاضحی‘ کے موقع پر صفائی کے ’نت نئے انتظامات‘ کا اعلان کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر صفائی کا کام سمیٹ کر ذمہ داری کسی ایک محکمے کے کندھوں پر لاد دی گئی ہے تو اِس کے باوجود بھی معاشرہ اپنی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں بَری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا اُور یہی نتیجۂ کلام ہے کہ ۔۔۔ ’’جب تک صفائی برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہر شہری محسوس کرنے کے ساتھ عملی کوششوں کا حصّہ نہیں بنتا‘ جب تک پشاور کو ’’اپنا شہر‘‘ سمجھتے ہوئے خود بھی اُور دوسروں کو بھی صفائی کی کوششوں میں رضاکارانہ طور پر شریک نہیں کر لیا جاتا‘ اُس وقت تک ’’تبدیلی‘‘ آنے کی اُمید تو کی جاسکتی ہے لیکن ایسا عملاً ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
اہل پشاور سے ایک مرتبہ پھر تعاون کی اِلتجا کرتے ہوئے ’’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘‘ کے حکام نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں (خیبریونین آف جرنلسٹس) کی وساطت سے ’تین روزہ خصوصی مہم‘ کے خدوخال مشتہر کئے ہیں جن میں اٹھارہ سو اٹھانوے اہلکار اُور دو سو تیس گاڑیاں عیدالاضحی کے دوران ’آن ڈیوٹی‘ رہیں گی جبکہ اس دوران اضافی طور پر 75 گاڑیاں کرائے پر بھی حاصل کی جائیں گی تاکہ قربانی کے جانوروں کی الائشیں اور گندگی بروقت ٹھکانے لگائی جا سکے۔ ہمیں ایک اُور مہنگی عید کا سامنا ہے جس پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہو جائیں گے۔ بالخصوص ’عیدالاضحی‘ کے موقع پر جس بیدردی سے گندگی پھیلائی جاتی ہے اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسا کہ یہ حرکت بھی عید کے مذہبی فرائض میں شامل کر لی گئی ہو! جب خاص و عام کی اکثریت اپنی اپنی استطاعت و استعداد کے مطابق گندگی پھیلانے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اُنہیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے کا نہیں خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اپنے شہر‘ علاقے محلے اُور اپنے ہی گردوپیش کی صفائی کا خیال نہ رکھ کر جن بیماریوں کو دعوت دی جا رہی ہوتی ہے وہ قطعی معمولی نہیں۔ صفائی سے متعلق اسلامی نکتۂ نظر کی تشریح طبی ماہرین بھی ’’فرائض‘‘ کے طور پر ہی کرتے ہیں اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس بارے عمومی شعور میں اضافہ کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کی طرح منبر و مساجد سے بھی وعظ و تلقین پر مشتمل ’ذکر کے حلقے‘ ترتیب دیئے جائیں۔
اِس سال قربانی کی مالی استطاعت اُور اِرادہ رکھنے والے سے اِلتجا ہے کہ وہ مال مویشیوں کے لئے چارہ صرف اُتنی ہی مقدار میں خرید کر لائیں جس قدر اُن کی یومیہ ضرورت ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں جانور کی عادات‘ پسند و ناپسند یا خوراک کے بارے معلومات خریدتے وقت باآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن عمومی روش یہ ہے کہ قیمت طے کرنے کے مراحل میں اِس بات کا دھیان ہی نہیں رکھا جاتا۔ اکثر لوگوں کو مال مویشی رکھنے کا تجربہ نہیں ہوتا‘ جو اُن کی ضرورت اور مزاج کے برعکس کھانے کے انبار لگا دیتے ہیں یا پھر مال مویشیوں کے سامنے خوراک زمین پر پھیلا دی جاتی ہے اور یوں قیمتی سبز خوراک کا زیادہ تر حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ جس کی ایک خاص مقدار نکاسئ آب کے نالے نالیوں میں بہا دی جاتی ہے یا پھر گلی محلے کے کونوں میں ڈھیر کر دی جاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ جانوروں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے پاؤں تلے کچلے ہوئی‘ گیلی‘ بدبودار گھاس نہیں کھاتے۔ اُنہیں ہروقت کھانے یا پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اُن کی بھوک ہم انسانوں کی طرح اَچانک بھڑک اُٹھتی ہے! وہ اوقات کے پابند ہوتے ہیں۔ اِسی طرح جانوروں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجانا۔ اُن کے گلے میں گھنٹیاں باندھ کر ’رات بھر‘ اندھیرے یا روشن گلی محلوں یا سڑکوں پر لے کر گھومنا پھرنا بھی مال مویشیوں کے مزاج پر بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ ہم انسانوں کی طرح جانور بھی ذہنی دباؤ‘ کوفت‘ پریشانی‘ بے خوابی کا شکار ہو سکتے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ بسااُوقات خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ مغرب سے قبل جانوروں کو کسی ایسے پرسکون مقام پر باندھ دیا جائے جہاں وہ آرام سے اپنی نیند پوری کرسکیں۔ اگر جگہ میسر ہو گلی محلوں میں جانوروں کو کسی ایک مقام پر باندھنا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ مال مویشیوں کی منڈیوں میں بھیڑ‘ شور شرابہ اور اَجنبی ماحول سے نمٹنے والے جانور اپنے قیام گاہوں سے بچھڑنے کا صدمہ بھی محسوس کر رہے ہوتے ہیں‘ جن کی ذہنی و جسمانی اذیت میں اضافہ کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔
گلے کے گرد تنگ رسی کا حلقہ‘ بھاری بھرکم سجاوٹ کے زیور اور جانوروں کو کاربونیٹیڈ ڈرنکس (پیپسی کوکا کولا وغیرہ) پلانے سے اجتناب کریں۔ مال مویشیوں کے ساتھ ’سیلفی (تصویر)‘ بنانے کی کوشش میں اُن کے زیادہ قریب جانا بھی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ کیمرے کی فلش لائٹ یا شٹر کی آواز سے گھبرا کر وہ پرتشدد یا اچانک مختلف رویئے کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کو پختہ اور گیلے فرش پر (جہاں پھسلن کا صاف خطرہ ہو) باندھنے سے قبل یا تو ممکنہ خشک کر لیں یا پھر آٹے کی خالی بوریاں‘ چادریں بچھا دیں تاکہ کھڑے ہونے یا بدکنے کی صورت وہ پھسل کر گر نہ جائیں اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے ایسا ہوتا ہے تو لنگڑا پن (علامات) ظاہر ہونے کی صورت مذکورہ جانور کی قربانی ’شرعی نکتۂ نظر‘ سے جائز نہیں رہے گی۔ انسانوں کی طرح مال مویشیوں کی صحت کے لئے بھی پینے کا صاف پانی‘ صاف برتن میں رکھا جائے۔ چند دن کے مہمان کی تواضع اور خیال رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی جائے کہ اس سے قربانی کے اجر میں اضافہ ممکن ہے جس کے لئے انفرادی حیثیت سے دانستہ کوشش کے ساتھ اُن تمام افراد کی بھی رہنمائی کی جا سکتی ہے‘ جو کسی وجہ سے مال مویشیوں کی نگہداشت کے بارے خاطرخواہ معلومات نہیں رکھتے۔
ضلعی انتظامیہ سمیت متعلقہ محکموں کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر صرف اور صرف صفائی برقرار رکھنے میں تعاون کی ضرورت پر تمام توانائیاں خرچ نہ کی جائیں بلکہ موضوع کو جامع بنانے کے لئے اس میں دیگر امور بارے معلومات بھی شامل کرکے پیغام کو زیادہ بامقصد بنائیں۔ مال مویشیوں کی ضروریات بشمول کھانے پینے اور آرام کے اوقات و ضروریات کے بارے عوام و خواص کی رہنمائی کا اہتمام و انتظام کے سلسلے میں یہاں وہاں عملی مشقوں کا انعقاد بھی ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment