Saturday, September 17, 2016

Sept2016: Passport Procedures & Issues!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاسپورٹ: رنگ‘ ڈھنگ اور جنگ!
وزیرداخلہ چودہری نثار علی خان نے سال 2016ء کے آغاز میں کہا ’پاکستانی پاسپورٹ‘ کے حصول کا طریقۂ کار آسان و باعزت بنانے کے لئے قوم سے جو وعدے کئے تھے‘ اُن پر یقین کرنے والوں کو اُس وقت شدید ذہنی صدمہ اور کوفت یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب پانچ یا دس سال بعد پاسپورٹ کی تجدید یا پہلی مرتبہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے ’اَعصاب شکن اَذیت‘ پر مبنی عمل سے واسطہ پڑتا ہے۔ 

پاسپورٹ دفتر ایک جگہ تو اُس کی فیس جمع کرانے کے لئے بینک برانچ میلوں دور منتخب کی گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاسپورٹ دفتر کے اندر ہی بینک اپنی برانچ کا کاونٹر نہیں کھول لیتی جبکہ وہ فی پاسپورٹ فیس کے علاؤہ فی درخواست گزار 30روپے ’سروس چارجز‘ بھی وصول کر رہی ہے۔ ماضی میں ہاتھ سے پُر (مکمل) کی جانے والی درخواست کی بجائے کمپیوٹرائزیشن نے لے لی ہے لیکن پاسپورٹ فیس جمع کرانے کے مجوزہ فارم (جو کہ مفت ہونا چاہئے) حاصل کرنے اُور اُسے پُر کرنے کے لئے تیس روپے جبکہ بینک کے چارجز تیس روپے اور پاسپورٹ کی نقول کے لئے فوٹوسٹیٹ چارجز تیس روپے الگ سے اَدا کرنے پڑتے ہیں۔ کسی بھی درخواست گزار کو حکومت کی مقرر کردہ فوری (ارجنٹ) یا معمول کی فیس کے علاؤہ کم سے کم ’نوے روپے‘ اضافی ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر کمپیوٹرائزیشن کر لی گئی ہے تو فوٹوسٹیٹ نقول کی بجائے اِسکینرز (Scanners) کے ذریعے دستاویزات کی نقول کسی بھی درخواست گزار کے کوائف کے ساتھ محفوظ (Save) ہو سکتی ہیں اُور اَنگوٹھے کا نشان (بائیومیٹرکس) کرنے والے ڈیسک پر ہی پیسے بھی ’آن لائن‘ جمع کئے جا سکتے ہیں‘ چونکہ ’پاسپورٹ کے درخواست گزار‘ کا موبائل نمبر حاصل کیا جاتا ہے لیکن درخواست گزار کی سہولت کے لئے اِس سے باسہولت استفادہ نہیں کیا جارہا۔ 

درخواست گزاروں کے لئے اگر پاسپورٹ فیس آن لائن جمع کرائی جاسکتی ہے تو بینک کے تیس روپے اُور تکلیف دہ عمل سے نجات کیوں ممکن نہیں۔ 

ضلع ایبٹ آباد کے پاسپورٹ آفس (منڈیاں) میں الیکٹرانک ٹوکن کا نظام عرصۂ دراز سے خراب ہے جس کی وجہ سے چوکیدار درخواست گزاروں کو ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر دینے کے علاؤہ اُن کے نمبر پکارنے اور تصدیق کے مراحل مکمل کرنے کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔ کندھے پر بندوق‘ ہاتھ میں امتحانی بورڈ اور قلم دفتر کے داخلی دروازے پر اندھیری سیڑھیوں سے متصل ٹوٹی پھوٹی کرسی پر تمام دن براجمان رہنے اُور ایک سے زیادہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے ’اِنسان (خطا کے پتلے)‘ سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خدانخواستہ کسی دہشت گرد حملے کی صورت اپنی ذمہ داریوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ترجیحات تبدیل کرے گا۔ اَفرادی قوت کے اِس طرح ’غیردانشمندانہ اِستعمال‘ کی وجہ سے کتنے لوگوں کی جان و مال خطرے میں ہے‘ یہ اِضافی بیان کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ عقلمند کے لئے اِشارہ ہی کافی ہوتا ہے!

پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کرنا اَپنی جگہ اَہم لیکن کیا ’پاکستان پاسپورٹ کی قدرومنزلت ہر گزرتے دن بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے؟ یاد رہے کہ ہمارا پہلا پاسپورٹ 1947ء کے آخر میں جاری کیا گیا‘ جس کا رنگ آج کی طرح پورا ’سبز‘ نہیں تھا‘ بلکہ گتے کی موٹی جلد میں کتابچے کی صورت اِس پر سبز رنگ کی ایک پٹی اُور دو پاکستانی جھنڈے شائع کئے گئے‘ جس کی جلد پر تین زبانوں (انگلش‘ اُردو اُور بنگالی) میں پاسپورٹ کی شناخت درج کی گئی تھی۔ 2 جھنڈے شائع کرنے کا مقصد ملک کے دو حصّوں کی نمائندگی کرنا تھا جبکہ داخلی صفحات پر پاسپورٹ کی ملکیت رکھنے والے کا نام‘ پتہ‘ پیشہ‘ تصویر اور شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے تفصیلات درج ہوا کرتی تھیں۔ یہ اَمر قابل ذکرہے کہ تب پاکستان کے پاسپورٹ پر کسی بھی ملک بشمول بھارت کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن پھر پاکستان کو ایسے حکمران نصیب ہوئے کہ جنہوں نے قومی شناختی دستاویزات بشمول پاسپورٹ کی وقعت کو اتنا کم کر دیا کہ آخر اُنہیں اپنے لئے الگ اور عوام کے لئے الگ قسم کے پاسپورٹوں کا اجرأ کرنا پڑا۔ فی الوقت پاکستان کے تین قسم کے پاسپورٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ حکمرانوں‘ قانون ساز ایوانوں کے اراکین اُور سفارتکاری کرنے والے سرکاری ملازمین کے لئے الگ جبکہ عوام کے لئے الگ قسم کا پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے جس کا رنگ ’مکمل سبز‘ ہوتا ہے۔ باقی دو پاسپورٹوں کا رنگ سبز نہیں! لیکن اگر پاکستانی جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے تو پاسپورٹ کے سرورق پر بھی سفید رنگ کی موجودگی (نمائندگی) ہونی چاہئے۔ 

عوام و خواص کے لئے الگ الگ پاسپورٹوں کے اجرأ سے اُبھرنے والا تاثر بھی ’جمہوری‘ نہیں۔ حکمرانوں کو صرف ’پاکستانی پاسپورٹ‘ کے حصول کا عمل ہی سہل نہیں بنانا بلکہ اِس کی وقعت اُور قدر بڑھانے کے بارے بھی غور کرنا چاہئے۔ 

یورپی ممالک بشمول برطانیہ نے 1983ء سے پاکستانیوں کے لئے ’آن اَرئیول‘ ویزے ختم کردیا جس سے قبل 1980ء میں عرب ممالک (متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ عمان‘ کویت اُور سعودی عرب) نے پاکستانیوں کے لئے سخت ویزہ پالیسی کا اعلان کیا۔ آج تک ہمارے حکمران صرف پاسپورٹ کا رنگ اور اِس کا سائز ہی تبدیل کرتے رہے ہیں! نائن الیون کے بعد تو صورتحال مزید بگڑ گئی کہ چین نے بھی پاکستانیوں کے لئے ویزا پالیسی تبدیل کر دی اور اب ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعویدار چین جانے والوں کو پہلے ویزا حاصل کرنا پڑتا ہے! 

پاسپورٹ پر اثرانداز ہونے والے رنگ‘ ڈھنگ اور عالمی جنگ کے مضر اثرات زائل کرنا کیا عام آدمی (ہم عوام) کی ذمہ داری ہے؟ رواں برس (سال دوہزار سولہ) میں جاری ہونے والے ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا میں کم ترین وقعت رکھنے والے گنتی کے چند ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ صاحب ثروت اور حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت ایک کی بجائے دوہری شہریت رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مستقبل کے پاسپورٹ پر انگریزی زبان میں شہریت پاکستان اور اُردو زبان میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ تحریر ملے گا تو تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے فیصلہ سازوں کے لئے کبھی بھی اسلام شناخت کا ذریعہ نہیں رہا۔ پاکستانی پاسپورٹ کی پیشانی پر اُردو اور انگریزی زبانوں میں ایک جیسی تحریریں کیوں نہیں ہو سکتیں بلکہ ’پاکستان کے اسلامی تشخص‘ کا ذکر صرف اُردو زبان میں ہوتا ہے تو ایسا کیوں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment